سورج کی غربت۔۔ہما جمال

ایک اور سال بیت گیاانسان صدیوں پرانا ہوچکا لیکن اسکی رِیت نہ بدلی۔۔2019 اختتام پذیر ہوا، لیکن شروع ہونے سے ختم ہونے تک اس سال کے سورج نے دنیا پر ہزاروں تماشے دیکھے،کہیں زندگی کو بیزار دیکھا، کہیں زندگی کو گلزار دیکھا، کہیں زندگی چھینی جاتی، بلبلاتی ، کہیں زندگی اٹھکیلیاں دکھاتی۔

پاکستان میں اس سال بھی سورج نے انسانیت کو مرتے دیکھا،کہیں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے بھونا گیا، (سانحہ ساہیوال)
کہیں ہجوم میں بااثر افراد کے ہاتھوں کسی غریب  ارشاد رانجھانی کو بے بسی سے مرتے دیکھا۔
فرشتہ جیسی معصوم بچیوں سمیت سینکڑوں معصوم بچے بلاتفریق  جنس  ہوس کی بھینٹ چڑھتے دیکھے، رمشا جیسی غریب لڑکیوں کو بااثر افراد کے ہاتھوں مرتے مسلتے دیکھا ، غربت کی چکی میں پسے پندرہ سالہ ریحان کو چند روپے چرانے کے عوض جانوروں کی طرح بندھتے پٹتے پھر مرتے دیکھا، گل سماں کو غیرت کے نام پر زمیں میں گڑتے دیکھا، کہیں انسان نما درندوں کی درندگی کا سامنا کرتے صلاح الدین کو پوچھتے دیکھا، اک بات بتاؤ ماروگے تو نہیں ،تم نے مارنا کہاں سے سیکھا؟
انصاف کو دن دہاڑے بکتے دیکھا، سیاست کی دھینگا مشتی میں عوام کو پستے دیکھا، کتنے ہی لوگ بے گھر ہوئے، غربت کے نیچے جو لکیر ہے اس لکیر پر انسانیت کو سسکتے دیکھا۔

سورج اپنی دھرتی پر ہر روز نیا تماشا  دیکھتا رہا، ہر رات اداسیاں سمیٹے غروب ہوتا لیکن پھر اگلی صبح چپ چاپ صبح سویرے طلوع ہوجاتا، اپنی روشنی دنیا بھر میں پھیلا کر چپہ چپہ روشن کرکے مخلوق خدا کو بینائی بخشتا ۔
ہم ہر روز ایک تماشا دفناتے اور دوسرا تماشا نئے   سورج کیلئے تیار رکھتے۔
پھر بھی ہم نے سورج کی قدر جانی ہی نہیں، اپنی مرضی کی رنگینیاں اپنے رتجگوں میں بکھیرتے رہے، اور سورج کو اک روزمرہ عادت سمجھتے رہے، کبھی اس پر اور اس کی خدمات کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔

لیکن سال 2019کے اختتام پر دنیا بھر کو روشنی بانٹتا سورج خود کو گرہن لگنے کی خبر پر تماشا بن گیا۔۔
لوگ سورج کو گرہن لگنے کی خبر پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ،استغفار کا ورد کرتے، اس سے بچنے کی ایک دوسرے کو ہدایتیں کرتے، اور تو اور کچھ منچلے اس کے سیاہ ہونے کو اتنے بیتاب تھے کہ سو ہی نہ سکے اور کچھ بیدار ہوکر اس کی کالک کا تماشا دیکھنے کے درپے رہے۔
انسانوں کا یہ رویہ صرف سورج نہیں۔۔۔
اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ بھی ازل سے وہ یہی برتاؤ کرتا چلا آرہا ہے۔
نفسا نفسی کے اس دور میں کسی کی ذات کی خوبیاں دوسروں کو اتنا متاثر نہیں کرپاتیں جبکہ اسکی ذات سے وابستہ چھوٹی سی خامی بھی اسکی تمام تر خوبیوں پر حاوی ہو کر اسے کالک زدہ بنادیتی ہے۔

پھر لوگ اسے بھی اسی طرح تماشا  بناکر چہ میگوئیاں کرتے ہیں جیسے سورج پر گرہن لگنے کو،اسی طرح اس سے بچاؤ کے طریقے بتاتے ہیں، کچھ پارسا استغفار کا ورد   کرکے اپنے گرد حصار کھینچ لیتے ہیں۔

سورج اور سورج کی مانند لوگ کس قدر غریب ہیں، کہ وہ اپنی تمام تر روشنی اور صلاحتیں اس دنیا کو دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا نصیب تماشا  ہے،گوکہ سورج کی مانند لوگ اس دنیا میں کم ہی پائے جاتے ہیں لیکن انہی لوگوں سے اس دنیا کی امید قائم ہے،جو دردِ  دل کے واسطے جینے کو فوقیت دیتے ہیں، اور کسی صلے کے طالب بھی نہیں ہوتے۔
سال 2020 کا سورج جانے کیا کچھ دیکھے گا، لیکن سورج کی مانند لوگوں کو اس سال عہد کرنا ہوگا کہ چاہے ہوائیں کتنی ہی مخالف سمت چلیں، کتنے ہی گرہن منتظر رہیں، اپنی روشنی سے دنیا کو منور کرنا ہے،اگر کہیں مایوسیاں، اداسیاں ہمیں غروب کررہی ہوں تو دنیا کو منور کرنے کے خیال سے پھر سے پوری آب و تاب سے چمکنا ہے،مثل سورج   اپنے عمل سے وہ روشنی پھیلانی ہے کہ جس سے دوسروں کو انکی راہ معلوم ہوسکے۔

آخر میں دعا ہے کہ یہ سال سورج اور سورج جیسے لوگوں کی وجہ سے امیدوں سے روشن رہے، مایوسیاں، ادسیاں اس پر گرہن بن کر کبھی نہ چھائیں اور سورج کی غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply