فیس بک کے اشتہاروں میں کانسی کے ایک خوبصورت بدھا کی تصویر تھی جو صرف بیس ڈالر میں بیچا جا رہا تھا۔کانسی کا اتنا خوبصورت بدھا اور صرف بیس ڈالر۔۔۔ترنت میسج بھجوایا اور مجسمے کی ڈائمنشنز دریافت کیں۔
“کہیں سے ٹوٹا ہوا تو نہیں؟
پلیز آگے پیچھے اوپر نیچے کی تصاویر بھی بھجوائیے۔۔۔”
جواب دینے والی محترمہ کسی سکول کی بچی لگتی تھیں مگر جواب کچھ دیر سے منٹوں بعد آیا۔ مزید تصویریں بھی بھجوائی گئیں۔ مجسمہ کسی ننھے بچے کے دل کی طرح خوبصورت اور ثابت تھا۔
“کیوں بیچ رہی ہو؟” میں نے تجسس سے دریافت کیا۔
“اپارٹمنٹ تبدیل کر رہی ہوں، سارا کچرا نکالنا پڑا ہے”
فوری جواب آیا۔
“او کے۔
یہ مجسمہ میں لوں گا۔
پلیز مجھے بتائیں کہ کس جگہ اور کب آ کر قیمت ادا کروں”۔
اس میسج کا کوی جواب نہیں آیا اور مجسمے کے اشتہار پر سولڈ کا نشان لگ گیا۔
بڑی جلد باز لڑکی ہے۔ ابھی سودا فائنل نہیں ہوا اور ہوا کے گھوڑے پر سوار بی بی نے سولڈ کا نشان بھی لگا دیا ہے۔
گھر میں الماریوں میں ٹھنسے بدھ کے مجسموں میں ایک اور کے اضافے کے لیے کہیں کوئی مزید جگہ نہیں تھی۔سوچا گیا کہ اسے فی الحال بار پر ہی رکھ دیں گے۔من ہی من میں اس مجسمے کو رکھنے کی کوئی اور جگہ ڈھونڈنے لگے۔چار گھنٹے گزر گئے۔۔۔۔
بی بی کو پھر کال کیا۔
“میرا بدھا کہاں گیا؟”
“بک گیا”
“ہائیں! کہاں بک گیا؟”
“تین گلیاں چھوڑ کر محلے پار۔ اس بندے نے دس ڈالر زیادہ آفر کیے تھے”۔
میٹھی گھنٹیوں جیسی آواز میں اک عجب سی اداسی گھلی ہوئی تھی۔۔۔
“سوری۔ میری معذرت قبول کرو۔” پھر کہا گیا۔
اسِ بار اس کی آواز میں نمی کو صاف محسوس کیا گیا۔۔۔
“او کے”
“نو پرابلم”
“لڑکی کی تصویر دوبارہ دیکھی۔ معصوم سی بھولی بھالی سی شکل۔۔۔
” ہیلو!
تم اچھی لڑکی لگتی ہو۔ تمیز دار۔
آجکل کے بچے اتنے تہذیب یافتہ کہاں ہوتے ہیں؟۔
کیا میں تمھیں فیس بک پر فرینڈ شپ کی ریکویسٹ بھجوا سکتا ہوں؟ ”
جواباً خاموشی طاری ہو گئی۔
آدھے گھنٹے کے بعد جواب آیا
“سوری۔
میں اندھا دھند سارا سامان سستا نکالنے میں جٹی تھی، تمھیں جواب نہ دے پائی ۔ معذرت قبول کرو”
کیا تم مجھے دس ڈالر دے سکتے ہو، میں نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا”
دل پگھل گیا۔۔۔
“اتنی دور۔۔۔ میں رات گئے گاڑی نہیں چلا سکتا۔ دھندلا دِکھتا ہے”
“میں تمہارے پاس آ سکتی ہوں، بس مجھے کھانا کھلا دینا، کار میں صرف وہاں تک پہنچنے کی گیس ہی ہو گی۔ واپسی کے لیے گیس بھی چاہیے۔”
آواز رندھی رندھی سی اور آدھ مری لگتی تھی اور بمشکل نکلتی تھی۔۔۔
مجھے بے حد ترس آیا۔
“او کے”۔
“مجھے مین ہیٹن کے وال مارٹ پر تیس منٹ میں ملو”
میں نے کاہلی کے مارے دو دن سے شیو نہیں کی تھی۔ اب بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔۔۔وہ ٹھیک وقت پر وال مارٹ کے سامنے ملی۔
نکلتے ہوئے قد کی لمبی سی لڑکی، جس نے کس کر دو چٹیاں کی ہوئی تھیں۔ اس کے اداس اور معصوم سے چہرے پر موٹی موٹی آنکھیں روئی روئی سی لگتی تھیں۔
اندھیری سرد رات کے گیارہ بج چلے تھے۔ فاسٹ فوڈ کی ساری دوکانیں بند پڑی تھیں۔۔۔ بمشکل ایک دوکان کھلی ہوئی ملی۔
لڑکی نے بوکھلا کر دیکھا اور کھانے پر یوں ٹوٹ پڑی جیسے وہ صدیوں سے بھوکی ہو۔
واپسی پر اسے گیس بھی ڈلوا دی۔
“کیا میں آئس کریم بھی لے لوں” اس نے معصومیت سے پوچھا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ میری اپنی بچی ہو۔
“میرے پاس کچھ کتابیں اور مزید چیزیں باقی ہیں جو بہت سستی نکال رہی ہوں، آپ کل آ کر دیکھ لیں شاید کوئی آپ کے کام کی نکل آئے” اس نے اپنا ایڈریس والا کارڈ ہاتھ میں تھما کر گرم جوشی سے شکریہ ادا کیا۔
دوسری صبح کتابوں کی کشش مجھے اس کے اپارٹمنٹ میں لے گئی ۔ بھائیں بھائیں کرتے خالی اپارٹمنٹ میں ہر طرف کوڑا بکھرا پڑا تھا، اگر بھیرو جھاڑو پھیر گیا کا محاورہ استعمال کیا جاتا تو غلط نہ ہوتا مگر وہاں جھاڑو بھی نہیں پھری ہوئی تھی۔
دو چار برتن تھے۔۔۔ ایک ٹوٹی ہوئی کرسی۔۔ ایک گدا جس پر میلی سی چادر اور دو تکیے بچھے تھے۔ فرش پر ایک کونے میں کچھ کتابوں کا ڈھیر اور الم پلم آنکھیں موندے بیمار کی طرح نڈھال پڑا ہوا نظر آتا تھا۔
اکڑوں بیٹھ کر میں نے کتابوں کے عنوانات دیکھنے شروع کیے۔۔۔
اخلاقیات، عمرانیات، مذہب۔۔۔۔فکشن۔۔۔
بائبل، تورات، انجیل۔۔۔زیادہ تر مذہبی کتابیں تھیں۔ بدھ کے اقوال۔ کلام رومی۔۔۔
“یہ چھریوں کا سیٹ بالکل نیا ہے اور ابھی ڈبے میں بند ہے۔ کھولا بھی نہیں گیا”۔
وہ مجھے متفرق چیزیں لا لا کر دکھانے لگی۔
“سارا سامان کیوں بیچ رہی ہو”
“میرا باپ مر گیا”
اس نے ہاتھ مسل کر کہا
بوائے فرینڈ مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ماں پہلے ہی اپنے نئے بوائے فرینڈ کے ساتھ آسٹریلیا چلی گئی تھی۔ اب پچھلے ماہ سے مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔اب یہ رہا اس اپارٹمنٹ سے نکلنے کا نوٹس۔۔۔ خود دیکھ لو
کسی اور چھوٹے سے اپارٹمنٹ کے لیے کرایہ جوڑ رہی ہوں”
اس کی سسکیاں جڑ جڑ کر ٹوٹنے لگیں۔
آنسو جھر جھر اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
دکھ دریا کے سرد پانیوں کی طرح سرسراتے ہوئے اپنی راہیں خود بناتے ہیں۔۔۔ انہیں زمینیں درکار ہیں، نہ پہاڑ، صرف پہاڑ سے دل درکار ہیں جو خود بخود کرچیاں بن کر ریزہ ریزہ ہوتے ہیں۔
میں نے سر جھکا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
“مت روؤ۔۔۔”
میرے اپنے آنسو بہنے لگے۔۔۔
“بجلی کا بل، گیس کا بل کوئی بل دو مہینے سے نہیں دیا۔
پے ڈے فاسٹ لون والوں کا سود دھڑا دھڑ بڑھ رہا ہے۔ ان کا بھی نوٹس آیا پڑا ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔ قرقی کریں گے میری”
وہ دکھ سے مسکرائی ۔۔۔
‘سمجھ نہیں آتی کیا کروں’
اس نے سسکیاں لیتے ہوئے ہاتھ پھیلا کر یوں فریاد کی جیسے میں ہی اس کا باپ تھا۔
“چلو! ٹھنڈا پانی پیو”۔
ٹھنڈا پانی نکالنے کے لیے فرج کا دروازہ کھولا۔
فرج بالکل خالی پڑا تھا۔۔۔
“دیکھو!
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا”
“آؤ!
یہاں بیٹھو۔۔۔
اپنے سارے بل لے کر آؤ”
“سب سے پہلے فاسٹ لون والوں کا بل چکتا کرنا ضروری ہے۔ ان کم بخت چوروں کا سود ککڑی کی بیل کی طرح ہی روزانہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
بجلی پانی والوں سے بھی مفر نہیں۔۔۔”
بجلی پانی کے بل بالترتیب ایک سو ساٹھ اور ایک سو اَسّی ڈالر تھے۔
وہ میں نے اسی کے فون پر ہی اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کیے۔ پھر سمجھداری سے کام لے کر یہ کالیں بھی ڈلیٹ کر دیں کہ میرے کارڈز کا کوئی ریکارڈ اس کے پاس نہ رہ جائے۔
“میں تمھیں سچ سچ بتاتی ہوں، میں کوئی اچھی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔” اس نے دوائی کا کڑوا گھونٹ بھرنے جیسا منہ بناتے ہوئے بات جاری رکھی۔
“مجھے ماں باپ نے بچپن سے ہی گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔ چوری چکاری، ڈرگز۔۔۔ چرس اور جسم بیچ بیچ کر میں نے خود کو پالا۔”
“میں نے اپنے ہر گاہک میں خدا کو ڈھونڈا۔۔۔ مگر خدا کہیں نہ ملا۔
ایک دن چرس بیچتے ہوئے پکڑی گئی۔ اس کی سزا بھگتی تو جیل میں آئے پریسٹ کی تقاریر سن سن کر ندامت سر پر سوار ہوئی ۔ جیل سے نکل کر اپنی بھٹکتی زندگی کو خود راہِ راست پر لانے کی سعی کی۔۔۔
دوبارا بپتسمہ لیا۔ پادری سے رو رو کر گڑگڑا کر کنفیشن کیا۔۔۔ ہر اتوار کو چرچ جانے لگی۔ سارے پرانے دھندے چھوڑ کر چھوٹی موٹی نوکری کر کے خود کو پالنے لگی۔
پھر باپ اپاہج ہو گیا تو اسے بھی اپنے گھر لے آئی۔ ماں اپنے دوسرے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور اب تک لاپتہ ہے۔۔
باپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔اس کی دل توڑ خدمت اس کے آخری دم تک کی اور وہ مجھے دعائیں دیتا ہوا جئیسس کے پاس چلا گیا۔
پھر کھوئی زندگی کے سِرے اور گمشدہ خدا کی تلاش کی سعی میں بھٹکنے لگی۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
ایتھیسٹ، جیوڈازم، صوفی ازم، اسلام۔۔۔۔ رومی۔۔۔
رومی مجھے بے حد اچھا لگا۔۔۔ مگر وہ بھی دل کے خلا کو نہیں بھر پایا۔۔۔
“یہاں۔۔۔”
اس نے دل کی طرف اشارہ کیا
“یہاں درد ہوتا ہے”
“بلآخر بدھا کی تعلیمات نے مجھے سکون دیا۔۔۔
سر دکھم دکھم۔۔۔”
“چلو۔۔۔ تمھارے پیڈے فاسٹ لون کو چکتا کر آئیں۔ راستے میں تم اپنا قصہ بھی سناتی رہنا”
سیڑھیاں اتر کر باہر نکلے۔ اس کی کار کا پچھلا پہیہ پنکچر تھا۔
اپنی کار سے ہوا بھرنے کا آلہ نکال کر اس پنکچر پہیے میں ہوا بھری۔ وہ اپنی کار بدقت چلا کر اسے ورکشاپ تک لے گئی۔ میں نے اپنی کار میں اس کا پیچھا کیا۔ بے رحم تیز و تند ہوا جسم میں سوراخ کیے دیتی تھی۔
اس ٹائر میں ایک سے زائد سوراخ تھے۔ ناقابل مرمت ہونے کی بنا پر اسے بدلوانا پڑا۔ باقی سارے ٹائر بھی بوسیدہ تھے مگر فی الحال کچھ عرصہ گزارہ کیا جا سکتا تھا۔
انجن کی چیکنگ کی گئی تو چار پانچ خرابیاں مزید نکل آئیں۔۔۔ جن میں سے ایک آدھ کو درست کروانا سخت ضروری تھا۔ تین سو پچھتر ڈالر کا تخمینہ بنوا کر گاڑی وہیں مرمت کے لیے چھوڑ دی گئی ۔
ہم دونوں میری کار میں پیڈے لون کے دفتر گئے۔ ان کا بل بمع سود چار سو پچاس ڈالر تھا۔۔۔ میں نے کیش پیمنٹ کی اور چپ چاپ رسید لے لی۔
ورکشاپ میں کار ابھی نہیں بنی تھی لہذا پھر اپاٹمنٹ پر لوٹ آئے۔
“بدھ کی تعلیمات نے مجھے نیا راستہ دکھا کر گویا پھر سے زندہ کر دیا تھا۔میں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اس کا مہنگا کانسی کا مجسمہ خریدا اور اس کے آگے روزانہ اپنا سر جھکانے لگی۔ہائے میرا وہ خدا بھی مجھ سے چھوٹ گیا۔۔۔
کل وہ مجسمہ بھی صرف تیس ڈالر میں بک گیا”
وہ پھر رونے لگی۔
“سنو!
تمھارے پاس اس خریدار کا نمبر ہے؟
ہم وہ مجسمہ واپس خرید لیں گے”
اس نے بیقرار ہو کر فورا” فون ملایا۔۔۔
“وہ شخص مجسمہ واپس کرنے کو تیار ہے مگر اب چالیس ڈالر مانگتا ہے”
میں نے جیب سے چالیس ڈالر نکال کر اسے دے دیے۔
“تمہارا فرج بالکل خالی ہے، چلو اسے بھرنے کا کچھ سامان لے آئیں”۔
گروسری سٹور میں بے حد رش تھا۔ دو دن بعد کرسمس تھی۔ لوگ دھڑا دھڑ اپنی خریداریوں میں مگن تھے۔ اس نے کھانے پینے کی بہت کم چیزیں خریدیں۔ میں نے دودھ، انڈے، ڈبل روٹی، جیم اور تھوڑے سے پھل زبردستی خرید کروائے۔
ورکشاپ میں کار کی مرمت ابھی تک مکمل نہیں ہوئی تھی۔
مجسمہ خریدنے والے کو مجسمہ واپس لینے کے لیے ایک بار پھر کال کروائی ۔
اس سے شام کو ملنے کا وعدہ ہوا۔
“سنو!
تمھارے پاس کچھ رقم ہو گی؟”
اس نے پوچھا۔۔۔
“مجھے خواتین کی ضرورت کی کچھ اشیاء درکار ہیں”۔
اپنے بٹوے میں بچے آخری بائیس ڈالر اس کے حوالے کیے۔
کار والوں کا فون آیا کہ اس کی مرمت مکمل ہو چکی تھی۔۔۔
وہاں جا کر کریڈٹ کارڈ سے اس کا بل ادا کیا،اس نے اپنی کار میں بیٹھ کر ہلکا سا ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا۔۔۔
مجھے اپنی واپسی کا راستہ بھول چکا تھا۔۔۔
اب فیس بک پر اس کی فرینڈ شپ کی ریکویسٹ آئی پڑی ہے اور ایک میسج۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں