• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران بھی پاکستان کی طرح اپنے حق کے لیے لڑنا چھوڑ دے۔۔اسد مفتی

ایران بھی پاکستان کی طرح اپنے حق کے لیے لڑنا چھوڑ دے۔۔اسد مفتی

یورپی  یونین نے ایران کے خلاف سخت   پابندیوں  پر  اتفاق کرلیا ہے،ہالینڈ کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ ان پابندیوں میں یتل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کو روکنا اور ریفاءئننگ ونیز قدرتی گیس کی پیداواری صلاحیت کو کم کرنا ہے،اخبا نے لکھا ہے کہ یہ اقدامات ان پابندیوں سے متجاوز ہیں،جن پر اقوام متحدہ نے گزشتہ جون کو اتفاق کیا تھا۔
ادھر جرمنی کے ایک ہفت روزہ نے اپنی حالیہ اشاعت میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ نے ایران جوہری تنازع پر ناکامی کی صورت میں حملہ کی تیاری کرلی ہے،ایران پر حملہ آخری حل ہے کہ پچھلے چند برس سے مغرب اسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کی کوششیں کرتا رہا ہے،تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سفارتی و سیاسی ذرائع سے معاملہ حل نہیں ہوپائے گا،ایران ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے سنجیدگی سے غور ہورہا ہے۔

میرے حساب سے ان دنوں امریکی اور یورپی راہنما کھلے عام اس تنازع پر گفتگو کررہے ہیں،اور اسکی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ تازہ ترین سروے میں 62فیصد امریکیوں نے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے فوجی مداخلت کی حمایت کی ہے،علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ روکنے اور اسرائیل کو تباہی سے بچانے کے لیے ایران پر حملہ ہی آخری حل رہ گیا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کی درجنون ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی امریکہ کے پاس صلاحیت ہے،امریکہ نے ایران کو گھیرے میں لے لیا ہے،مغرب میں افغانستان (اور پاکستان)مشرق میں عراق،ترکی اور قطر اور جنوب میں عمان اور ڈیگوگارشیا میں امریکہ اپنے فوجی اڈے قائم کرچکا ہے۔خلیج کے پانیوں میں امریکی بحریہ کے جہاز موجود ہیں،جوحملہ آور جنگی لڑاکا طیاروں اور کروز میزائلو ں سے لیس ہیں۔پاکستان و افغانستان میں ڈرون طہاروں کی کھیپ موجود ہے،امریکی سرزمین سے اُڑنے والے ب یٹو بمبار طیارے بھی حملے میں استعمال کیے جاسکتے ہیں،یہ بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ یا کہ فضائی حملہ بہت آسان ثابت نہیں ہوگا،ایرانیوں نے حملے کی صورت میں دفاع کی تیاری کررکھی ہے،اہم ترین علاقوں پر فضائی دفاعی نظام قائم کیا جاچکا ہے،اور انہیں زمین کی گہرائیوں میں پنہاں کردیا گیا ہے،ایٹمی پلانٹ کے حساس حصوں کوزمین کے اندر 80فٹ کی گہرائی میں منتقل کردیا ہے،اور اس پر مزیدحفاظت کے لیے دومیٹر موٹی کنکریٹ کی تہہ بچھا دی گئی ہے،نیز اصفہان کے ایٹمی پلانٹ کے گرد بھی مضبوط حصار بنایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایران اسی حصارمیں مقید رہے گا؟
میرے حساب سے ایسا نہیں ہوگا،کہ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے سربراہ یوگیاآمانو نے ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے سلسلے میں تہران اعلامیہ کی حمایت کی ہے،ہالینڈ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکیا آمانو نے رومانیہ کے وزیر خارجہ کو نسل سے ملاقات میں اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ تہران،ترکی،اور برازیل کا مشترکہ اعلامیہ ایران کے ایٹمی مسئلے کے حل میں غیرمعمولی مدد کرے گا،اس اعلامیہ کے مطابق ایران،تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لیے ا120کلو گرام ایٹمی ایندھن کے عوض لگ بھگ120کلو گرام یورنئیم ترکی منتقل کرے گا،اور اس کے مقابل ترکی کی ذمہ داری ہوگی،کہ وہ اپنے ایٹمی ایندھن کی منتقلی میں بھی کسی قسم کا خلل پیدا ہونے کی صورت میں ایران کا پورا یونیم اسے واپس کردے گا،
تاہم ایرانی حکومت کے مطابق ایران بیرون ملک یورنیم منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے،تہران نے آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا آمونوکو مطلع کردیا ہے،کہ وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ یورنیم کو ایران سے باہر کیا جائے،اس کے بجائے اس نے ایرانی علاقہ ہی میں نیو کلئیر مادہ کو آئی اے ای اے کے کنٹرول میں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔

ادھر ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے ایران ٹیلی ویژن کوانٹر ویو دیا ہے جسے یورپین ٹی وی نے بھی دکھایا ہے،اس میں علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ یورپین یونین کے ساتھ ایٹمی ایندھن کا تبادلہ اس کی سرزمین پر ہوگا،ایران کا یورنیم سربمہر کرکے ملک کے اندر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سپرد کردیا جائے،تاآنکہ اسے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ضروری ایندھن مل جائے،صالحی نے یہ بھی کہا ہے کہ ایران کواگر بیرون ملک سے 20فیصد زرخیزیورنئیم مل جائے ت وہ ا س کی پیداوار روک دے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایران زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے خلاف سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی تازہ پابندی پر جلد بازی میں اقدامات اٹھاتے ہوئے ایران کے ایک مشہور بنک جس کا نام پوسٹ بنک ہے،اور اس کے دو انقلابی پاسداران نیز کئی ایرانی فرموں کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی کارروائی مکمل کرلی ہے،اور اس کا امریکی حکام نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ پوسٹ بنک ایران کے متنازع نیوکلئیر پروگرام میں ملوث ہے،امریکہ کی فہرست تحریرات میں شامل ایرانی بنکوں کی تعداد اب بڑھ کر 19ہوگئی ہے،انقلابی پاسداران کے دواعلیٰ کمانڈوز بھی پابندیوں کی زد میں آگئے ہیں،یہ دونوں کمانڈو نیو کلئیر پروگرام سے منسک تھے۔

مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران کا پورگرام نیوکلئیر اسلحے کی تیاری کے لیے ہے،یورپین یونین کی تحریرات کے ذریعے تجارت بشمول دوہرے استعمال کی اشیا ء کی تجارت،بینکنگ و انشورنس ٹرانسپورٹ سیکٹر بشمول جہاز رانی اور فضائی کارگو نیز تیل اور گیس کی صفت کے اہم شعبوں پر دباؤ ڈالنا ہے،اور امکان ہے کہ ان اقدامات کے سبب ایران پر زبردست مالیاتی دباؤ پڑے گا،ادھر یورپین یونین کے بعج ممالک بالخصوص جرمنی جس نے ایران کے تیل اور گیس کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری کررکھی ہے،پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر وال سٹریٹ جرنل نے اطلاع دی ہے کہ ایران نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی میں موجود ایرانی ملکیتی بنک کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے،
مذکورہ بنک(ای آئی ایچ) نے ایرانی کمپنیوں کے لیے ایک بلین ڈالر سے زائد کی مدد دی ہے،اخبار کے مطابق یہ ایرانی کمپنیاں ایران کے فوجی اور بلاسٹک میزائل پروگرام سے وابستہ رہی ہیں،اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تحت دنیا کے ممالک کو ایران کے لیے ممنوعہ اشیالے جانے والے مشکوک جہازوں کو سمند میں معائنے کا حق حاصل ہے،انہوں نے مزید چند احکامات سے بھی اتفاق کیا ہے،جن میں ایران کے شعبہ توانائی میں سرمایہ کاری پر پابندی بھی عائد ہے۔
تہران نے بارہا اس بات کو واضح طور پر کہا ہے کہ اس کا نیوکلئیر پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے،ایران دنیاکا پانچواں سب سے بڑا کروڈ آئل برآمد کنندہ ملک ہے،لیکن اس کے پاس ریفائننگ صلاحیت کم ہے،

یورپین ممالک نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایران نے ایسے کئی مواقع سے استفادہ نہیں کیا،جو اس کے نیو کلئیر پروگرام کو نوعیت پر بین الاقوامی برادری کی فکرمندیوں کو دور کرنے کے لیے پیش کیے گئے تھے،ان حالات میں نئے تحریراتی اقدامات ناگزیر ہوگئے تھے۔
میرے حساب سے دراصل امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر پہلے دن سے ہی ایران کو نشانہ بنانء کا اعلان کرچکا ہے،حالانکہ پانچ سال قبل جب آئی اے ای اے کے سابق سربراہ محمد البرادی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ایران کا مسئلہ حل ہوگیا ہے تو پھر آج کیا افتاد آن پڑی ہے؟
ایران کو چاہیے کہ وہ بھی پاکستان کی طرح اپنے حق کے لیے لڑنا چھوڑ دے اور پاکستان کی طرح دوسروں کی مہربانیوں،مراعاتوں،اور سہولتوں پر جینا سیکھ لے،کہ مستقبل میں دنیا ترقی یافتہ “ترقی پذیر” اور “غیر ترقی یافتہ”کی اصطلاحوں کے بجائے ذہین،ذہین تر اور ذہین ترین ممالک کی اصطلاحیں استعمال کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply