• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ٹھٹھرتا ہجر: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

ٹھٹھرتا ہجر: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

تم سے بچھڑے ہوئے کئی  سال ہو گئے۔بچھڑتے وقت وصل کے مختصر لمحے اور ہجر کی صدیاں میرے دامن میں بھر گئے۔ہجر کے پنجے ہر رات میرے وجود کو نوچنے کے لئے بڑھتے ہیں تو معصوم وصل خوفزدہ ہو کر دل کی ویرانیوں میں پناہ گزیں ہو جاتا ہے۔اور ہجر میرے دل کی ویران دیواروں سے تمام ارمانوں, ملاقات کی حسرتوں,تکمیل کی خواہشوں اور پناہ گزیں وصل کو کریدنا شروع کر دیتا ہے۔حسرتیں,خواہشیں, ارمان اور وصل خوفزدہ ہو کر اتنا چیختے ہیں کہ  مردہ دھڑکنیں زندہ ہونے لگتی ہیں۔زندہ ہو کر دھڑکنیں میرے دل کی زمین کو بنجر کر کے کسی اور ٹھکانے کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں ۔اور میں بے جان دل لئے ہجر کے صحرا میں تپتی ریت پر ننگے پاؤں سفر شروع کردیتی ہوں اور جانتے ہو اس صحرا میں نہ زمین ہے نہ آسمان صرف کچھ ہے تو خلا۔ وہی خلا جو تمہاری غیر موجودگی میں میری زندگی میں اب ہے۔
ہمارے ہجر میں جو اک خلا ہے
مجھے معلوم ہے وہ کیا بلا ہے

یادوں کی تپش, بکھرے وعدو کی کرچیاں اور ٹوٹی امیدوں کے ذرّے میرے پاؤں زخمی کرتے رہتے ہیں۔ وصل کے مختصر مگر خوبصورت لمحوں نے وصل کی مزید خواہشوں کو خیمہ زن کر لیا اور دوسری طرف ہجر کا پیاسا پنچھی میرے چٹختے وجود اور کرچی کرچی ہوئی روح کی منڈیر پر آن بیٹھا ہے۔جسے بے ترتیب سانسوں کی آندھی ہوا دے کر ہمیشہ ہی تروتازہ کرتی رہتی ہے۔ہجر میرے مساموں میں گُھل چکا ہے۔اب یہ ہجر کسی بھیڑیئے سا محسوس ہوتا ہے جو رات ہوتے ہی میری وصل کی معصوم خواہشات کا شکار کرنے چل پڑتا ہے۔شکار ہوتا وصل تڑپتے ہوئے اپنے شکاری ہجر کو دیکھتا ہے۔اور شکاری منہ سے خون صاف کرتے ہوئے غرور سے اسی طرح چلتا ہے جیسے تم جدائی کے وقت میرے ارمانوں کا خون کر کے چل دیئے تھے۔

تم نے کبھی دیکھا ہے ہجر کا جنون؟ نہیں نا

میں نے سہا ہے اس جنون کو، جب ہجر کا جنون عروج پر ہو تو وحشی بھی کانپ جاتے ہیں۔جنگلوں کے درندے لرز اٹھتے ہیں۔حتی کہ انسان اس ہجر کی جنونیت سے قبروں میں جا پہنچتے ہیں۔اور دیکھو میں اس ہجر کی جنونیت کو سہہ کر اسی طرح پال رہی ہوں جیسے کوئی عورت اپنی کوک سے جنم لینے والے کو پالتی ہے۔

میں تمہیں اور تمہارے عطا کیے ہجر کو شعور اور لاشعور اور تخیل کے اونچے مقبرے کی ہر دیوار سے نوچ کر پھینک دینے کی سعی کرنا چاہتی ہوں ۔مگر۔۔۔۔
جانتے ہو تمہارے سرد لہجے سا دسمبر ہے اور اس سرد موسم میں میرا سرد رویہ تم سے سہا نہ جائے گا اور یہ ظالم ہجر ٹھٹھرتا ہوا مر جائے گا۔

اب تم میرے تخیل سے آزاد ہو کر برف کا مجمسہ بن جاؤ گے اور تخیل میں قید رہ کر پگھل جاؤ گے۔تمہیں سرد شاموں کے حوالے کر دوں تو تم نیلے پڑ جاؤں گے اور تمہیں اگر سنہری دھوپ کو سونپ دوں تو ذرد پڑ جاؤ گے۔تمہاری مورت بناتی ہوں تو پوجنے کی گستاخی کر بیٹھو ں گی اور تمہیں خاک ہی رہنے دوں تو بکھر جاؤ گے۔سوچتی ہوں تمہیں رنگوں سے حسن بخشوں  مگر رنگ تمہاری صورت بنانے کو تیار ہی نہیں۔ بے وفاؤں سے رنگ بھی روٹھ جاتے ہیں۔بچھڑ جانے والوں کی صورت کینوس پر کبھی بنا ہی نہیں کرتی ۔ہجر کے تحفے اذیت کے بے رنگ پھولوں کو جدائی کے خوبصورت غلافوں میں بانٹنے والوں کی صورت صرف آتش دان میں بھڑکتے کوئلوں سے اٹھنے والی راکھ سے بنا کرتی ہے ۔وہ راکھ جو بغیر مقصد ،بغیر مطلب اڑتی ہے اور جس کو دامن پر گرنے نہیں دیا جاتا اور بالآخر اس راکھ کو ہوا کے پروں پر سوار ہو کر انجان ٹھکانے کی طرف رواں رہنا پڑتا ہے۔تم بھی کسی آتش دان کی وہی راکھ ہو جس کو دامن پر گرانے کی اب ہمت نہیں۔کہ دامن تو پہلے جلا چکے ہو اور جلے ہوئے دامن پر تمہاری بے وفائی کی راکھ کے لئے اب مزید جگہ ہی کہاں ہے۔

تمہاری جدائی نے اب عجیب کیفیت طاری کر دی ہے۔ہنستے ہوئے آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگ جاتی ہے اور روتے ہوئے آنکھوں میں خشک سالی کا موسم چھایا رہتا ہے۔لکھتے لکھتے اکثر کھو جاتی ہوں اور کھوئے ہوئے اکثر ہی انجانے میں تمہارے نام محبت کے کئی پیغام لکھ دیتی ہوں۔وہ پیغام کسی کاغذ پر نہیں, کسی قلم سے نہیں بلکہ میری سانسوں کی بے ترتیبی سے فضا میں موجود کہیں تھوڑے سے تمہارے لمس پر لکھتی ہوں وہ لمس جو فضا کو نصیب ہوتا ہے مجھےنہیں۔یادوں میں تمہارے وعدوں کی راکھ سے اٹھتا دھواں اب ہمیشہ ہی چائے سے اٹھتے دھوئیں کو نگل جاتا ہے اور گرم اذیت میں ٹھنڈی چائے پیتے پیتے اب حلق پر بیٹھی آواز بھی سرد پڑ رہی ہے۔ایسی حالت میں ہوں کہ آتش دان کے پاس منجمند ہو جاتی ہوں اور برف میں اترتے ہی پگھل کر بہنے لگتی ہوں۔روشنی میں دیکھنے سے قاصر رہتی ہوں اور اندھیرا ہوتے ہی تمہارے عکس کا ہاتھ تھام کر محبت کی دنیا میں عشق کی دیوی بن کر لمبی مسافت طے کرنے نکل پڑتی ہوں۔۔وہ دیوی جس کو ایک نظر دیکھنے والے دیوانے ہو کر جلتے کوئلوں پر بھی رقص کر لیں اور وہی دیوی اب تمہاری بے رخی میں ہر دم اذیتوں کی دُھن اور آنسؤں کی تھاپ پر رقص کرتی ہے۔تمہاری یاد دسمبر کی خنکی میں تمہارے سرد پڑے وعدوں کو وصال کی خواہش کی حدت سے پگھلا کرمیرے آنگن میں آبشار کی مانند بہا رہی ہے۔اور یہاں کہیں میری آنکھ کے کسی بنجر کونے میں کوئی اداس آنسو تنہا منجمند بیٹھا ہے۔

کھڑکی پر جمی اوس پر تمہارے نام کے ہجے لکھ کر مٹا رہی تھی کہ کوئی سرد وجود میرے پاؤں سے ٹکڑا گیا۔یہ ہجر تھا۔۔وہ ہجر تو تمہاری عنایت ہے۔وہ ہجر جو ساری رات چراغوں میں میرے لہو سے جلتا ہے۔وہ ہجر جو صحراؤں میں میرے آنسوؤں سے پلتا ہے۔وہ ہجر جو دل کے بجھنے سے اٹھنے والے دھوئیں سے سنہرے دنوں کو سیاہ شام میں بدل دیتا ہے۔وہ ہجر جو آنسو کو سہما دیتا ہے اور درد کی دھمالوں سے عروج پاتا ہے۔وہ ہجر کہ جسکی بدولت میں تمہاری یادوں کے ٹمٹماتے دیے تھام کر سانسوں کی روانی کو بھی روک دیتی ہوں۔وہ ہجر کہ میری سوکھی آنکھوں کی تہوں میں گھس کر روز ہی بنجر آنکھیں کھرچ کر آنسوں کو ڈھونڈ لاتا ہے۔وہ ہجر کی  جو رفتہ رفتہ گدھ کی مانند میری ایک ایک بوٹی نوچ رہا ہے۔

اب اس سرد شام میں یہی ہجر بھٹکتا ہوا ٹھٹھرتا ہوا، میرے دامن میں خود کو چھپانے کی کوشش میں تھا۔مگر میرے دامن میں تمہارے سرد وعدے پناہ گزیں تھے۔ٹھٹھرتے ہجر نے پلکوں کی گرمائش میں سکون حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہاں لٹکتی تمہاری بے وفائی اسکو ٹھوکریں مار رہی تھی۔ہجر نے ہاتھوں میں سمٹنا چاہا تو ہاتھوں میں موجود تمہارے لمس سے اٹھتا تعفن ہجر کا دم گھونٹ رہا تھا۔ہجر ہر طرف سے نا مراد و نا امید رہ کر وہیں میرے قدموں میں سمٹ کر بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ہجر کی موت اب قریب تھی۔

اب میرے کمرے میں ٹہلتا ہوا سرد پڑتا ہجر کہیں نہ کہیں خود کو چھپانے کی جدوجہد میں ایک بار پھر سے مصروف تھا۔باہر برف تھی اور ہجر منجمند ہونے سے ڈرتا تھا۔دسمبر کی سرد شامیں ہجر کو ہمیشہ ہی اب خوفزدہ کرنے لگی تھیں۔ہجر سے اٹھتے اذیت کے شعلے کتنا عرصہ ہی میرے وجود پر اچھل اچھل کر پڑتے رہے ہیں۔ہر بار جل کر راکھ ہو کر میں نے پھر سے خود کو سمیٹا تھا اور سمیٹ کر پھر سے ہجر کے آتش دان  میں اپنا وجود جھونکا ہے۔ہر شام ایک عرصے سے سورج غروب ہوتے ہی جو میں کہیں کمرے میں قید ہو کر یادوں کی وادیوں میں سراب کے پیچھے بھاگ نکلتی تھی اب آج اس ہجرِ بے چین کو دیکھنے بیٹھ گئی  ہوں ۔اسکی بے چینی اور بے بسی میرے اور معصوم وصل کے لئے باعث مسرت ہے باعث سکوں بھی۔خود کو تڑپانے والے کے عطا کیے ہجر کو تڑپتا دیکھنا مجھے محظوظ کر رہا تھا ۔

اس ہجر نے کئی بار جون کی تپش میں میرے وجود کو سرد کر رکھا تھا اور اب اکثر دسمبر کی بھیگی اور سرد راتوں میں میرے آنسوؤں کی گرمائش میرے وجود کو کچھ اس طرح گرما دیتی کہ  میں اپنے وجود میں یادوں کی تپش سے سلگ اٹھتی ۔اور اب یہ ہجر خود دسمبر کے اثر میں ٹھٹھرتا ہوا مارا مارا میرے قدموں میں پھر رہا تھا۔وصل دل کی چٹختی دیواروں سے باہر آ بیٹھا ہے۔ایک عرصے سے وصل کا وجود اس ہجر نے اپنے تیز پنجوں سے نوچا ہے۔وصل کا جھریوں سے اَٹا  چہرہ ہجر کی بے رحمی کی داستان سنا رہا ہے۔چند آنسو , کچھ خواہشات اور مختصر ارمان قطار در قطار نکل کر میری آستینوں پر ڈیرہ ڈال کر تڑپتے اور سرد پڑتے ہجر کا تماشا دیکھنے آن بیٹھتے ہیں۔ہجر کا سورج ڈوب رہا تھا۔ہجر کی اذیت کا حصار ٹوٹ رہا تھا۔زندگی پر پھیلی سیاہی چھٹ رہی تھی۔

میں نے بھی تمہارے نام لکھے محبت کے پیغامات سے ہر لفظ نوچ کر آتش دان کے حوالے کر دیا۔تمہارا ہر وعدہ ہر امید کو چیر پھاڑ کر آگ میں پھینک دیا۔تمہارے نام لکھی محبت کی غزلوں اور نظموں کو آگ میں جھونک دیا۔ان کے جلنے سے یک دم دھواں اٹھا۔اس دھوئیں سے بننے والی صورت مجھے خوفزدہ کر رہی تھی۔تمہارا عکس دھوئیں میں نظر آنا میرے دل کو موم کرنے لگا۔

تبھی لاشعور سے ایک بھیانک چیخ نے میرے کانوں کے پردوں پر ضرب لگائی۔یوں جیسے جھلس کر غزلوں اور نظموں کے تمام لفظوں میں جان آگئی  ہو۔محبت کے پیغامات بھڑک اٹھے ہوں ۔محبت کے وعدے غصے میں آ گئے ہوں۔سرد شام میں ٹھٹھرتے ہجر کو دیکھتے ہوئے یک دم آتش دان کی راکھ سے تمہاری یادوں کی گٹھڑی میرے دامن میں آ گری۔

ٹھٹھرتے روز و شب ہیں ٹھٹھرتا ہجر ہے ،ٹھٹھری یادیں ہیں ۔اور دودھیا سی دھند جو ہر طرف چھا رہی ہے۔دھند یادوں پر پڑ گئی  تو یادیں بھی دھندلا جائیں گی۔اور ہجر ٹھٹھرتا ہوا سرد پڑ کر نیلا ہو جائے گا۔ہجر کی موت واقع ہو گئی  تو تمہارے دی ہوئی اذیت بھی مر جائے گی۔اور یہ اذیت مر گئی  تو میں تمہارے احساس سے بالکل محروم ہو جاؤں گی تمہاری یادوں سے محروم وصل کے انتظار سے محروم۔اس ہجر نے دل کی شفاف چادر پر اذیت کی سیاہی آہستہ آہستہ کچھ اس طرح بکھیر دی ہے کہ اب ہر طرف اذیت کی سیاہی ہے۔اور اس سیاہی کے بغیر میں جینے کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔ان یادوں کو سردی میں سرد پڑنے, اور ہجر کو ٹھٹھرنے سے سے بچانے کی خاطر سوچا ہے کہ دسمبر کی اس سرد شام میں ہجر کے لئے کچھ بُننا شروع کر دوں۔یہ سوچتے ہی آستینوں پر بیٹھے آنسو, ارمانوں ,خواہشوں اور وصل نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ میرے لئے اب کچھ اہم نہ تھا مجھے اس ہجر کو بچانا تھا۔مجھے ہجر کو بچا کر تمہاری عطا کردہ اذیت کو محفوظ کرنا تھا۔یہی سوچتے ہوئے میں نے
بُننے کے لئے سامان دیکھا تو یادوں کی اون ملی۔جذبات کا کروشیا ملا۔الفاظوں کے ڈیزائن ملے۔لمحوں کے رنگ ملے۔ جدائی کا ہنر ملا۔اذیت سے بُننے کا ہنر نکھر چکا ہے۔سرد پڑتے ہجر کے لئے سسکیوں کے سائز کا اذیت کا سویٹر بُننا شروع کیا۔

اور پھر آنسو,ارمان,وصل ,خواہشیں اور محبت کے الفاظوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔میں نے آگے بڑھ کر ان کو تھامنا چاہا۔مگر ہجر نے اپنے پنجے میرے وجود میں گاڑھ لئے۔اور پھر آنکھ کے کونوں سے آنسوؤں نے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں پلکوں کی شاخوں سے زخمی ہوتے آنسو زمین پر ہجر کے قدموں میں گر رہے تھے , دھڑکنیں وحشت زدہ ہو کر جیسے میرے دل سے باہر دوڑنے لگی تھیں۔ایک طوفان برپا ہو گیا۔ارمان اپنا خاک وجود لئے دوڑنے لگے۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا انجانے میں ہجر کو آغوش میں لے کر میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی  اور ہجر کے پنجوں کی تکلیف محسوس ہی نہ ہوئی ۔ اور بے ترتیب سانسوں کی تپش سے تمہارے خیال جلنے لگے,وصل اپنا بے جان وجود لئے کھڑکی سے باہر روانہ ہو گیا۔

ہجر کی ٹھنڈک میرے وجود میں اتر رہی تھی۔میں نے اپنی ڈائری کو آتش دان  میں پھینک دیا۔سب جلا دیا۔۔۔ تمہارے وعدے، تمہارے لمس کی قید کی گئی  خوشبو,تمہاری عطا کردہ اذیت کے بے رنگ وجود میں خوبصورت الفاظوں سے بھرے رنگ, سب آگ کے حوالے کر کے اس ٹھٹھرتے ہجر کو گرم کر کے بانہوں میں بھر لیا ہے اور رہا وصل,دھڑکنیں خواہشیں اور ارمان وہ اوس پڑی  کہ کھڑی کے باہر جا بیٹھے۔اور انکے سرد پڑتے وجود دیکھ کر میری آغوش میں بیٹھا ہجر ویسی ہی مسکراہٹ لئے ہوئے ہے جیسی شکاری ہرنیوں کا شکار کر کے ان کو تڑپتا ہوا زندگی بچانے کے لئے دوڑتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔۔اور اب ہر طرف کمرے میں اذیت کی سیاہی پھیل رہی تھی اور میں ہجر کے پنجوں کی اذیت سہتے سہتے سکوت مرگ کے عالم میں ہوں۔
مرے دل میں دسمبر جم گیا ہے۔۔۔
پگھل کر سال بھر بہتا رہے گا

درد انگیز نگاہیں وصل کی, حیرت زدہ دھڑکنیں ارمانوں کی اور وحشت زدہ خواہشوں کی سانسیں مجھے ہجر سے زخمی ہوتا دیکھ کر دسمبر میں سلگ رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹھٹھرتا ہجر: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

Leave a Reply to Shoaib Cancel reply