ایک آئین شکن کی یاد۔۔محمد اسد شاہ

ہماری عدلیہ کی تاریخ بہت سے اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے ۔ اول دن سے اس کے معاملات اور فیصلوں پر تبصرے ہوتے آئے ہیں ۔ تبصرے عموماً زندہ اور باشعور ہونے کا ثبوت ہوتے ہیں ۔ لیکن بعض تبصرے آپ کے مردہ ضمیر یا بے شعور ہونے کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر لفظ اور ہر عمل نہ صرف محفوظ ہو رہا ہے ، بل کہ کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی درجے میں اس کا اثر بھی ہوتا ہے ۔ اگلی بات یہ ہے کہ ہم سب اپنے ہر لفظ اور ہر عمل کے ذمہ دار بھی ہیں ،اور یہاں یا وہاں اس حوالے سے جواب دہ بھی ہیں ۔

آل پاکستان مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت کے موجودہ صدر ، جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا ۔ یہ کام ان سے پہلے بھی تین لوگ کر چکے تھے ۔ اور ان چاروں کے پاس ان کے اس کام کا جواز تیار تھا ، جو ان کے ہم نواؤں کے ذریعے عوام تک پوری شد و مد کے ساتھ پہنچایا جاتا رہا ۔ سوال لیکن کچھ اور ہے ۔ جن حالات میں پاکستان میں مارشل لاء نافذ کیے جاتے رہے ہیں ، کیا اسی طرح کے ، بل کہ بعض اوقات ان سے بدتر حالات دوسرے بہت سے ممالک میں سامنے نہیں آیا کرتے ؟ ۔ لیکن ان کے باوجود وہاں مارشل لاء قسم کی چیزیں نہیں ہوا کرتیں ۔
فرض کیا کرپشن ایک بڑی خرابی ہے ۔ کیا دوسرے ممالک میں نہیں ؟ کیا امریکہ ، برطانیہ ، سپین ، ہالینڈ ، آسٹریلیا ، بھارت ، چین ، سعودی عرب ، سویٹزرلینڈ ، ناروے ، کینیڈا وغیرہ میں پاکستان سے زیادہ کرپشن کیسز رپورٹ نہیں ہوا کرتے ؟

فرض کیا کسی وزیراعظم نے کسی افسر کو آرمی چیف کے عہدے سے برطرف کر دیا ۔ لیکن غور کیجیے ۔ اس افسر کو اس عہدے پر فائز بھی تو اسی وزیراعظم نے کیا تھا ۔ قانون کی رو سے تعیناتی اور برطرفی دونوں  اسی منتخب وزیراعظم کے اختیارات میں شامل ہیں ۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی تاریخ کے نام ور اور کامیاب ترین جرنیل سیدنا خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کو عین جنگ کے دوران ، کوئی وجہ بتائے بغیر ، سپہ سالار (آرمی چیف) کے عہدے سے اچانک برطرف کر دیا تو انھوں نے نہایت متانت ، فرماں برداری اور اطاعت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناصرف یہ کہہ  فوراً عہدہ چھوڑ دیا ، بلکہ امیر المؤمنین سے درخواست کی کہ انھیں جنگ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑنے کی اجازت دی جائے ۔ یہ اجازت مل گئی ۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کمال حوصلے ، حب وطن ، دین داری اور شرافت کے ساتھ اپنے ہی ایک سابق ماتحت کی قیادت میں جنگ لڑتے رہے اور داد شجاعت دیتے رہے ۔

ہمارے ہاں ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اکتوبر 1999 میں منتخب وزیراعظم نے آرمی چیف کو اس وقت برطرف کیا جب وہ غیر ملکی دورے سے واپس آ رہے تھے ۔ لیکن یہ کوئی انہونی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ 1988 میں تب کے آرمی چیف اور صدر جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بھی اس وقت برطرف کیا تھا جب وہ ہمسایہ ملک چین کے سرکاری دورے سے واپس آ رہے تھے ۔ طیارے میں پائلٹ نے انھیں اس بات کی اطلاع دی ۔ وہ خاموشی سے اسی ایئر پورٹ پر اترے جس پر اترنے کی انھیں “اجازت” دی گئی اور اپنے گھر چلے گئے ۔

جنرل پرویز مشرف کے دست راست جنرل شاہد عزیز نے تو اپنی کتاب “یہ خاموشی کب تک” میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ اچانک برطرفی کے ردعمل میں الٹا گیا ۔ انھی جیسے خیالات کا اظہار بعض دیگر ریٹائرڈ جنرلز بھی کر چکے ہیں ۔
جنرل پرویز نے اقتدار میں آ کر ایک پی سی او جاری کیا ۔ بعض ججز نے استعفیٰ دے دیا اور دیگر نے اس پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ۔ بعد میں عدالت نے 12 اکتوبر 1999 والے اقدام کو تسلیم کر لیا ۔ چنانچہ اس پر مزید بحث کے دروازے بند ہو گئے ۔

جنرل پرویز مشرف جب تک حکمران رہے ، مطلق العنان رہے ۔ کوئی آئین ، کوئی اصول ، کوئی ضابطہ ، کوئی مشاورت ، کوئی پارلیمنٹ ان کے ذاتی عزائم ، خواہشات اور خیالات کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے ۔ جب چاہا ، انتخابات منعقد کروا دیئے ۔ جیسے چاہے نتائج “حاصل” کر لیے ۔ جس کو چاہا ، وزیراعظم بنوا لیا اور جب چاہا ، اس سے استعفیٰ لے لیا ۔ لال مسجد سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک ان کے فیصلوں میں ، کوئی رکاوٹ پیدا نہ کر سکا ۔

جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف ان کا اقدام شاید درست ہوتا ، لیکن اس کے خلاف وکلاء کے ساتھ عوام کا نکلنا دراصل جنرل پرویز مشرف کے ساتھ عوام کی دیرینہ اور مسلسل ناپسندیدگی کا ایک اظہار تھا ۔

اس کے بعد اچانک تمام ججز کو قید کرنا ، آئین کو معطل کرنا اور ان جیسے بہت سے اقدامات ایسے تھے ، جن کا جواز جنرل پرویز اور ان کے ساتھی کبھی پیش نہیں کر سکے ۔
17 دسمبر 2019 کو سپریم کورٹ کے بنائے گئے سپیشل بنچ نے اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جو 2013 سے زیر سماعت تھا ۔ جنرل پرویز جب پاکستان میں موجود تھے تب بھی بے شمار مرتبہ طلب کیے جانے اور صفائی کے مواقع دیئے جانے کے باوجود عدالت میں پیش ہونا پسند نہیں فرماتے تھے ۔ صرف ایک بار پیش ہوئے ۔ ضمانت منسوخ ہوئی ۔ عدالت نے گرفتاری کا حکم دیا لیکن موصوف “فرار” ہو گئے ۔ پھر ہسپتال میں “داخل” رہے ۔ پھر کمر درد کی تکلیف کا اظہار کیا ۔ چھ ہفتے کے وعدے پر باہر چلے گئے ۔اس دوران ان کے ناچ گانے اور زندگی سے لطف اٹھانے کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہیں جس سے یہ لگتا تھا کہ ان کا “کمر درد” اگر تھا تو شاید ختم ہو چکا ۔ دبئی میں پی ایس ایل کا میچ دیکھنے بھی تشریف لے گئے لیکن عدالت کی طلبی پر پاکستان کبھی نہ آئے ۔ عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا ۔ آج کل وہ بیمار ہیں ۔ اللّٰہ انھیں صحت عطا فرمائے ۔

عدالت نے ان کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ آئین توڑنے پر بھی کسی کو سزا سنائی گئی۔
اس پر ان کے وکلاء ، سیاسی ساتھی اور ان کی جماعت (آل پاکستان مسلم لیگ) اپنے ردعمل اور جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں ، لیکن عدالتی وقار کا بہر حال احترام لازم ہے ۔ فیصلے کے خلاف اپیل کا راستہ بھی موجود ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply