• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا آپ نے اپنے بجلی کے بل کو کبھی دیکھا ہے؟۔۔آصف محمود

کیا آپ نے اپنے بجلی کے بل کو کبھی دیکھا ہے؟۔۔آصف محمود

آپ سیاسی ، سفارتی ، تزویراتی اور معاشی امور پر ایک دوسرے کی رہنمائی فرما چکے ہوںتو ایک سادہ سے سوال کا جواب دیجیے۔ سوال یہ ہے کیا کبھی آپ نے اپنے بجلی کے بل کو دیکھا ہے؟کیا آپ کو کچھ خبر ہے اس بل میں بجلی کے استعمال کی قیمت کتنی ہے اور ٹیکس کتنے ہیں اور کیا آپ جانتے ہیں یہ کون کون سے ٹیکس ہیں جو آپ سے وصول کیے جا رہے ہیں؟ یہ ایک بل برادرم عون شیرازی نے شیئر کیا ہے اسی کو دیکھ لیتے ہیں۔یہ ایک غریب کے گھر کا بل ہے جس نے ایک ماہ میں صرف 45 یونٹ استعمال کیے ہیں۔اور اس کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت صرف 260 روپے ہے لیکن اس کے ذمے واجب الادا بل 837 روپے ہے۔یعنی 260 روپے کی بجلی استعمال کرنے والے اس غریب گھرانے سے 577 روپے اضافی وصول فرما لیے گئے ہیں۔کیا ہمیں کچھ خبر ہے یہ اضافی رقم کیوں اور کس مد میں وصول کی گئی ہے؟ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں اس سے 401 روپے وصول کیے گئے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم ہے یہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کیا ہوتی ہے ؟ کیا ہم جانتے ہیں اس کے تعین کا فارمولا کیا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے پاس کوئی کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہے کہ ہمیں علم ہو سکے فیول ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں کاٹی گئی رقم مناسب ہے یا زیادہ رقم ڈال دی گئی ہے؟کیا ہم میں سے آج تک کسی نے حکومت سے یہ سوال پوچھا کہ یہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ ہوتی کیا ہے اور اس مد میں کٹوتی کی شفافیت کو یقینی بنانے کا کوئی انتظام ہے یا نہیں؟یاد رہے کہ محض 45 یونٹ صرف کرنے والے سے 401 وصول فرما لیے گئے تو جن کے استعمال شدہ یونٹ چار سو یا پانچ سو ہوتے ہوں گے فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں ان سے کتنی رقم وصول کی جاتی ہو گی۔ اس غریب بیوہ سے ، جس نے پورے مہینے میں صرف45 یونٹ استعمال کیے، ایف سی سرچارج بھی کاٹا گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ ایف سی سرچارج کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اس فنانسنگ پاور سرچارج کی شان نزول سے واقف ہیں؟ کیا ہمیں کچھ خبر ہے کہ بجلی کے ہر یونٹ پر 43 پیسے اس مد میں لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہمیں کچھ معلوم ہے کہ پی ایچ پی ایل کا 32 ارب کا یہ قرض کب اترے گا اور کب تک عوام سے یہ سرچارج لیا جاتا رہے گا اور کیا ہم اس بات سے کچھ آگاہ ہیں کہ اب تک کتنا قرض اتر چکا ہے؟کچھ اترا بھی ہے یا نہیں؟ کیا ہم نے کبھی جاننا چاہا کہ اب تک اس مد میں اکٹھے کیے گئے پیسے کتنے تھے اور کہاں استعمال ہوئے؟ بجلی کے ہر بل پر نیلم جہلم سرچارج بھی وصول فرمایا جاتا ہے۔کیا ہمیں کچھ خبر ہے یہ کب تک وصول فرمایا جاتا رہے گا اور اب تک یہ کتنا وصول فرمایا جا چکا ہے اور جو وصول فرمایا جا چکا ہے اسے کہاں استعمال کیا گیا ہے؟اور جو آئندہ وصول فرمایا جائے گا وہ کس مد میں خرچ کیا جائے گا اور اس خرچ کی تفصیل قوم کو بتانا پسند کی جائے گی یا اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ اس بیوہ کے بجلی کے بل میں جی ایس ٹی بھی شامل ہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ یہ کون سا فارمولا ہے جس کے تحت45 یونٹ کے استعمال پر 48 روپے کا جی ایس ٹی وصول کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے جو 401 روپے اس بیوہ سے وصول فرمائے گئے ان پر ایک بار پھر 68 روپے ٹیکس بھی لگا کر اس سے وصول فرمایا گیا۔ اس ٹیکس کو فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ پر لگا جی ایس ٹی قرار دیا گیا ہے۔یعنی پہلے ٹیکس دو اور پھر اس ٹیکس پر بھی جی ایس ٹی دو۔کیا اس بند و بست کا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے؟ آئی ایم ایف کے دبائو پر ایک اور ٹیکس بھی ہمارے اوپر لگایا جا چکا ہے۔ ذرا جان لیجیے کہ یہ ٹیکس کون سا ہے اور اس کا حجم کتنا ہے۔ چونکہ پاکستان میں بجلی چوری ہوتی ہے اور اس چوری کو حکومت روک نہیں پاتی۔اس لیے طے کیا گیا کہ 110 ارب روپے کی بجلی چوری کی وصولی ان لوگوں سے کی جائے گی جو بجلی چوری نہیں کرتے اور ہر ماہ باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم سب بجلی کے ہر یونٹ پر ایک روپیہ پچپن پیسے یہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔آفرین ہے ٹیکس لینے والوں پر کہ بجلی چوری کو روکنے کی بجائے یہ سارا بوجھ ان صارفین پر منتقل کر دیا گیا ہے جو بجلی کا بل باقاعدگی سے جمع کروا رہے ہیں اور آفرین ہے عوام پر جو کوئی سوال کیے بغیر یہ ٹیکس ادا کیے جا رہے ہیں اور روز رات کو وزرائے کرام سے ٹیکس چور ہونے کے طعنے بھی سنتے ہیں۔ ایک اور ٹیکس بھی ہے ۔اسے ٹیلی ویژن فیس کہتے ہیں۔بجلی کے بل میں 35 روپے ٹی وی ٹیکس ماہانہ لگا دیا جاتا ہے ۔بھلے کسی کے گھر ٹی وی ہو یا نہ ہو یہ ٹیکس لگ کر آ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ کس ٹی وی کا ٹیکس ہے؟ اگر پرائیویٹ میڈیا کے اشتہارات قریبا بند کیے جا سکتے ہیں تو پی ٹی وی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ بجلی کے ہر بل سے 35 روپے اس کے نام پر نکلوا لیے جائیں؟ اگر یہ 35 روپے پی ٹی وی کے نہیں ہیں محض گھر میں ٹی وی رکھنے کے ہیں تو پھر عوام سے کیبل چارجز کیوں لیے جاتے ہیں ۔ اس صورت میں تو تمام پاکستانی چینلز پی ٹی وی کی طرح بغیر کیبل کے چلنے چاہییں ۔اور اگر کیبل کی فیس دے کر یہ چینل دیکھے جاتے ہیں تو پی ٹی وی کے نام پر ہر ماہ 35 روپے کیوں دیے جائیں؟اعظم سواتی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں سینیٹ میں اس وقت کے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف صاحب نے بتایا تھا کہ دو سالوں میں پی ٹی وی ٹیکس کی مد میں 1400 ملین سے زاید رقم اکٹھی کی گئی ہے۔کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ ہزاروں ملین روپے کہاں گئے ، کہاں خرچ ہوئے اور مستقبل میں ان کے استعمال کا کیا طریقہ کار ہو گا ؟نیز یہ کہ اس مد میں رقم اکٹھی کرنے کا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے؟ قانونی جواز کی بات اس لیے نہیں کرتے کہ قانون سازوں کو قانون بنانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ دل چسپ معاملہ یہ ہے کہ 2004 میں جب یہ ٹی وی ٹیکس عائد کیا گیا تو اس کا جواز یہ بنایا گیا تھا کہ لائسنس فیس کی ادائیگی میں عوام کی مشکل کو آسان کرنے کے لیے ہر ماہ پچیس روپے بجلی کے بل میں ان سے لیے جائیں گے۔ یہ جواز ہی کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو آدمی پچھلے انیس سال سے ہر ماہ یہ ٹیکس دے رہا ہے کیا اسے مزید بھی یہ ٹیکس دینا چاہیے ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ٹی وی کے لیے لائسنس کی شرط عائد کرنا کیا اس دور میں ایک مضحکہ خیز بات نہیں جب آپ کا موبائل بھی ایک ٹی وی بن چکا ہے۔ کیا اس جدید دور میں ٹی وی لائسنس کی آڑ میں ٹی وی ٹیکس عائد کر دینا کوئی معقول رویہ ہے؟ امور خارجہ ، معیشت اور سیاست سے فرصت ملے تو اپنے بجلی کے بل کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔عین نوازش ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply