برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے مطالعے اور تجزیے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ، برطانوی سامراج نے کس طرح سے برصغیر کے بسنے والوں کو تقسیم کرکے ان میں زبان، مذہب، نسل اور رنگ کی بنیاد پرایسے تضادات پیدا کیے کہ وہ رہتی دنیا تک ان کی جڑوں میں سرائیت کرگیا، لیکن ایک وقت ایسا بھی وقت آیا کہ جب، انگریزوں سے آزادی کے حصول کی خاطر ہندو، مسلم سکھ اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکار یکجا ہوگئے اور 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی شروع کر ڈالی جو کہ ایک باقاعدہ پہلی بڑی کاوش ٹھہری اور مغربی آقاؤں کو اندازہ ہوا کہ شاید اب کافی عرصہ تک برصغیر پر اپنی حکومت قائم رکھنا ممکن نہ ہو سکے۔
قائداعظم اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے، آپ نے کانگریس سے علیحدگی اس بناء پر اختیار کی تھی کہ آپ کو ہندوؤں کی منفی سوچ اور ہندوستان صرف “ہندوؤں کا ہے”والی سوچ کا بھرپور ادراک ہوچکا تھا ، دوسری طرف دو قومی نظریہ جو کہ تقسیمِ ہند کی بنیاد بن چکا تھا، اور جوں جوں آزادی کا وقت قریب آرہا تھا، مسلمانوں پر یہ حقیقت کُھل چکی تھی کہ، ہندو اور مسلمان مزید کسی طور ایک ملک میں اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔
مگر مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو کہ الگ ملک کے نا صرف خلاف بھی تھا بلکہ وہ کانگریس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے قائد اعظم کی بھرپور مخالفت کرتے رہے اور مسلمانوں کو آزادی کے نام پر دو دھڑوں میں تقسیم کردیا تھا، بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان مرض وجود میں آیا، یہ مملکت خداداد قائداعظم کے اصولی موقف کی جیت تھی، کہ ہزاروں سال ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے ایسے الگ ہیں جیسے دریا کے دو کنارے، وقت نے ثابت کیا کہ قائداعظم محمد علی جناح کی دوربینی بالکل درست تھی۔
ہندوستان میں جو مسلمان رہ گئے تھے وہ آج تک بد ترین حال میں ہیں، ان کو کبھی موسلہ، کبھی آتنک وادی کہہ کر قتل کیا جاتا رہا اور عورتوں کی عزتیں تار تار کی جاتی رہیں ،ظلم کی حد تب ہوئی جب RSS جوکہ ہٹلر کی طرز ِ سوچ رکھنے والی تنظیم اور بد ترین ہندوانہ عسکریت پسند تنظیم کا دست راست مودی گجرات کا وزیراعلیٰ بنا ،اس نے مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے اور ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، نریندر مودی نے اپنے آپ کو ہندوؤں کا ہیرو ،مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر ثابت کیا اور اسی وجہ سے وہ آخر کا پردھان منتری کے عہدے پر براجمان ہوا، مگر جب دوسری بار مودی سرکار آئی تو اس نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا بارہا اظہار کرنے کے ساتھ آخرکار دسمبر 2019 کو اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے متنازعہ شہریتی بل کو اکثریتی رائے دہی سے پاس کرکے 22 کروڑ ہندوستان میں قیام پذیر مسلمانوں کے مستقبل کو غیر محفوظ بنا کر، 72 سال پہلے کے قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریے کو 100 فیصد درست ثابت کیا کہ ہندو قوم، مسلمانوں سے شدید ترین نفرت کرتی ہے، اس متنازعہ بل سے مسلمانوں میں اضطراب کے ساتھ ساتھ ان کا مستقبل مزید غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی،، پورے بھارت میں آگ بھڑک اٹھی ہے، پوری دنیا کا میڈیا بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کررہا ہے، ہر عروج کو زوال ہے، خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا بھارت آج کروڑوں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے میں لگا ہوا ہے۔
لیکن طاقت کے نشے میں چور مودی بھول گیا تھا کہ عوامی طاقت حکمرانوں کو سڑک پر گھسیٹ کر مارتی ہے، بھارت کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے بھارت میں موجود مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی چھوڑ کر ان کو اقوام متحدہ کے عالمی اصولوں کے مطابق شہریوں کے حقوق دے، مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں کو انکا حق خودارادیت دے تاکہ خطے میں استحکام ہو اور یہاں کے غریب عوام کا میعار زندگی بہتر ہو سکے۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں