ایمان, اُنیس,اسید اور خیام کے نام۔۔صائمہ بانو

ایمان, اُنیس,اسید اور خیام کے نام
(خیام میرا بچہ جو میرے تخیل میں جیتا ہے)

میرے پیارے سر تاج!
ایک شادی شدہ جوڑے کی بے لوث محبت کی کہانی پر بنی یہ ویڈیو دیکھی تو مجھے احساس ہوا کہ ہماری محبت بھی تو کچھ ایسی ہی ہے نا, جب میں زندگی کی آزمائشوں سے لڑتے لڑتے تھک کر بستر سے آن لگی تو آپ نے اپنے خاندان کی ہر ریت اور رواج کو میری خواہشات کے قدموں تلے رکھ دیا. میری ہر تمنا کو اپنی رضا جان لیا, میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی خاطر آپ نے اپنے ہر اصول, ہر رواج کو تج دیا. مجھے اپنی نرم بانہوں میں آبگینوں کی طرح سنبھال لیا, میرے ساکت قدموں کو اپنی حرارت سے نوازا, میرے منجمد نچلے دھڑ کو تحرک سے روشناس کروایا, میری کلائیاں اپنی مضبوط ہتھیلیوں میں بھر کے میری کمر سے اپنی کمر ٹیک دی, میرے شانوں کو اپنی چھاتی سے سہار کے مجھے ہمت دی, سانسیں دیں, میری دھڑکن کو سنبھالا, مجھے حوصلہ بخشا کہ میں پھر سے ایک ایک قدم اٹھا سکوں, آگے بڑھ سکوں, اور جی پاؤں. بالکل ویسے ہی جیسے میں نے ہمارے بچوں کو پہلی بار چلنا سکھایا تھا.

سادگی کو وقار اور حیا کے نام پر اوڑھ کر, شاید میں تھک چکی تھی, مجھے سنگھار کرنا تھا, رنگِ حنا سے ہتھیلیاں رچانی تھیں, چوٹی میں موتیے گوندھنے تھے, رسیلہ صندل بدن پر ملنا تھا, ریشم کے کیڑے کی رطوبت سے بنا لبادہ پہن کر, نافہ سے لیا مشک چھڑکنا تھا, مجھے سجنا تھا سنورنا تھا اور میں خوشی کے وہ تمام لمحات تصاویر میں قید کر لینا چاہتی تھی.

میں کھلی فضا میں پرواز بھرنا چاہتی تھی, ہاں میں پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنے قدموں سے روندنا چاہتی تھی, میلوں پیدل چل کر کسی جنگل میں شاہِ بلوط کا تنا چھو کر پلٹنا چاہتی تھی, کسی بگیا میں بیٹھ کر گھنٹوں ایک گلہری سے گفتگو کی خواہاں تھی, میں تتلیوں کے رنگوں سے جگنوؤں کی روشنی تک ہر لمحہ اپنی بصارت و بصیرت میں قید کرنا چاہتی تھی, سورج کی کرنوں کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر جینا چاہتی تھی, چندا کی چاندنی سے لپٹ کر ستاروں کے سنگ رقص کرنا چاہتی تھی, میں آسمان پر اپنا مچان سجاتی, ندی کنارے کسی برگد کی چھال سے جھولا بٹتی پھر اس پر بوگن ویلیا کی بیل منڈھ دیتی, میں زمین کے فرش پر چنبیلی بکھیرتی اور ہرنیوں کے سنگ فراٹے بھرتی ہوئی دور نکل جاتی. راستے میں خرگوش مجھے اپنی حیران نگاہوں سے تکتے اور سرخ چھاتی والی روبن وہ گلزار کی دھوبن چڑیا اپنی پرواز روک کر میری پیشانی چومتی, میں اپنے خوابوں میں اطالیہ کہ کسی گلی کوچے کے اک کتب خانے میں گوشۂ تنہائی کی طالب تھی جہاں بیٹھ کر میں خامشی کے سنگ پےپے رس کے گودے سے بنی کتب کے مہکتے اوراق سے اپنے لمحات سجانا چاہتی تھی, اپنے احساس کی تصویر میں رنگ بھرنا چاہتی تھی, اپنے جذبات کے مجسمے تراشنا چاہتی تھی, مجھے اپنا خیال پل پل قلم بند کرنا تھا. میرا تخیل باکر تھا میں اسے لباس مجاز سے سجاتی, کتھا در کتھا بنتی چلی جاتی, ایک حشر خیز داستان رقم کرتی اور اس داستاں کا ہر کردار کٹھ پتلیوں کی طرح اس دنیا کے میلے میں سوانگ رچاتا اور شائقین کے دل موہ لیتا.

پھر آپ نے میری تمنا, خواہش, جذبے, احساس, خیال اور خواب کو میرے اپنے ہی تخیل کے رنگوں سے سجانے کی اجازت دے دی. میرا نیم مردہ وجود جی اٹھا, میں پروائی بن کر اڑنے لگی, آپ نے اک گڈریے کی طرح میری حفاظت کی, میری گردن میں ریشم سے بنی اعتماد کی لمبی ڈور باندھ کر مجھے دور مرغزاروں تک قلانچیں بھرنے کو روانہ کیا اور میں کسی الہڑ سنہری بکری کی طرح نئے زمانے اور نئی دنیائیں کھوجتی رہی, آپ ایک گلہ بان کی طرح اپنی عمیق نگاہوں سے میری رکھوالی کرتے رہے اور جب جب میں کسی کھائی یا دلدل کی طرف بڑھی تو اعتماد کی ریشم ڈور کو ہلکے سے کھینچ کر مجھے متنبہ کیا کہ بس میری جان تخیل کی حد ختم ہوئی, یہاں سے آگے سراب ہیں اور میں سر جھکائے, تسلیم کی ادا نبھائے اپنے ہی قدموں پر لوٹ آئی, میں نے اپنے وجود کو تحلیل کیا اور جانے تخیل کے کیسے کیسے رنگوں سے خود کو رنگا, پھر میں تھک گئی تو آپ کے سنگ معبد کی محرابوں تلے سسک اٹھی اور کہا اپنے خدا سے کہو مجھے وجود دے, مجھے موجود رکھے, یہ مجازی پوشاک واپس لے لے مجھے حق کی فرغل سے نواز دے اور اپنے رنگ میں رنگ لے. آپ نے میرے آنسو پونچھے, مجھ پر قرآن کی آیتیں پڑھ کر دم کیا, دنیا جہان کے فلسفوں کی پلندے اٹھا کر ایک طرف دھکیلے اور مجھے فطرت سے ملوایا وہ بہت حسین تھی میں نے اس کی سنگت میں کائنات کا سفر کیا اور کئی منازل طے کیں, ہم بہت دور تک گئے, مقام ابعد پر جہاں کہکشاں گنگناتی ہے اور ثریا ستار بجاتی ہے وہاں بجلیوں نے تین تال پر رقص کیا, بادلوں نے اپنے طبلوں کی سنگت سے ماحول گرما دیا اور بارش نے راگ ملہار گایا.. کائنات نے دھیرے دھیرے خود کو بے لباس کیا تو میں اس کے حسن کے حضور مبہوت کھڑی آیاتِ فطرت کا ورد کرتی چلی گئی.
کیا آپ کو یاد ہے جب آپ نے ایک رات کے ابتدائی حصے میں سورہ انشقاق کی تلاوت فرمائی اور ہم دونوں ہی سکون کی چاہ میں آنسوؤں سے روئے, سسکے اور تڑپے, پھر ہمارے دل ٹھہر سے گئے. جب وہ رات جوبن پر آئی تو آپ کی آواز میں جلال, وقار, خمار اور لوبھ بڑھتا چلا گیا, شاید آپ کا گلا رندھ گیا یا وہ آپ کی چھاتی کی کھنک تھی, شاید وہ آواز کی گونج تھی یا مرتعش الفاظ جو فضا میں جادو جگا رہے تھے, وہ عجیب لمحے تھے, نیم غنودگی کا عالم, جب آپ سے میں نے پوچھا کہ میں آپ کو کیسی لگتی ہوں, کیا میں ایک اچھی شریکِ حیات ہوں اور آپ نے کہا ہیلن آف ٹرائے, میں شرما دی اور آپ سے کہا کہ ہومر کا پیرس بھی تو کوئی معمولی چرواہا نہ تھا وہ تو کنور تھا اپنی بانو کا جو سپارٹا کی چھاتی پر قدم دھر کر اپنی ہیلن کو ٹرائے لے آیا. یہ سن کر آپ مسکرا دیے اور کہا نو برس, ہزاروں دل جس رزم کے ہاتھوں برباد ہوئے ان کا سبب کچھ اور نہیں فقط تمہاری نگاہوں کا حسن ہے.

رومان میرا خواب ہے اور آج ایک انتہائی بردبار و حیا پرور شخص, رومان کے حضور اپنی ذات کے خول کو چٹخا بیٹھا تھا, میں نے خود کو ایک فاتح کی طرح پر اعتماد اور مکمل محسوس کیا. ابھی تو ہمارے رومان کے گرد چمکتے چاند نے صرف دو بار ہی اپنے چکر کاٹے ہیں کہ میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو چکی ہوں, دل میں وہ بے قراری ہے نہ اضطراب جو منہ کو آتا تھا, بے چینی, بے خوابی, تلون, وحشت, جنون و خوف سب جاتے رہے, رجائیت, بہجت, شادمانی, سرور, سرود, خمار اور مسرت نے میرے دل میں اپنا مسکن بنا لیا ہے. خوشی نے میرے گھر کی کنجیاں تھام لی ہیں اور مایوسی تو جیسے کسی عقبی دروازے سے منہ چھپا کر بھاگ نکلی ہو.
ایک وقت تھا کہ ہم ساتھ ساتھ بیٹھے, ہجر جھیلتے تھے لیکن آج آپ سے میلوں دور بیٹھی ہوں اور حالتِ وصل میں ہوں, کیا عجب عالمِ شوق ہے جو امید و امنگ کی قندیلیں تھامے مجھے نئی راہیں سجھا رہا ہے. میری زندگی کو زندگی بخشنے والے,اے میرے جیون ساتھی! اپنی محبت کی اس رسد میں اب کبھی بھی کمی نہ کیجے گا ورنہ یہ زندگی پھر سے جینا بھول جائے گی.
میں نے کبھی روئے شبِ ہجراں نہیں دیکھا

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کی تاجور
آپ کی خوشی
٣ جنوری ٢٠٢٠

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply