ووٹ کی عزت تار تار۔۔عزیز خان

دوران ملازمت 2014 میں عمران خان کے دھرنا پر اسلام آباد میں ڈیوٹی کی ،دن رات عمران کی تقاریر سُنتے رہے، ان تقاریر کا اتنا اثر ہوا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے نفرت محسوس ہونے لگی ،ایسا لگا کہ ہمارے پیارے مُلک پاکستان کا اگر کوئی دشمن ہے تو یہی دو پارٹیاں ہیں جنہوں نے اس مُلک کو لوٹا ،برباد کیا ،انڈیا کا نمبر تو ان کے بعد آتا ہے۔
نواز شریف اور اُس کے سارے ساتھی کرپٹ لگنے لگے زرداری تو پہلے ہی بُرا لگتا تھا، 2013 میں ن لیگ کو دیے گئے ووٹ پر بھی شرمندگی محسوس ہونے لگی۔

ان تقاریر کے زیرِ اثر الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، پوری اُمید تھی کہ عمران خان پلک جھپکتے ہی اس مُلک کو جنت بینظیر بنا دے گا، دودھ اور شہد کی نہریں بہتی نظر آئیں گی مگر ڈیڑھ  سال سے  زیادہ عرصہ گزر گیا ،نہ تو دودھ کی نہریں بہیں، نہ شہد ملا ۔۔
ملی تو بس مہنگائی یا حکومتی وزرا ء کی عیاشیوں اور رنگین راتوں کی داستانیں، نہ کرپٹ  لوگ  کرپٹ ثابت ہوئے ،نہ کوئی لوٹا ہوا پیسہ باہر سے آیا، عدالتوں نے بھی ضمانتیں لینی شروع کر دیں کیو نکہ کیس ہی اتنے کمزور تھے۔

ان حالات سے تنگ آکر ایک دفعہ پھر وسیم قریشی کی اپنے قائد سے وفاداری دیکھ کر دل میں نواز شریف کے بارے میں ہمدردی پیدا ہونے لگی وہ ہمیں کرپٹ کی بجائے مظلوم لگنے لگا، جس کو اس ظالم عمران خان نے بیٹی سمیت بے گناہ جیل میں ڈال دیا۔
زرداری بھی اپنا اپنا لگنے لگا کیونکہ اُسے اور اُس کی بہن کو بھی بے گناہ جیل میں ڈال دیا گیا تھا، بلاول کی زنانہ ادائیں بھی مردانہ لگنے لگیں۔

ہمیں حکومت اور حکومتی ادارے ایک پیج پر لگے جن کا کام صر ف اپوزیشن کے لیڈروں کو بے گناہ جیل میں ڈالنا تھا۔۔مومی چوہدری کی فوج کے بارے میں پوسٹوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہمیں یہ لگا کہ فوج بھی اب وہ فوج نہیں رہی، یہ بھی عمران خان سے مل گئی ہے ،الیکشن دھاندلی زدہ اور حکومت سلیکٹڈ لگی ،ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ پر پیار محسوس ہوا ،ایک دفعہ پھر قائد تیرے جانثار بے شمار کا نعرہ کانوں میں گونجنے لگا، اب مجھے پھر لگنے لگا ایک ہی خاندان ہے جو ہمیں اس منجدھار سے نکال سکتا ہے جس کا بیانیہ تھا “ووٹ کو عزت دو ” کیونکہ دو سال سے ہمارے قائد نظریاتی ہو گئے تھے اور ہم تو سب بطور قوم ویسے بچپن سے ہی نظریاتی ہیں۔

میرا دل مچل رہا تھا کہ فوری طور پر ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کروں اور اپنے قائد محترم کے گُن گاؤں، جنہوں نے قوم کی خاطر اتنی قربانیاں دیں ،اپنی صحت داؤ  پر لگا دی، جیل جانے کو ترجیح دی، مگر ظالم حکمرانوں سے NRO نہیں کیا ،جیل میں بھی فوج اور حکمران میاں صاحب اور مریم نواز کی منتیں کرتے رہے ،مان جائیں مگر وہ NRO لینے پر تیا ر نہ ہوئے، اگر خطرناک بیماری نہ ہوتی تو کبھی بھی اپنی بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر نہ جاتے۔۔

لیکن کل 3 جنوری کی شام پھر خبر ملی کہ قائد محترم نے لندن سے احکامات جاری فرمائے ہیں، باجوہ صاحب کی ایکسٹنشن میں ن لیگ غیر مشروط حمایت کرے گی ،میرا مُنہ کھلے  کا کُھلا رہ گیا، یہ کیا ہو گیا ؟کل تو یہ نظریاتی لوگ عدالت میں نعرے مار رہے تھے “یہ کرنل جنرل بے غیرت” اب ایسا کیا ہو گیا ؟ ۔اچانک  بلاول کو بھی احساس ہوگیا کہ عمران خان کی ڈوریں کوئی اور نہیں ہلا رہا کیونکہ اب ان سب کا نظریہ اور بیانیہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک ہو گیا ہے۔

اب جمہوریت کو بھی کوئی خطرہ نہیں، نہ ہی اسلام کو خطرہ ہے ،نہ ہی کوئی غدار ہے، سب ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی طرح کھڑے ہیں۔
کل سے دل بہت اُداس ہے، کُچھ اچھا نہیں لگ رہا، اب میں اپنے ووٹ کی عزت کہاں سے تلاش کروں ،ان ظالموں نے یہ عزت اتنی  دفعہ تار تار کی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا، اب یہ عزت کہاں سے اور کیسے سلوائی جائے ؟

اب پھر یہ سیاستدان سیاسی بیان دیں گے کھسیانی بلی کی طرح ٹی وی شوز میں اپنے اپنے لیڈروں کے ان اقدام کی تعریفیں کریں گے کہ یہ جو قدم قائدین نے اُٹھایا، اس کے ثمرات مستقبل میں  سامنے آئیں گے، اُن کی سیاسی بصیرت کی تعریفیں ہوں گی ،ہزاروں جواز  پیش کیے گئے  لفافہ صحافی بھی کوئی نئی کوڑی ڈھونڈ لائیں گے اور ہم پھر اپنے لیڈروں سے پیار کرتے ہوئے انہی میں سے کوئی حکومت لائیں گے، پھر الیکشن میں دھاندلی اور سلیکٹڈ کے نعرے ایوانوں میں گونجیں گے ،نئے نئے لارے لگائے جائیں گے پھر ووٹ کی عزت لُٹے گی پھر کوئی نیا نعرہ لگایا جائے گا۔
کیونکہ ہم پاکستانی عوام ہیں بھولے بھالے درگزر کرنے اور اپنے اپنے لیڈروں کی خاطر جان دینے والے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply