مشرقی پاکستان کی کہانی جو آج تک نہ لکھ سکی۔۔سلمیٰ اعوان

بنگال کی جادوئی خوبصورتی والے کردار توڈھاکہ کے لیے روانہ ہوتے ہوئے ساتھ ہی چلے تھے۔مگر پہلے کچھ دنوں تک تو نسوانی حُسن میں مجھے وہ کچھ نظر نہیں آیا تھا جسے دیکھنے کا اضطراب بے چین کیے ہوئے تھا۔ وہ سب بس قصّے کہانیوں والا ہی لگا۔ گو نمکینی بہتیری تھی۔ ملاحت کی بھی کمی نہ تھی۔تاہم ایک تشنگی ضرور تھی۔
ایک دن جب میں چٹاگانگ کی اردو  سپیکنگ لڑکی سے ملنے پانچویں تلے پر گئی اور دروازہ کھولا۔ ۔لگا جیسے پاؤں میگنٹ بار پر پڑے ہوں اور چپک گئے ہوں۔کمرے کے آخری کونے میں پانچ فٹ سات انچ کی قامت پر اودی رنگی ساڑھی اور کمرسے بہت نیچے تک جاتے سیاہ کھلے بالوں میں لشکارے مارتے ایک چنبیلی رنگے چہرے نے مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھیں نہیں تھیں دو روشن چراغ تھے۔ناک،ہونٹ،ماتھا۔۔قدرت کا ایک شاہکارچند فٹ پر کھڑا تھا۔کرسی پر بیٹھی تمکنت آرا نے یوں مبہوت دیکھ کر کہا۔
”رُک کیوں گئی ہو؟اروماوت ہے یہ۔ ہے نا قتالہ عالم۔“ یقیناً وہ کھانے کے لیے نیچے جارہی تھی۔ہاتھ میں اچار کی شیشی تھی۔

اتنا حُسن۔۔خدا کی بھی کیسی بندربانٹ ہے۔ ہم جیسے عام سی شکل والوں کا شکوہ کرنا تو بنتاتھا۔ میں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ شکر کرو خوبصورت چہروں کے بڑے سیاپے ہیں۔ تمکنت بولی۔
تمکنت آرا ء بڑی بے باک نڈر اور دیدہ دلیر لڑکی جو گزشتہ چار  سال سے یہاں یونیورسٹی میں تھی۔آنرز کے بعد ایک ایم اے اور اب دوسرا نفسیات میں کررہی تھی۔ وہ این ایس ایف کی سرگرم کارکن رہی تھی۔ منعم خان والے زمانے کا عروج اب ختم ہوچکا تھا۔پارٹی غنڈہ گردی اور فحاشی کی وجہ سے بدنام بھی ہوگئی تھی۔ بنگلہ قومیت اور son of the soilکے نعروں نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔ تاہم تمکنت اپنی دبنگ شخصیت کی وجہ سے ابھی بھی ہر دل عزیز تھی۔سیاسی ایشو ز پر سبھوں کے چیتھڑے اڑا دیتی۔۔۔۔نہ اردو بولنے والوں کو چھوڑتی۔”ارے ان کا تو احساس برتری ہی انہیں مار ڈالے گا۔ ان کا وہ تہذیبی ورثہ،ثقافتی ترکہ۔بھئی بھول جاؤ اسے۔ چھوڑ دو ان بنگالیوں کو یہ کہنا۔ لو یہ تو رات کو سوئے تھے ہند وستان میں اور جاگے پاکستان میں۔

کچھ اسی اندازمیں وہ میری بھی کلاس لیتی۔ایک تو مجھے تمہاری اِس پھوکی پھاکی جذباتیت سے بڑی الرجی ہے۔ علیحدگی کی اینٹ تو تم لوگوں نے اِس کی پیدائش کے ساتھ ہی رکھ دی تھی۔اوپر سے تمہاری یہ عیار اور بے اصولی بیو روکریسی، اقتدار کے بھوکے جر نیل،جاہل ویسٹ پاکستانی عوام۔ کچھ ایسے ہی کو ڑ ے وہ بنگالیوں پر بھی برسایا کرتی۔ نکمے، سست سارے زمانے کے۔کثرت پر ہی گھمنڈی بنے رہتے ہیں۔

میرے غم و غصّے پر وہ کبھی کبھی رسان سے سمجھاتی۔”سنو اپنے وقت کو لطف سے گزارواور جان لو کہ اس نے تمہارا وطن نہیں رہنا۔ مجھے معلوم ہے ہمارا بھی حشر بہت بُرا ہوگا۔ مگر میں کل کی فکر میں نہیں گھلتی ہوں۔جو ہو گا جھیلیں گے۔“ یو نیورسٹی کی سب سیاسی پارٹیوں سے اس کی اچھی ہیلو ہائے تھی۔اروما کے بارے میری کچھ جاننے کی خواہش پر اس نے صرف اتنا بتایا کہ کو میلا کے چوٹی کے امیر سیاسی دت خاندان کی پوتی ہے۔ یہ تقسیم سے قبل اس کا دادا متحدہ بنگال کا وزیر صحت تھا۔ ہندوستان وہ نہیں گیا۔ انڈیا نے پہلے ہی سال جا گیر داری نظام ختم کر دیا تھا۔ اس کی تو جائیداد کے سلسلے بڑے لمبے چوڑے تھے۔ پر بات تو یہاں ختم نہیں ہوتی تھی۔

ارومادت سے متعلق میری تشنگی کو اُس نے محسوس کیا مگر اس کی سیرابی سے متعلق مزید ایک لفظ نہ بولی۔اتنے سے دنوں میں مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ گہرے پانیوں کی مچھلی ہے۔اُتھلی باتوں کی اُس کے ہاں گنجائش نہیں۔روم میٹ ہونے اور تمکنت کی کھلی ڈلی طبیعت کے باعث اروما دت اس کے خاصی قریب دِکھتی تھی۔ میں بھی اپنی جذباتیت کے ہاتھوں مجبور تھی۔اُس کا حُسن میرے حواسوں پر سوار تھا۔ایک دن چنبیلی ہال کے عقبی پوکھر میں اُسے نوکا چلاتے اور گیت گاتے سُن کر تو مبہوت رہ گئی۔لگتا تھا جیسے پُوکھر میں چاند اُتر آیا ہے۔
کچھ دنوں بعدجب وہ پھر کسی بہانے زیر بحث آئی تو تمکنت نے کہا۔ میرا خیال ہے اگر تم اس کی ماں دیکھو گی تو غش کھاجاؤ گی۔لخلخا سنگھانے کی نوبت آپڑے گی۔
میری آنکھیں پھٹیں۔اس رات ایک اور انکشاف نے بھی حیران کردیا۔
”اس کا باپ اور اُس کی ماں اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے پاکستان کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔سوراج چاہیے تھاتقسیم نہیں اُن کا کہنا تھا۔ اُس کا باپ شنگھرام کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالتا تھا۔اینٹی پاکستانی سرگرمیوں میں بھی بہت نمایاں تھا۔ دوسال قبل صوبائی حکومت نے اس کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ اخبار بند کر دیا۔ وہ بھاگ کر کلکتہ چلا گیا۔ جہاں سنگھرام کا اس نے پھر اجرا کیا۔ تخریبی سرگرمیوں میں بھی بہت نمایاں ہو گیا۔ اب پورب  پاکستان میں اس کے آنے پر پابندی ہے۔“
”اور بیٹی۔“ میں نے پوچھا تھا۔
اندر خانے بہت فعال ہے اپسو کا منین گروپ جوپکا پکا پروانڈیا ہے کی سب سرگرمیوں میں بڑی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔باپ کی وجہ سے بھی پارٹی نے دیوی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم مارشل لا ء کی وجہ سے ذرا محتاط ہیں۔

چند ماہ بعد ایک شام جب میں اپنی آخری کلاس  ختم کر کے ہال  میں واپس آ رہی تھی۔ میں نے ہال کے گیٹ کے باہر ایک گورے چٹے نوجوان کو دیکھا جو مجھ سے ملنے کے انتظار میں اپنی سفید ٹیوٹا کے پاس کھڑا تھا۔حیرت سے میں نے اُسے دیکھا اور ملنے کا سبب پوچھا۔ ”آپ میری گاڑی میں بیٹھیں یا مجھے ریسیپشن روم میں لے چلیں۔ بات سکون سے کرنے والی ہے۔“ چھوٹے گیٹ سے گزار کر میں اسے اندر لے آئی۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ کمرہ بالکل خالی تھا۔ معلوم ہو ا کہ وہ انٹیلی جنس میں میجر ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث بنگالی  لڑکیوں سے واقفیت اور دوستی کر وانے میں اس کی معاون بننے کی درخواست لے کر آیا تھا۔میں ان دنوں ڈھاکہ کی مشہور شخصیات کے اخبار خواتین کے لیے انٹرویو لے رہی تھی۔ اس سلسلے کا ایک انٹرویو ایسٹ ونگ کے گورنر احسن کی بیگم کا بھی لیا گیا تھا۔ جھٹ سے میں نے کہا۔”لڑکوں سے یاری گا نٹھو۔ جگن ناتھ اور سر سلیم اللہ ہال میں چھا ترولیگ اور ایپسو کے بڑے گھاگ اور عیار لڑکے ہیں۔“

لڑکیوں سے راز اگلوا نا نسبتاً آسان ہوتا ہے لڑکوں اور مردوں کی نسبت۔ میرے چہرے پر تذبذب کے سے اثرات اُبھرے تھے۔ وچولہ گیری کا یہ انداز مجھے کچھ اتنا اچھا نہ لگا۔تاہم اپنے ملک کے لیے میرے اندر جو ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اس کے پیش نظر اس کام میں اپنا حصّہ ڈالنا میں نے ضروری سمجھا۔اور اُسے تمکنت سے ملانے کا فیصلہ کیا۔
شرلک ہومز کا سا اسرار میرے لہجے میں گُھل گیا تھا جب میں نے اُسے بتایا۔
وہ ہنسی۔اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔یہ سنگینوں اور بندوقوں کے زور پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ان کا انجام یقیناً اس سے مختلف نہ ہوگا جو ڈین بین پھومیں فرانسیسی فوجوں کا قوم پرستوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔اُس کا یہ سچ اتنا کڑوا تھا کہ اب میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔تاہم میں نے اُس کی رائے جاننا چاہی۔
اس نے لا پر واہی سے سر کو ایک جھٹکا دیا۔”بنگالی لڑکیوں سے بس ذرا دل پشوری چاہتا ہے۔“
پھر ایک عجیب سی بات ہوئی جس دن ہمیں ملاقات کرنی تھی۔تمکنت نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے آسائمنٹ سبمٹ کروانی ہے۔ پھر کسی دن سہی۔“
میجر توفیق چار بار ہال آچکا تھا۔ دربان نے مجھے ہر بار کہا تھا۔”آپا آپ کا وزیٹر بہت تاکید کرکے گیا ہے کہ آپ اُن سے رابطہ کریں۔“
ملاقات ہوئی۔ریس کورس روڈ کے قریب ایک ایسے ڈھابے نما ہوٹل میں جہاں پنجابیوں نے چپلی کباب اور تکّے کبابوں کا کاروبار شروع کررکھا تھا۔ آغاز میں مجھے بات چیت کے حوالے سے میجر توفیق قدرے محتاط نظرآیا۔غالباً اُسے تمکنت بارے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کِس پائے کی لڑکی ہے۔ جگن ناتھ ہال کے نامی گرامی چھٹے بدمعاش اجیت پران اور منوہر زیربحث آئے۔کلکتہ کے نکسل باڑیوں کی انہیں اسلحے کی سپلائی،مارکسی جیالے لڑکوں کی آمدورفت اور سرحدی چوکیوں پر بات ہوئی۔یہ بات مجھ جیسی پر بھی واضح ہوئی کہ اتنی لمبی باڈر لائن کو کنٹرول کرنا ناممکن ہے جب کہ مقامی لوگوں کی ہمدردیاں آنے والوں کے ساتھ ہیں۔

میں نے محسوس کیا کہ جونہی اس نے ارومادت بارے بات کی کہ وہ ممنون ہوگا اگر کسی طور اس کی ملاقات ارومادت سے کروا دی جائے۔
تمکنت جیسی منہ پھٹ کو کون روکے۔ اس نے ذرا شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”جانتے تو آپ سب کچھ ہیں۔اروماآپ کو نیا کیا بتاسکتی ہے؟“
”ایک انتہائی خطرناک باپ کی بیٹی سے کِسی بھی وقت کوئی بہت اہم بات مل سکتی ہے۔جو بڑی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔میجر خالد ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔اور اب یہ مشن میرے ذمہ ہے۔“
تمکنت نے دو تین بار قدرے بے چینی سے پہلو بدلے۔محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کچھ گومگو کی سی کیفیت میں ہے۔ پھر جیسے اس نے دھماکہ کردیا۔
میجر خالد اُس سے کسی ایسے مشن کے تحت نہیں ملا تھا۔ ملاقات محض اتفاقیہ تھی۔مگ بازار میں سائیکل رکشے والا میجر خالد کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔اروما اس میں سوار تھی۔ غلطی سراسر رکشے والے کی تھی۔میجر نے اُتر کر جس نرم دلی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا۔اُس نے وہاں اکٹھے ہوجانے والے لوگوں پر اچھا تاثر چھوڑا۔اروما کے بازو پر چوٹ آئی تھی۔ہوسٹل ڈراپ کرنے اور بازو کی مرہم پٹی کی درخواست پر اروما کا اس کے ساتھ بیٹھنا وجہ ملاقات بنا۔ ہاں یہ دعویٰ تو اروما دت نے پران اور اجیت کے سامنے ڈینگ مارتے ہوئے کیا تھا کہ یہ تو ایک طرح بلی کے بھاگوں چھنکا ٹوٹے والا کام ہوا ہے۔ ٹیسٹ کیس سمجھوں گی اِسے۔ 67کی عرب اسرائیل جنگ میں جو کردار یہودی عورتوں نے مصری فوجیوں کے ساتھ کیا تھا۔ ایسا ہی میں بھی کروں گی۔
پرہوا کچھ یوں۔۔۔۔۔

کہ اس میدان کی وہ ناتجربہ کار کھلاڑی تھی۔اسکے ہاں بڑھکیں ضرور تھیں پر دار جلنگ اور شیلانگ کے کو نونٹوں میں تعلیم پانے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی منفی سیاست میں ملوث ہونے کے باوجود اُس میں مشرقی خوبو بھی تھی اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے متاثر ہونے کا جذبہ بھی موجودتھا۔
اور وہ میجر تو کردار کا مجاہد تھا۔ ایک کردار کی مضبوطی دوسرے بڑی پسندیدہ عادات واطوار گویا دوآتشہ والی بات اور سُہ آتشہ یہ کہ اُروما سے گہرا پیار۔
اب بھلا شکار کیسے نہ ہوتی۔شکار تو اُسے ہونا ہی ہونا تھا۔ہوئی اور یوں ہوئی کہ اُس نے تو صاف صاف مجھے کہا۔
”تمکنت آپا میں تو اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ میں نے اپنا دھرم،گندی سیاست، زبان، کلچر، تہذیب سبھی ایک پوٹلی میں باندھ کر بوڑھی گنگا بُر د کر دیئے ہیں۔

مزے کی بات اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں چھُپایا۔ سب کچھ اُسے بتا دیااور میجر نے اُس کی سار ی باتوں کے جواب میں اُس کا ماتھا چُوما اور بس اتنا کہا۔
”تم جو کچھ بھی تھیں وہ تمہارا ماضی ہے۔ مجھے اِس سے کوئی سروکار نہیں۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ مجھے تم سے پیار ہے۔“
اور سچ صرف اتنا ہے کہ اُروماکسی پکے پھل کی طرح اُس کی گود میں جاگری تھی۔ وہ چاہتا تو رَس چُوس کر پھُوک پھینک دیتا۔ پر نہیں۔۔۔
ہنستے ہوئے تمکنت نے کہا۔”اُسے تو میجر خالد کے پاس ویسٹ پاکستان گئے ہوئے بھی آج پانچواں دن ہے۔“

خبر پرسوں نکلی جب اُس نے جیوتی کو فون کرکے مطلع کیا۔اجیت کل سے کمرہ بند ہے۔ گھونٹ گھونٹ جن پیتے ہوئے سی پورٹر کو گاتا رہا ہے۔ I have got you under my skinجیوتی بے حد خوش ہے۔وہ اجیت پر مرتی ہے۔اجیت اروما دت پر فدا تھا۔اب اِس صورت کو وہ نا  صرف انجوائے کررہی ہے بلکہ دلداری سے اجیت کو کہہ بھی رہی ہے۔
”کیا ہے تمہیں؟ایسی واہیات اور غدار لڑکی کے لیے مرے جارہے ہو جس نے نہ دھرم دیکھا نہ قوم۔“
ایسا تو نہ کہو میں نے اُسے اپنا جیون سمجھا تھا۔ وہ میرے من کی شانتی تھی۔
رات جیوتی مجھے ہنستے ہوئے بتارہی تھی۔ڈوب مرے کہتا ہے من کی شانتی تھی اور وہ اس کی چھاتی پیٹتی اپنے عاشق کے پاس بھاگ گئی ہے۔کس قدر ڈرامائی صورت تھی۔کہنے سُننے کو کچھ باقی نہیں رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply