ویڈیو (قسط 5)۔۔وہارا امباکر

کیمرہ کی لائٹ آن ہو گئی تھی۔ ابو مصعب الزرقاوی نے دونوں ہاتھوں سے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جس سے پڑھنا شروع کیا۔ سیاہ کپڑے اور منہ ڈھکا ہوا۔ نارنجی سوٹ میں کمبل پر ایک شخص آگے بیٹھا ہوا تھا۔ ٹانگیں اور بازو رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔

“مسلمانو، زبردست خبر ہے۔ نئے سویرے کی آمد ہے اور فتح کی ہوا چل رہی ہے”۔ زرقاوی کے ساتھ چار لوگ سیاہ لباس میں رائفل اٹھائے کھڑے تھے۔ توجہ کمبل پر بیٹھے نوجوان کی طرف تھی۔ نکولس ایوان برگ کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بڑا حملہ (قسط 4)۔۔وہارا امباکر

اس کمرے سے لانے سے پہلے برگ کو ایک کرسی پر بٹھا کر اسی کیمرہ کے آگے سوال کئے گئے تھے جس کے سکون سے جواب دئیے تھے۔ “میرا نام نک برگ ہے۔ میرے والد کا نام مائیکل ہے۔ میری والدہ کا نام سوزن ہے۔ میرا ایک بھائی ڈیوڈ اور ایک بہن سارا ہے۔ میں فلاڈیلفیا میں ویسٹ چیسٹر میں رہتا ہوں”۔

چھبیس سالہ نک برگ ایک ٹیکنیشن تھے اور ان کا مواصلاتی آلات ٹھیک کرنے کا بزنس تھا۔ دو مہینے پہلے وہ سب کے منع کرنے کے باوجود عراق اکیلے اس امید سے پہنچے تھے کہ یہاں سے کام مل سکے گا۔ اس سے پہلے کینیا میں کام کرتے رہے تھے اور اب تھرل کے شوقین نک برگ نئی جگہ کی تلاش میں تھے۔ اونچے ٹاور پر چڑھ کر مرمت کرنے کی تھرل ان کا پیشہ بھی تھا اور مہارت بھی۔ مٹی کے بلاک کا استعمال ان کا اپنا ڈیزائن تھا جس کا تجربہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس سے یہ مرمت کم لاگت پر ہو سکتی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ عراق میں مواصلاتی نظام کی تعمیرِ نو میں ان کو کام مل سکتا ہے۔ موصل میں کھمبے پر چڑھے ہوئے نک برگ کو عراقی پولیس نے جاسوس سمجھ کر پکڑ لیا تھا۔ کچھ نہ ملنے پر 6 اپریل کو چھوڑ دیا گیا اور واپس جانے کا کہا گیا۔ انہوں نے بغداد سے واپسی کی ٹکٹ خریدی۔ 10 اپریل کو ان کی فلائٹ تھی۔ اس سے ایک دن پہلے اپنے ہوٹل سے غائب ہو گئے۔ ان کی فیملی ان کو ڈھونڈتی رہی۔

ایک ہائی وے کے اوور پاس میں 8 مئی کو کسی نے ایک چیز لٹکتی دیکھی۔ قریب جا کر یہ نارنجی رنگ میں ایک جسم نظر آیا جو رسی سے لٹک رہا تھا۔ اس کو کھینچ کر دیکھا تو ہاتھ اور پیر رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ اس کے نیچے خون آلود کمبل تھا اور ایک نوجوان کا کٹا ہوا سر۔ نکولس برگ مل گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے دو روز بعد ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر نمودار ہوئی اور دیکھی جانے لگی۔ یہ عراق جنگ کا ایک مشہور نظارہ تھا۔ نک برگ زمین پر بیٹھے ہوئے، چہرے پر کوئی تاثر نہیں۔ پانچ نقاب پوش افراد ایک دیوار کے آگے کھڑے ہیں۔ درمیان والا شخص ایک سکرپٹ پڑھ رہا ہے۔ نارنجی سوٹ بدنام ابو غریب جیل کی علامت تھا۔

سکرپٹ پڑھتے شخص نے کہا، “کیا کوئی وجہ رہ گئی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ ایک مسلمان کیسے گھر میں سو سکتا ہے جب اسلام کو ذبح کیا جا رہا ہے، اس کی عزت تار تار کی جا رہی ہے اور ہر مسلمان کے لئے ابوغریب کی شرمناک تصاویر سب کے سامنے ہیں۔ کہاں گئی غیرت؟ کہاں ہے غصہ؟”۔

چند منٹ تک یہ جاری رہا۔ پھر امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے وارننگ دی گئی۔ “تمہارے لئے مشکل دن آ رہے ہیں۔ تم اور تہمارے فوجی اس روز کو پچتھائیں گے جب انہوں نے عراق میں قدم رکھ کر مسلمانوں کو للکارا تھا۔ ہم بدلہ خون سے لیں گے۔ تہمیں ایک کے بعد دوسری لاش، ایک کے بعد اگلا تابوت ملیں گے۔ ہر ایک کو اسی طرح ذبح کیا گیا ہو گا”۔

اس کے بعد زرقاوی نے ایک لمبا چاقو نکالا۔ دوسروں نے قیدی کو پکڑا۔ زرقاوی نے برگ کے بال ایک ہاتھ سے پکڑے اور دوسرے سے برگ کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ ایک چیخ بلند ہوئی، تڑپتا جسم اور اگلے کئی سیکنڈ تک چاقو کام کرتا رہا۔ آخری مناظر میں سفید نقاب میں ملبوس زرقاوی کے ایک ساتھی نے کٹا ہوا سر فاتحانہ انداز میں کسی ٹرافی کی طرح اٹھایا اور پھر واپس رکھ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک کم کوالٹی کے کیمرہ سے لی گئی 5 منٹ اور 37 سیکنڈ کی یہ ویڈیو ایک ایسا کام تھا جس کو کرنے کا کسی نے اس سے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ یہ فوری ہٹ ہوئی۔ امریکہ سے جنوبی ایشیا ء  تک اَن گنت کمپیوٹروں میں ڈاؤن لوڈ ہوئی۔ کچھ کو اسے دیکھ کر جھرجھری آئی، کسی نے اداسی سے دیکھا، کسی نے غصے سے، کسی کو ابکائی آئی۔ لیکن یہ دیکھی گئی۔ گھر گھر دیکھی گئی۔ یہ جہادی میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی سب سے مقبول ویڈیو رہی۔ اس کے نیچے “ابو مصعب الزرقاوی امریکی کو ذبح کرتے ہوئے” کا ٹائٹل لگایا گیا تھا۔

اس سے پہلے بھی ذبح کرنے کی ویڈیوز بنی تھیں۔ لیکن نک برگ کو نشانہ صرف اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہ امریکی تھے اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس کو پہنچانا آسان تھا۔ اس قسم کا کھلا شاک نیا تھا۔ القاعدہ عراق کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اپنے حربوں کیلئے کوئی تاویل گھڑنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد سر کاٹے جانے کی ویڈیوز دھڑا دھڑ بننے لگیں۔ “ذبح کرنے والا شیخ” اب ہر ایک کی نگاہ میں تھا۔ زرقاوی کو اب عالمی شہرت مل گئی تھی۔ تنظیم کے لئے نئے لوگ بھرتی کرنا اور دنیا سے اپنی کاز کے فنڈ اکٹھے آسان تر ہو گیا۔ دہشت کی مارکٹنگ ایک نیا طریقہ تھا۔ “پبلسٹی جیسی بھی ہو، بری نہیں ہوتی”۔ اس کے بعد آنے والے ری ایکشن نے یہ مقولہ ایک بار پھر ٹھیک ثابت کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر نک برگ کے والد کی، اس واقعہ کی پہلی برسی پر۔ مائیکل برگ پیسیفسٹ تھے اور ویت نام کی جنگ کے دور سے جنگ مخالف تھے۔ عراق میں جنگ کے فیصلے پر احتجاج کیے جانے والے مظاہروں میں شرکت کرتے رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عراق کی جنگ (قسط 3)۔۔وہارا امباکر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply