اندرونی تنازعات۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی ذات سات بنیادی ضروریات یا مطالبات کے گرد لپٹی ہے، یہ سات بنیادی ضروریات (مطالبات) – وجودِ فرد (ہونا )، عزتِ نفس ، خود انحصاری ، مظہرِ ذات ،احساسِ ملکیت ، سلامتی اور روحانیت ہیں، اس ہفت نکاتی نظام کے فریم ورک میں صرف شخصی و نفسیاتی ضروریات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، اس میں کوئی جسمانی یا حیاتیاتی طلب شامل نہیں، دوم یہ کہ ان تمام ضروریات کا اس نظام کے اندر ایک دوسرے پر انحصار ضروری نہیں۔

انسان کے باطن میں تنازعہ تب پرورش پاتا ہے جب ان اندرونی ضروریات یا مطالبات میں سے کوئی دو یا دو سے زیادہ ایک دوسرے کے مخالف سینہ سپر نظر آئیں، یہی مڈبھیڑ کسی بھی شخصی و نفسیاتی تنازعے کی بنیادی وجہ ہے، یعنی کسی ایک مقصد کی تکمیل میں کثیر جہتی مطالبات کا ابھر کر سامنے آنا۔

مثال کے طور پر ایک شخص مظہرِ ذات کیلئے، اپنے شوق یا مجبوری سے، کسی ایسے پیشے کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے خاندان یا معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تو یہاں مطالبۂ عزتِ نفس سر اٹھاتا دکھائی دے گا کہ ایسے پیشے کے انتخاب پر اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا اور اقارب آوازیں کسنے سے بھی باز نہ آئیں گے اور فرد کو ذلّت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یا پھر دوسری صورت یوں بھی ہو سکتی ہے کہ فرد اپنے مظہرِ ذات کیلئے ایسے پیشے کا انتخاب کرتا ہے جو رائج معاشرتی پیمانوں پر تو پورا اترتا ہو مگر فرد کو خود پر یقین نہیں کہ وہ اس ذمہ داری سے نمٹ پائے گا اور ناکامی کی صورت میں تنقیدی رویّوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے دو معاملات میں عمومی افراد مظہرِ ذات کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے عزتِ نفس کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، اگرچہ ایسے مردانِ آزاد بھی معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو مظہرِ ذات کو ترجیح دیتے ہیں اور معاشرے کی تنقید کو ثانوی گردانتے ہیں مگر دونوں صورتوں میں ،کم یا زیادہ، اندرونی تنازعہ موجود رہتا ہے۔

ایک دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ احساسِ ملکیت، سلامتئ ذات کے مدمقابل نظر آئے، مثلاً ایک فرد اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے احساسِ ملکیت کی تشنگی کا سامان کرنا چاہتا ہے مگر معاملہ یوں ہے کہ اس صورت میں اسے سلامتی  ذات میّسر نہیں، یعنی کہ فرد کی شخصی و ذاتی حدود یا حقوق کی خلاف ورزی کا خطرہ موجود ہو، یوں ایک اندرونی تنازعہ جنم لیتا ہے، احساسِ ملکیت فرد کو کنبے کی طرف کھینچتا ہے جبکہ تحفظِ ذات دوسری سمت، عموماً کرخت مزاج والدین کے بچوں میں ایسا نفسیاتی کھچاؤ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

انسانی زندگی میں یہ تمام مطالباتِ ذات ایک دوسرے کے مدمقابل آسکتے ہیں سوائے مطالبۂ ہستی ، یعنی وجود، کے۔ ہستی یا وجودِ فرد ایک جوہری یا بنیادی عنصر ہے، جو کسی دوسرے عنصر کے ساتھ تنازعہ میں نہیں۔ یہ بنیادی عنصرِ بقا یا تو مکمل طور پر غالب و مطمئن ہے، اور اگر ایسا ہے تو نفسیات کی زبان میں نفسِ مطمئنہ شاید اسی کا نام ہے، یا پھر یہ سرے سے غائب ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں، ایسی صورت میں انسانی ذات کے اندر ایک اندرونی گہرا خلا واقع ہوتا ہے، ایک خالی پن، ایک تاریکی، ایسی ذات کے اندر جھانکنا گویا کہ بلیک ہول پہ نگاہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ نفسیات کی زبان میں split personality اسی کا نام ہے۔

اس مضمون کا اصل موضوع یہ ہے کہ کیا یہ اندرونی تنازعات کسی بھی فرد یا معاشرے کیلئے ہمیشہ منفی ثابت ہوتے ہیں؟
ایسا بالکل بھی نہیں، یہ تنازعات ایک خاص حد کے اندر دوسمتی واقع ہوئے ہیں، اجتماعی اور انفرادی طور پر ان تنازعات کے منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ بے شمار مثبت پہلو بھی ہیں، اس بات کا مکمل انحصار فرد کی روحانی و نفسیاتی بلندی پر ہے۔
عموما کوئی بھی اندرونی تنازعہ فرد کیلئے باعثِ اضطراب ضرور ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فرد کی شخصی  ترقی و نفسیاتی بلوغت کا انحصار بھی بہت حد تک انہی تنازعات پر ہے، فرد انہی مضطرب کیفیتوں سے گزرنے کے بعد ہی کندن بن پاتا ہے، اور اگر واقعتاً مذکورہ اندرونی مشکالات پر قابو پاتے ہوئے منزل پالیتا ہے تو اس سے بلند آسودگی ء  ذات کی کیفیت ممکن نہیں، یہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر معاشرتی و نفسیاتی علوم کی نئی راہیں، نئی جہتیں بھی کچھ زاویوں سے انہی تنازعات کی مرہونِ منت ہیں،( خاکسار کے نزدیک، ہم خیال دوست، جیسی خوبصورت اصطلاح کا مطلب ایک جیسے اندرونی تنازعہ جات رکھنے والے افراد کیلئے استعمال ہوتی ہے۔)، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ان تنازعات کی کیفیت ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ہی مثبت نتائج دے پائے گی، ان میں شدّت ہمیشہ بگاڑ کا سبب بنے گی۔

دوسری طرف اگرچہ علومِ نفسیات کے ماہرین فرد کے انہی تنازعات پر قابو پانے کی جدوجہد میں کئی صدیوں سے مصروف ہیں اور بحیثیتِ مجموعی انسان خود بھی ان مضطرب کیفیات کے حل کی کوشش میں ہے اور مختلف قوموں میں ان پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں مگر واقعہ  یہ ہے کہ اگر فرد روحانی طور پر ایک خاص اوج حاصل نہیں کرپایا اور ریاستی و معاشرتی کوششوں سے ان تنازعہ جات سے نجات پا چکا تو ایک اندرونی خلا، ڈپریشن کی شدید ترین کیفیت، کا شکار ہونا لازم ہے کہ یہی تنازعہ جات ہی انسانی شخصیت و نفسیات کے معمار ہیں، ان کے بغیر فرد نفیساتی و شخصی اطمینان حاصل نہیں کرپاتا، اور نتیجہ شدید اضطراب کی صورت میں سامنے آئے گا، سویڈن جیسی ویلفیئر سٹیٹ میں خودکشیوں کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ البتہ اگر انسان روحانی منازل طے کرتے ہوئے ان تنازعات سے آزاد ہو جائے تو اطمینانِ کامل یقینی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply