سمت درست رکھیے۔۔نسرین غوری

2016 میں جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب نے فوک وزڈم پر مبنی ایک مضمون لکھا تھا ۔ “شادیاں کیجیے، جنازے نہیں” سال پہلے ہم نے بھی یہ مضمون پڑھا لیکن اس میں اٹھائے گئے نکات سے متفق نہ ہوسکے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہر سال یہ مضمون کہیں نہ کہیں فیس بک یادداشتوں میں تازہ ہوجاتا ہے اور پھر کوئی نہ کوئی اسے کہیں نہ کہیں دوبارہ پوسٹ کردیتا ہے۔ اور ہمیں اس پر اپنی رائے دینی پڑ جاتی ہے۔ سوچا کہ مضمون اپنی جگہ لیکن ہمارا اس پر کمنٹ اتنا لمبا ہے کہ اس کی خود کی ایک پوسٹ یامضمون بن گیا ہے۔ لہذا اس پوسٹ یا مضمون میں جو ایشوز اٹھائے گئے ہیں ان پر مرحلہ وار تبصرہ حاضر ہے۔۔

1۔ شادی کے اخراجات لڑکا اور لڑکی پر ڈال دیے گئے ہیں۔

یہ بات درست ہے اور کافی حد تک جائز ہے۔ گاؤں دیہات میں جہاں مشترکہ کھیت کھلیان اور فصلیں ہوتی ہیں وہاں یہ ممکن ہے کہ بچے کی شادی 20 سال میں اور بچی کی شادی 18 سال میں کردی جائے۔ جو سب کھاتے ہیں وہی وہ بھی کھالیں گے۔ جہاں سب رہتے ہیں وہیں وہ بھی رہ لیں گے۔ نئے پیدا ہونے والے بھی اسی کھیپ میں کھپ جائیں گے۔ نہ تعلیم حاصل یا مکمل کرنے کی کھکھیڑ نہ نوکری کی۔

اب آجائیے شہر کے ایک متوسط گھرانے میں جہاں کم از کم چار بچے ہیں اور اور ایک کمانے والا باپ۔ بچوں کو اچھی تعلیم بھی دلانی ہے اور ایک سفید پوش قسم کا معیار زندگی بھی برقرار رکھنا ہے۔ اب ایسے میں وہ نوکری پیشہ باپ شادی کے خرچے کہاں سے پورے کرے۔ معاشرے میں مروجہ شادی کے معیار اور اخراجات کو مد نظر رکھیے۔ ایسے میں اگر بچے یا بچیاں نوکری کر کے اپنی شادی کی تیاری میں معاون ہوتے ہیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بعد شادی کرتے ہیں تو یہ بالکل درست اور جائز ہے۔ ایک باپ اپنے چار بچوں کی پرورش بھی کرے، اچھی تعلیم بھی دلائے، اس پر شادی کا بوجھ اور پھر نئی نسل کے اخراجات بھی ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔

اب لے آئیں اسلام کو بیچ میں تو عرض ہے کہ رسول اللہ نے اپنی ہر شادی خود کی تھی۔ چچا یا دادا نے اخراجات نہیں اٹھائے تھے۔ حضرت علی کی شادی بھی انہی کے خرچے پر ہوئی تھی جو زرہ بکتر بیچ کر پورے کیے گئے تھے۔ کہیں کسی صحابی کی شادی کے بارے میں بھی نہیں سنا کہ ان کے ابا جی نے انہیں گھوڑی چڑھایا تھا۔ اس معاشرے میں تو اپنا رشتہ بھی خواتین خود طے کرلیا کرتی تھیں۔ اور جس مرد کے پاس شادی کے اخراجات نہیں ہوتے تھے اسے روزہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

2. کزن میریجز نقصان دہ نہیں۔

اگر آپ کے خاندان میں کزن میریجز کے نتیجے میں کوئی معذوری یا بیماری نہیں تو شکر ادا کیجیے کیونکہ میڈیکل ریسرچز کے نتائج اس کے بالکل برخلاف ہیں۔ اور کراس سیکشنل میریجز کے انسانی جینز خاص کر انٹلیجنس / ذہانت پر اثرات کے بارے میں بھی تھوڑی سی ریسرچ کرلیجیے۔ افاقہ ہوگا۔ ویسے مجھے تو یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اگر رسول اللہ کے سامنے کسی سائنسی ریسرچ کے نتائج پیش کیے جاتے کہ کزن میریج کے یہ نقصانات ہوسکتے ہیں تو کیا وہ اس سائنس کو رد کردیتے یا اس علم سے فائدہ اٹھاتے۔۔

3. شادی کی عمر گزرنے کے باعث تمام نوجوان نسل قبل از شادی جنسی تجربات سے گزر چکی ہوتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں بے راہ روی پھیلی ہوئی ضرور ہے لیکن اس کا دائرہ 100 فیصد وسیع نہیں ہے۔ نہ ہی پاکستانی معاشرہ ہم ٹی وی کا کوئی ڈرامہ ہے جس میں ہر ایک کے ہی قبل از شادی اور شادی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ضمن میں کوئی ریسرچ پیش کریں۔

4۔ سولہ سال کی عمر میں شادی کردینی چاہیے۔
16 سال کی عمر میں بچی کی شادی بچی اور اس کی اگلی نسل پر ظلم ہے۔ ایک طرف تو آپ ایک بچی سے اس کا بچپن چھین رہے ہیں دوسری طرف جب وہ فوری طور پر پریگننٹ ہوتی ہے اور ڈلیوری کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ تو پریگننسی کے دوران ابارشن ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

دوسرے اس کا ہڈیوں کا اسٹرکچر میچور نہیں ہوا ہوتا۔ نتیجہ ڈیلیوری کے دوران بچے کا سر پیلوک بونز میں سے گزر نہیں پاتا، پھنس جاتا ہے جسکے نتیجے میں بچے کی ڈیتھ ہوسکتی ہے۔اگر یہ صورت حال زیادہ دیر تک رہے تو اس بچی کی پیشاب یا پاخانے کی نالی اور بچے دانی کی نالی کے درمیان رگڑ کے باعث سوراخ یا فسٹیولا ہوجاتا ہے جس کے باعث اس کا پیشاب اور پاخانے پر سے کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے۔ یہ سوراخ آپریشن سے ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں صحت کی عام سہولیات ہی پہنچ سے باہر ہیں وہاں یہ سہولیات کب عام عورت کی پہنچ میں ہونگی۔
تیسرے ہمارے ملک میں جہاں خواتین کے علاوہ مرد بھی غذائیت کی کمی کا شکار ہیں وہاں ایک سولہ سترہ سال کی بچی جس کی اپنی ہڈیوں اور جسم کو غذائیت کی ضرورت ہے اسے پریگننسی کی صورت میں ایک پیراسائیٹ کی پرورش بھی کرنی پڑے جو اس کی بچی کچھی غذائیت بھی چوس لے، نہ ماں کو پوری غذائیت ملے نہ بچے کو، نتیجہ ماں پریگننسی اور ڈلیوری میں موت کے دہانے پر کھڑی رہے اور بچہ ناکافی غذائیت کے سبب پری میچور یا انڈر ڈیویلپڈ پیدا ہو، اس کی ذہنی استطاعت ایک صحتمند بچے سے کمتر رہے اور وہ تاعمر حصول علم اور حصول معاش میں دوسرے نارمل بچوں سے پیچھے رہے ۔ رسول اللہ ایک پری میچورڈ ، کمزور اور ذہنی طور پر لاغر امت کی فراوانی پر کتنا فخر کر پائیں گے

5۔ طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سیکنڈ ہینڈ مال اور دیر سے شادی ہے۔

سوری جناب ۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ یہ ہے کہ خواتین پڑھ لکھ کر اپنے حقوق جان گئی ہیں۔ اور نوکری کرنے کے باعث وہ مردوں پر ڈیپنڈنٹ نہیں ہیں۔ جبکہ مرد پڑھ لکھ کر بھی آج بھی فیوڈل منٹیلٹی رکھتے ہیں۔ عورت کو استعمال کی کوئی شے سمجھتے ہیں۔ تو تعلیم یافتہ اور مستحکم عورت ایک تکلیف دہ شادی شدہ زندگی پر پُرسکون طلاق یافتہ زندگی کو ترجیح دیتی ہے۔

کم عمری کی شادی ذہنی ہم آہنگی کی کوئی شرط نہیں ہے۔البتہ اسے ذہنی غلام باآسانی بنایا جاسکتا ہے۔ کم عمر بچی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی ، غلط باتیں برداشت کرتی رہتی ہے ،ظلم سہتی رہتی ہے لیکن طلاق لینے سے ڈرتی ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر کم عمری کی شادی میں شوہر ظالم ہی ہوتا ہے یا ہر تعلیم یافتہ لڑکی طلاق لینے پر تلی بیٹھی ہے۔

6. ساس سسر کی کمرہ بدری

یہ والدین کی اپنی تربیت منحصر ہے ۔اگر آپ کے والد نے اپنے والد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہوگا کہ بیوی کے کہنے میں آکر باپ کو کھڈے لائن لگا دیا تو آپ بھی اپنے والد کے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اس پر میں شرط لگا سکتی ہوں۔ کیونکہ بچے ماں باپ کے عمل سے سیکھتے ہیں۔ یہ میں اپنے سامنے اپنے محلے، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں میں کئی خاندانوں میں دیکھ چکی ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بے جا رسموں اور روایتوں کی وجہ سے شادی مشکل اور مہنگا کام ہوگیا ہے۔ اس پر یقیناً کام کرنے اور تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن برائے مہربانی شادی سے جڑے ایشوز پر اپنی سمت سیدھی رکھیے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply