کیا عوام محض ایندھن ہیں؟۔۔محمد منیب خان

ہمارے ساتھ عجب واقعہ ہو رہا ہے۔ ہم منزل کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو اس سمت مسافتیں خود محو ِ سفر ہو جاتی ہیں۔ ہماراحاصلِ سفر شایدمسافت ہی رہتا ہے۔ ایسی مسافت جس کو طے کرتے ہوئے دور کوئی سراب دکھا کر عوام کو ایڑھ لگا دی جاتی ہے۔اور اس سراب پہ پہنچتے ہیں تو اگلے سراب کو منزل بتا کر پھر سے ایڑھ لگا دی جاتی ہے۔ تصوف میں تو شوق ِ سفر ہی پار لگا دیتا ہےکجا وہ سفر جو  جانب منزل ہو۔ لیکن سیاست کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہاں مسافت کا طے ہونا ضروری ہے۔ یہاں شوق سفر تو منزل نہیں بلکہ منزل سے پہلے کوئی پڑاؤ بھی منزل کا متبادل نہیں۔

تاریخ کو دیکھنے کا زاویہ نگاہ مختلف ہو سکتا ہے۔ ہر  عمل کی اپنی ایک تاویل پیش کی جا سکتی ہے۔ ہر سوچ کی اپنی ایک دلیل دی جا سکتی ہے۔ لیکن اجمالی طور پہ جو تاریخی اعمال اور واقعات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اس کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر مگر، چونکہ چنانچہ سمیت ساری دلیلیں کسی نصاب کا حصہ تو ہو سکتی ہیں لیکن تاریخ کی کتاب کے سرورق پہ نہیں لکھی جاتیں۔

پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا آئینہ اس قدر زنگ آلود ہو  چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے  کی کوئی جسارت نہیں کرتا۔ ہر چند سال بعد کوئی ایک جمہوریت کا چیمپئن بن کر سامنے آتا ہے تو وہ شیشہ اٹھا کر عوام کے سامنے لے جا کر کہتا ہے۔دیکھو اس میں اپناجمہوری عکس۔ ٹوٹے زنگ آولود شیشے میں کیسا عکس نظر آ سکتا ہے؟

یوں تو بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان کے مارشل میں شروع ہوا تاہم وہ آنے والے سالوں میں جمہوریت کے چیمپئن بن کر سامنے آئے۔ضیا کے مارشل لا میں کیا ہوا؟ بھٹو بذات خود تو پھانسی کے پھندے پہ جھول گئے لیکن ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں نے قیدو بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ان میں سے چیدہ چیدہ لوگوں کے نام تو شاید آج بھی سننے میں مانوس ہوں لیکن باقی کے سینکڑوں ہزاروں لوگ گمنامی میں یا تو موت کی وادی میں بھیج دیے گئے یا ان کی جوانیاں زنداں کی نظر ہو گئیں۔ یہاں میں ایک سوال پوچھتاہوں؟ انہوں نے اتنی تکالیف اور پریشانیاں کیوں اٹھائیں ؟ کس نظریے اور کسی سوچ کی آبیاری کے لیے سب کچھ برداشت کیا؟ یہ صعوبتیں برداشت کرتی عوام بینظیر کی وطن واپسی پہ دیوانہ وار سڑکوں پہ نکل آئے۔ موسم کی سختیوں کو نظر انداز کرتے ہوئےوالہانہ استقبال ہوئے۔ آمریت کو مجبوراً اپنا دفتر سمیٹنا پڑا تو پیپلز پارٹی کو اقتدار  بھی دوبارہ مل گیا۔

میں ماضی کا قیدی نہیں ہوں لیکن یاد دہانی ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر آباد سے 90کی دہائی میں بلی چوہے کے کھیل کامنطقی انجام پھر آمریت پہ ہوا۔ اس دس سالہ کھیل میں کون تھا جو ایک دوسرے کے مد ِ مقابل تھا؟ یہی عوام ہی تھی جو دائیں اوربائیں بازو کے نظریات میں رشتہ داری تک کرنا چھوڑ گئے تھے۔ لیکن نہ تو عوام اس ڈھائی ڈھائی سال کے جمہوری ادوار سے کوئی ثمرات سمیٹ سکے اور نہ اس سے پہلے دس سالہ آمریت سے۔ افغان جنگ کے سلسلے میں آنے والے ڈالر بھی ہمارے حالات نہ بدل سکے تو اگلی آنے والی آمریت سے کیسے امیدیں باندھی جا سکتی تھیں؟ تاہم مشرف کی آمیریت کا در کھولتے ہی ایک بار پھرسیاسی کارکنوں پہ عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ گویا کیمروں کی بہتات سے جگہ جگہ کوڑے لگانے کا کام تو سرانجام نہ دیا جا سکالیکن پرویز رشید سے مشاہد اللہ خان تک سیاسی کارکنوں پہ جو بیتی وہ لرزہ خیز ہے۔

مشرف کی نو سالہ جمہوری آمریت بھی رنگین خوابوں کی ڈراؤنی تعبیر ثابت ہوئی۔ جہاں میڈیا پھیلا وہاں آوازوں پہ قدغن لگانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا اتحادی بنتے ہی دہشت گردی کی جنگ ہمارے گھر آئی اور ایسے آئی کہ پچاس ہزارسے زیادہ جانیں چلی گئیں۔ یہ ہلاک ہونے والے، گمنام لوگ کون تھے؟ پورے ملک میں آج کیا ایک بھی یادگار ان گمنام شہیدوں سےمنسوب ہے؟۔ کسی ایک دھماکے کا سوگ سرکاری طور پہ نہیں منایا جاتا حالانکہ محض کراچی کارساز کے دھماکے میں کم از کم ڈیڑھ سو لوگ شہید ہوئے تھے۔ اس نو سالہ آمریت کا اختتام ہوا تو ایک طرف ملک میں عدلیہ کا مجروح شدہ وقار اپنی بحالی کے لیے کوشاں تھا۔ عوام اس وقار کی بحالی کے لئے سڑکوں پہ تھے تو دوسری طرف  آٹا اور چینی کی قلت کی وجہ سے لمبی قطاروں میں اپنی باری کے منتظر۔

مشرف کی جمہوری آمریت کی  کوکھ سے پیپلزپارٹی کی چوتھی جمہوری حکومت نکلی تو عوام کو پتہ چلا کہ ان کی ساری محنت اورساری سختیوں کا حاصل اب بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے طور پہ سامنے آ رہا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کے گرد توقعات کا ہجوم جمع ہونا شروع ہوا لیکن عمران خان بھی اپنا راگ الاپتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔

نواز شریف کا تیسرا دورِ  حکومت یقیناً آئیڈیل نہیں تھا لیکن دہشت گردی کے  خلاف جنگ اور لوڈ شیڈنگ ایسے مسائل تھے جو سداسے قربانی دیتی عوام کو نفسیاتی مریض بنا رہے تھے۔ لہذا ان مسائل میں کمی سے عوام کو یقیناً سہولت محسوس ہوئی لیکن ہتھیلی  پر سرسوں جمانے اورچوروںکو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پانامہ کیس سے ایک بار پھر سیاہ روایات کا احیاء  شروع ہوا۔اس کے رد عمل میں نواز شریف نے ایک بیانیہ تخلیق کیاووٹ کو عزت دو۔ تقریباً دو دہائیوں سے کسی بیانیے کے بغیر رہنے والی قوم کی ایک ایسی نسل جو سوشل میڈیا کے دور میں آمریت کے پوشیدہ مضمرات سے کماحقہ واقف تھی اور وہ نسل جانتی تھی کہ جمہور کی رائے کو اہمیت دینے سے ہی معاشرے اور قوم پنپتے ہیں، اس قوم نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہاتھوں ہاتھوں لیا۔ سب جمہوری وزرائے اعظموں اور جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے کے پیچھے مخصوص ہاتھوں کی موجودگی کا ادراک ہونے کے بعدبیانیے کو غیر معمولی پذیرائی ملنا قابل فہم بھی تھا۔

تاریخی طور پہ نواز شریف کے بیانیے کو اس بات سے تقویت ملی کہ پنجاب کے اس لیڈر نے چاہے سیاسی سفر کا آغاز آمریت سے کیالیکن اس کے پہلے دور حکومت کے بعد سے لے کر آج تک کبھی اس کی اداروں کے ساتھ نہ بن سکی۔ اور خود نواز شریف اپنا آخری سیاسی معرکہ بھیخلائی مخلوقکے خلاف لڑنے کا عندیہ دیتے رہے  تھے۔ نواز شریف کی معذولی کے بعد نئے الیکشن تک ان کابیانیہ اس قدر جڑ پکڑ چکا تھا کہ بعض موقعوں پہ باقاعدہ اداروں اور افسروں کے خلاف نعرے لگے۔ نعرے لگانے والے گھروں سےاٹھائے گئے اور پھر واپس گھر بھیج دیے گئے۔ شاید انہوں نے یہ نعرے محض نوازشریف کی محبت میں لگائے ہوں۔ لیکن دراصل یہ نعرے ملک کے سیاسی اور جمہوری نظریے کو تقویت دینے کی خاطر تھے۔ لیکن کیا ہوا عوام ہمیشہ کی طرح نعرے لگاتے رہ گئے۔

پاکستان جیسے ملک میں کسی سیاستدان کی سیاست اصولوں پہ سمجھوتا کرنے سے نہیں مرتی۔ اگر مرتی ہوتی تو ایک سال میں تحریک انصاف کی حکومت کا مزار سمجھوتوں کی منوں مٹی تلے دفن ہو چکا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، تحریک انصاف کے کارکنوں کےپاس اپنی تاویل ہے۔ اور یہ بات سب سیاستدان بدرجہ اتم سمجھتے ہیں۔ لہذا وہ اپنے مطلب کی چال چل جاتے ہیں اگر نہیں سمجھتےتو ہم عوام نہیں سمجھتے۔

اس گزری دہائی میں سیاسی مباحث میں لوگوں کے لہجے تلخ ہوئے، لوگوں کی سیاسی سوچ میں شدت پسندی در آئی۔ اور یہ بات عوام تک مخصوص نہیں بلکہ خواص بھی اس کا شکار ہوئے۔ پڑھے لکھے لوگوں نے گرما گرم سیاسی بحثوں کے بعد بول چال منقطع کی۔ رشتے کمزور ہوئے، دوستیوں میں دراڑیں آئیں۔ سیاسی بحث سے سوشل میڈیا پہ تماشا لگا۔ ایسا تماشا کہ تھمنے کا نام نہیں لےرہا۔ اس سب کا حاصل کیا رہا؟ عمران خان جو جرنیلوں کی ایکسٹینشن کے روز اوّل سے خلاف تھے اب اس کے برعکس قانون لا رہےہیں۔نواز شریف جس نے کسی جرنیل کو ایکسٹینشن نہیں دی وہ بھی اس قانون کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی  کہ جو دوجرنیلوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ہے وہ بھی ساتھ دینے کو تیار ہے۔ تو آپ کیوں بحث کرتےہوئے آستین چڑھا لیتے ہو، منہ سے جھاگ نکالتے ہو، اور سانسوں کو تیز کر لیتے ہو۔ آپ محض ایندھن ہو جلنے کے لیے۔ جلتے جاؤ تاکہ سیاسی، نیم سیاسی، عدالتی اور باوردی اشرافیہ کی ہنڈیا گل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply