مائنڈ سیٹ کیسے بنتا ہے؟۔۔حافظ صفوان محمد

یہ بات سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی تفہیم کی ضرورت نہیں کہ جو نظریات یا خیالات معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں وہ اصل میں پروان چڑھتے نہیں بلکہ چڑھائے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے بالادست طبقوں (عسکری و مذہبی اشرافیہ، حکمران، انتظامیہ، وغیرہ) کا مفاد ہوتا ہے، چنانچہ ان نظریات کو وہ خود ہی فروغ دیتے ہیں اور ان کی نشر و اشاعت کے لیے عوام ہی کا پیسہ اور گوشت و خون استعمال کرتے ہیں۔ اس دعوے کو کچھ مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

مثال کے طور پر دیکھیے کہ یہ خیال کہ “مذہبی طبقہ غریب ہوتا ہے”، کی تاریخ یہود کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ اس آسمانی مذہب کے ماننے والوں کا یہ مائنڈ سیٹ بنایا گیا کہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے حلال طیب مال کا اتنے اتنے فیصد حصہ تو لازمًا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی چھوٹی بڑی لغزش پر مذہبًا اتنا اتنا صدقہ دیا جائے۔ اور اسی پر اکتفا نہیں بلکہ استحبابًا اور شوقًا بھی دیتے رہا جائے۔

یہی مائنڈ سیٹ عیسائیت میں پروان چڑھا۔ آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ بیشتر قدیم و جدید بڑے بڑے چرچ دراصل ان مالدار بیواؤں کا مال و جائیداد ہیں جو چرچ نے مختلف گناہوں کی پاداش میں “قبول” کیے ہوئے ہیں۔ تابوتوں میں سکوں کے کھنکنے کی آوازوں والی موسیقی اور مغفرت کے اعلانات والی شاعری پڑھیے۔ یہی مذہبی ٹیکس والا جبر بڑھا تو اسلام نے آکر واضح اعلان کیا کہ وہ “ادیان کے ظلم سے نکالنے” آیا ہے۔

بعد ازاں اسلام والے بھی اسی روش پہ چل نکلے۔ قرآن جیسی ہمیشہ کے لیے کارآمد آخری وحی نے مذہبی ٹیکس کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی بلکہ صرف ترغیب دی، تاہم اس کی مقدار کو بعد ازاں ڈھائی فیصد مقرر کر لیا گیا۔ یہ مقدار ہرگز زیادہ نہ تھی لیکن عیسائیت سے مال بنانے کے ہتھکنڈے سیکھنے والوں نے اس “فرض” مقدار کے ساتھ ساتھ اس قدر نفلی مالی صدقات کی بھرمار کر دی کہ ڈھائی فیصد نکالنا بھی مشکل ہوتا گیا۔

ہاں، یہ بات واضح رہے کہ ہر مذہب کی مذہبی جنتا کا مال بنانے کا اصول یہی ہے۔ اس کی صرف یہ مثال کافی ہوگی کہ غزنی کے محمود کو سترہ بار صرف ایک مندر کو لوٹنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ غریب ہندو اپنی کمائی سے اس مندر کو دیتا تھا!

بات مائنڈ سیٹ بنانے کی ہو رہی ہے۔ آج ایک جگہ اس موضوع پر بات چل رہی تھی۔ لکھا کہ روزمرہ کی کہاوتیں دیکھ لیجیے۔ مثلًا کہا جاتا ہے کہ غریب آرام کی نیند سوتا ہے اور امیر بے چین سوتا ہے کیونکہ غریب کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا اور امیر کو اپنی دولت کے چوری ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ آپ گرمی، مچھروں، شور، بدبو والی جگہ پر اچھا سوئیں گے یا ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں اور آرام دہ بستر پر؟ کیا آپ آرام سے سو سکتے ہیں اگر آپ کو اگلے دن روٹی کی فکر ہو، دوا کے لیے پیسے نہ ہوں، فیس کے پیسے نہ ہونے کے سبب سے بچے سکول نہ جاسکتے ہوں، نوکری سے برخاسگتی ہوگئی ہو، وغیرہ وغیرہ۔

یہ خیال اس لیے پھیلایا گیا اور اس کی اشاعت کے لیے بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ غریب اپنے حال میں خوش کھال مست رہے اور امیر کی دولت سے حسد نہ کرے۔ اگر کوئی انسان زیادہ تنخواہ والی ملازمت پر چلا جائے تو اسے نمک حرام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی انسان کو صرف غلامی کرنی چاہیے اور اپنے مفاد کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

اسی طرح لوگوں میں یہ یقین پھیلانے کے لیے صدیوں محنت کی گئی ہے کہ دولت کی تقسیم کا نظام جس سے امیر غریب کا فرق پیدا ہوتا ہے، خدا نے بنایا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ اس لیے بنایا جاتا ہے کہ کوئی اسے بدلنے کا نہ سوچے کیونکہ یہ سوچ و فعل خدا کے حکم کی نافرمانی ہوگا۔

واضح رہے کہ دولت کی تقسیم کے تمام نظام صرف اور صرف انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ہیں۔ کیا ہندوستان میں جاگیریں انگریزوں نے نہیں بانٹی تھیں؟ کیا خدا نے خود نیچے اتر کر ان جاگیر داروں کو یہ مربعے جاگیریں دی ہیں؟ کیا ٹیکس خدا لگاتا ہے اور غریبوں کو نچوڑتا ہے؟ کیا خدا بینکوں کو چلاتا ہے؟ کیا مزدور کی کم سے کم تنخواہ 16000 روپے خدا نے خود مقرر کی ہے؟ بس یہ یاد رہنا چاہیے کہ خدا قدرت کا ایک نظام چلاتا ہے اور اس کے اپنے مقرر اصول اور قانون ہیں، لیکن اس دنیا کا نظام خدا نہیں انسان چلاتے ہیں۔ اپنے بنائے ہوئے یہ نظام انسان خود ہی بدل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ہمت کریں اور انھیں اپنی طاقت کا شعور ہو۔

یاد رہنا چاہیے کہ غربت کفر تک لے جاتی ہے۔ غریب اپنی غربت کا خود قصور وار ہے نہ کہ خدا ظالم ہے۔ خدا اعلان فرما چکا ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی فرمایا جا چکا ہے کہ خدا ان لوگوں کے حال کو نہیں بدلتا جو اپنی حالت کو خود نہیں بدلتے۔ چنانچہ ہمیں اپنا مائنڈ سیٹ اس قسم کی کہاوتوں سے بنانا چاہیے کہ خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ مثال لیجیے کہ جو طالب علم محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا، اور محنت صرف پڑھائی کا نام نہیں ہے۔ دنیا کے باقی کاموں کامیابیوں کو اسی مثال سے قیاس کرلیجیے۔ خدا سمجھ دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply