توقع ۔۔مختار پارس

ہر روز ایک نئے  محاذ کا سامنا ہوتا ہے،کسی کی توقع پر پورا اترنے سے بڑا کوئی محاذ نہیں۔ خدا کی توقع پر پورا نہ اترے تو خلاصی ہو جائے  گی۔ کوئی انسانوں کی نظر سے گر پڑے تو سزا موت سے کم نہیں۔ نہیں معلوم کہ انسانیت کے یہ اعلیٰ معیار، انسان نے کہاں سے سیکھے ہیں۔ جو راہِ  حیات سے گزر گئے ، وہ تو سب خاک کے پیادے تھے۔ شہنشاہوں کا رعب داب، تاریخ کے اوراق میں کچی سیاہی میں لکھے گئے  لفظوں کی طرح پھیل گیا۔ راہبوں اور مولویوں کی باتیں پتھروں سے ٹکرا کرگونجتے گونجتے معدوم ہو گئیں۔ پانچ ارب سالوں میں دس لوگ بھی ایسے نہ مل سکے ،جو ہماری  اعلیٰ انسانی اقدار کے معیار پر پورا اتر سکتے ہوں،وہ سب کے سب انسان تھے۔ مگر ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ ہم نے ضرور یہ ثابت کرنا ہے وہ کچھ ایسے تھے کہ سب انسانوں کو ویسا ہی ہونا چاہیے۔ مگر نہ وہ ویسے تھے اور نہ یہ ایسے ہو سکتے ہیں۔

دوسروں سے توقعات لگانا خود پرستی ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ہم سے ہو جائیں۔ پھر ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہم جیسے ہو کر بھی ہم سے کمتر ہی رہیں۔ احساس کمتری کی معراج دیکھیں کہ ہم اپنے سے کمتر سے بھی توقعات رکھتے ہیں۔ جو اس قابل نہیں ہوتے کہ انہیں آنکھ اٹھا کردیکھا جائے ، انہیں آنکھ بھر کر دیکھنا کیسی محرومی ہے۔ دل میں وہ لوگ گھر کر لیتے ہیں جو خود خانہ بدوش ہوتے ہیں۔ ایسے میں جب توقع ٹوٹتی ہے تو دنیا تہہ و بالا ہوتی نظر آتی ہے۔ایسے میں دنیا کا تہہ و بالا ہوتا ہوا نظر آنا بھی ایک توقع ہے۔ نہ دنیا کبھی کسی کی توقع پر پورا اتری ہے اور نہ انسان۔ مگر دنیا سے محبت کی توقع کم ہی نہیں ہوتی۔ دنیا والوں کی آنکھوں میں جو محبت ہے، فریب ہے۔ مگر پھر بھی ہم ان آنکھوں میں ضرور گریں گے، کیونکہ ان نیلے پانیوں میں عکس ہمارا اپنا ہے۔

توقع خود سے ہو یا خدا سے، اس کے ٹوٹنے کا درد سب سے شدید ہوتا ہے۔ یہ درد جب حد سے بڑھتا ہے تو دوا بن جاتا ہے۔ اس حقیقت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ جنم دے کر بے نیاز ہو جانے میں ہی راز حیات ہے۔ کوئی سائل دروازہ کھٹکھٹائے تو اپنے حصے کا کھانا بھی اسے دینے کا حکم ہے۔ ضرورت مند کی ضرورت کو اس طرح سے پورا کرنے کا حکم ہے کہ اس کو دینے والے ہاتھ کا پتہ بھی نہ چلے۔ کسی کے ہاتھ پر کچھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں شکریہ تلاش کرنے والا تو خود بھکاری لگتا ہے۔ جس سے جتنا تعلق ہو، اس سے اتنی توقع نہ رکھنے میں ہی حکمت ہے۔ اگر کوئی تمہیں عزیز ہے تو اس سے کبھی کچھ تقاضا نہ کرو۔ دوست ہے تو امکان ہے کہ دغا دے گا۔ بھائی ہے تو یقیناً ساتھ چھوڑ جائے  گا۔ رشتہ دار ہے تو پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ کسی کو ساری عمر کا ساتھ دینا ہے تواسے آنکھیں بند کر کے کچھ نہ کچھ دیتے رہو۔ اگر کبھی خود اس سے توقع لگا لی تو وہ ایسے غائب ہو گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

ایسا نہیں کہ انسان کی فطرت میں احسان فراموشی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو پیدا ہی احسان کرنے کےلیے  کیا  گیا ہے۔ جو چیز زہر قاتل ہے، وہ ہے احسان جتانا اور احسان کو فراموش کر دینا۔ قدرت یہ چاہتی ہے کہ انسان نیکی کر کے دریا میں ڈال دے۔ سارے مظاہر فطرت اسی اصول پہ کام کر رہے ہیں۔ پھول جب کھلتا ہے تو گلشن پھول توڑنے والے سے کچھ بھی طلب نہیں کرتا۔ راہرو ہو یا راہنما، ثمریاب ہو کر گلشن کو روندتے ہوئے  نکل جاتا ہے۔ جو مالی باغ میں سے گزرتے مسافر کو پھل توڑنے سے روکے، وہ گلشن کا کاروبار نہیں بلکہ اپنا روزگار چلاتا ہے۔ معاملہ ایسا ہو تو مسافروں کا اس کسان پر احسان ہو گا کہ طلب کے باوجود وہ کچھ تقاضا نہ کریں۔ اور اس کسان کا ان مسافروں پر احسان یہ ہو گا کہ بن مانگے وہ پاس سے گزرنے والوں کی پیاس مٹاتا رہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کبھی تقاضا کرنا احسان ہے اور کبھی تقاضا نہ کرنا ا حسان ہے۔

اگلے دن دوران پرواز ایک عجیب احساس ہوا۔ طیارے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو اس شہر پر نگاہ پڑی جہاں ہر طرف پھیلتی عمارتیں آسمان کو چومنے کی کوشش میں مبتلا نظر آتی ہیں۔ جہاں سیمنٹ اور سریے کی سیڑھیوں پر چڑھ کرانسان آسمان میں جھانکنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ جہاں سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی کہ سب کو ایک اضطراب کی کیفیت میں کہیں نہ کہیں پہنچنا ہے۔ وہ جگہیں جنہیں زمین پر دیکھ کر ہم دم بخود رہ جاتے ہیں،وہ لمبے چوڑے دفاتر جہاں جانے کوئی نہیں دیتا، عدالتیں جہاں ہتھکڑیوں میں لوگ لائے  جاتے ہیں، بازار جہاں سب کچھ بکتا ہے، مسجدیں اور کتب خانے،وہ راہداریاں اور مےخانے جہاں ہم نے اپنی اپنی زندگیوں کے پڑاؤ ڈالنے کا سوچ رکھا ہے، طیارے کی کھڑکی سے تو بالکل نظر ہی نہیں آ رہے تھے۔ میں نے کوشش کی کہ پہچان سکوں کہ شاید وہ سفید نقطہ، سنگ مرمر کی وہ عمارت ہو جہاں رسائی کا سوال ہی ممکن نہیں ہوتا۔ شاید ہو سیاہی مائل دھبہ وہ وسیع و عریض جائداد ہو جسے اندر سے دیکھنے کا خواب میرے دل میں تھا۔ مگر آسمان سے نیچے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ سب مٹی تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے نیچے مٹی کے ڈھیر کے علاوہ اس لینڈسکیپ میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ انسان جب خود کسی منظر کا حصہ ہو تو وہ اس ادراک سے محروم ہو جاتا ہے کہ وہ کون ہے۔ اپنے منظر سے نکل کرآسمان کی نظر سے خود کو دیکھنے کہ صلاحیت خدا والوں کو ملتی ہے۔ بلندی سے نیچے نگاہ ڈالنے کا موقع ملے تو سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کی دنیا صرف مشت خاک ہے اور کچھ نہیں۔ وہ ساری توقعات جو ہم نے اس مٹی سے لگا رکھی ہیں، ان کی حقیقت صرف اوپر والے کو معلوم ہے۔ ہماری بھاگ دوڑ، زورآور بننے کی جستجو، کمال فن کو چھو لینے کا اضطراب، اپنے اختیار سے خود کو بے اختیار کر دینے کی لگن، سب فنا کی طرف رواں دواں ہے۔

مگر ہر روز ایک نیا سورج فنا اور بقا کے نظام میں نمودار ہو جاتا ہے۔ یہی ایک سہارا ہے جو مرنے نہیں دیتا۔ ہر روز مرنے والے خدا سے نئی توقع لگا کر پھر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے بعد کی زندگی کی توقع نہ ہوتی توانسانیت کب سے کسی اور کائنات کی طرف ہجرت کر چکی ہوتی۔ پروردگار سے طلب کرنے اور اس سے توقع رکھنے کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ اس کی رضا کے مطابق ہمیں اپنی خواہشوں کو ڈھالنا ہے۔ اس کے عطا کیے ہوۓ سے ہمیں اپنوں کو پالنا ہے۔ جو وہ عطا کر دے، اسے دوسروں میں بانٹنا ہے۔ کسی دوسرے کی توقع کو مرنے نہیں دینا اور خود کو کوئی بھی توقع کرنے نہیں دینا۔ اسی دستور کے ساحل پر چلتے چلتے زندگی کی شام ڈھل جاۓ تو سمجھو کہ مراد پا گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply