ناک ری ناک تیری کون سی کَل سیدھی

ہم میں سے ہر شخص کو ہی زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ بات سننے کو مل جاتی ہے کہ “بڑ ی ناک والا ہے یہ”۔۔اور یہ بات کہنے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے،آپ کا کوئی قریبی یا دور کا رشتہ دار،کوئی حاسددوست،کنجوس ہمسایہ،بات کا بتنگڑ بنانے والی پھوپھو،یا ہر شادی میں کھانا کھانے کے بعد رپھڑ ڈالنے والا ماما۔۔۔
ناک کی اہمیت سے کسی طور مفر ممکن نہیں،اسے چہرے کے خدوخال میں وہی اہمیت حاصل ہے جو  امریکہ  کو دیگر ممالک  میں۔ناک میں دم کرنا محاورہ تو ہرزبان زدِ عام رہتا ہے،لیکن اس کے علاوہ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا،اس کا تو غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے،بھی اسی قبیل کے محاورے ہیں۔۔
ہمارے یہاں سیاست کا حال ہی دیکھ لیجئے۔۔پی ٹی آئی نے ن لیگ کے ناک میں دم کر رکھا ہے  جبکہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ حرکت ن لیگ کر رہی ہے۔لیکن اصل میں یہ ناک میں دم کرنے کی نہیں بلکہ ناک کاٹنے کی تگ و دو ہے۔جن کی کٹ چکی وہ اب گھر پر آرام فرما رہے ہیں،اور باقی کٹنے سے بچانے میں مصروف ہیں۔لیکن یہ ایسی ظالم چیز ہے کہ نہ کٹے تو سیاست کیسی۔۔۔اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اسی ناک کو کٹنے سے بچانے کے لیے کسی کی دہلیز پر رگڑنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔اور یہ صرف سیاسی سطح پر ہی نہیں بلکہ ہر پیشے میں،یہاں تک کہ گھریلو سیاست میں بھی اکثر و بیشتر اس فارمولے سے کام چلایا جاتا ہے۔
بہو ساس کے سامنے،ساس داماد کے سامنے،داماد بیوی کے سامنے،بیوی بچوں کے سامنے،بچے گرل فرینڈ کے سامنے،گرل فرینڈ ممی کے سامنے،ممی ڈیڈی کے سامنے،ڈیڈی باس کے سامنے،باس سالے کے سامنے،سالے بہنوئی کے سامنے،بہنوئی اماں کے سامنے کسی نہ کسی حالت میں ناک رگڑتے پائے جاتے ہیں۔ویسے ہمارا  ذاتی خیال ہے  کہ اتنی رگڑی  ہوئی ناک کے  کٹ جانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔۔جو لوگ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے وہ خود مکھی پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارا واسطہ کچھ ایسے لوگوں سے بھی پڑتا ہے جن کی ناک آلریڈی کٹ چکی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔۔ذرا سوچیے کٹی ہوئی ناک کو سکیڑتے لوگ کس قدر مضحکہ خیز لگتے ہوں گے۔۔
اب اکثر جگہوں پر کیمرے لگنے کی وجہ سے ساتھ ایک تحریر درج ہوتی ہے،کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے،بندہ ڈر کے مارے محتاط ہوجا تا ہے،اور کچھ میرے جیسے پوز بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ تصویر اچھی آنی چاہیے۔۔ (یہ الگ بات کہ شہر میں جگہ جگہ نصب یہ کیمرے اکثر خراب ہی ہوتے ہیں)شکر کیجئے ان کیمروں کی صرف آنکھ ہوتی ہے اگر ناک ہوتی تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔پھر تو یہ دور سے ہی سونگھ کر آواز لگاتے “او بھائی جی کدی نہا وی لیا کرو”۔۔
ناک کے بارے میں  گنے چنے محاورے ہی بولے جاتے ہیں۔۔اگر ہم کچھ اشعار یا محاوروں کو ناک کی حدود میں کھینچ لائیں تو ان کی ہیت کچھ یوں وجود میں آئے ہوگی۔۔جب کوئی بلاوجہ غصہ دلادے تو “ناک گرم کرنا”،جب کوئی آپ کی انا کو روندنے کی کوشش کرے تو ” ناک پر چڑھنا,”اور اگر کوئی آپ کا نخرہ ڈھیلا کرنے کی کوشش کرے تو اسے ناک ڈھیلا کرنا یا ناک توڑنا بھی کہا جاسکتا ہے۔اور اگر کوئی حد سے زیادہ ہی غصہ اور ناز و ادا دکھائے تو اسے آپ ناک اپھرنا کہیے۔۔۔اور کسی دشمن کی بے عزتی ہوتے دیکھیں تو “ناک میں لڈو پھوٹنا,”اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دماغ میں نہیں بلکہ ناک میں خلل ہوتا ہے۔یا ناک کے طوطے اڑ جانا،اب ذرا اشعار ملاحظہ ہوں ۔۔
ناک جس کا نام،اسے جانتے ہیں داغ!
سارے جہاں میں دھوم ہماری ناک کی ہے،
دیکھیے لاتی ہے اس شو خ کی ناک کیا رنگ،
ایک ناک میں ہے سارا غرور،
آخری حد چھو گیا پہلا سفر!
جسم مٹی کا ڈھیر ہے لیکن
ناک کا دائرہ منور ہے!
بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو میری جان ناک ہے!
بلا کے شوخ ہیں،بے طرح کام کرتے ہیں
ناک ملاتے ہی قصہ تمام کرتے ہیں!
ناک ایسا نہیں کچھ کھیل کے ہر اک کھیلے
میں نے اڑسٹھ برس اس عمر میں پاپڑ بیلے!
بہت سے سخن شناس ناک کی ایسی بے حرمتی پڑھ کر “ناک پاء” تو ضرور ہورہے ہوں گے۔۔لیکن کیا کیجئے۔۔۔
ناک رہتی نہیں سدا اک سی،
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے!
یہ تقریباً تین بائی پانچ سینٹی کا ایک عضو پورے انسان کو تگنی کا ناچ نچائے رکھتا ہے،اس ناک کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں۔۔کہیں گھر اجڑتے ہیں تو کہیں یارانے،شہر جلتے ہیں،لوگ مرتے ہیں،رشتوں میں جدائی بھی اسی ناک کی کرتوتِ نازیبا ہوتی ہے۔۔یہ ناک انسان کو خاک میں ملانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتی،یہاں ہر بات کے آخر میں ایک پھندا ٹانک دیا جاتا ہے “ناک نہ کٹ جائے “،ارے بھیا ایسی ناک کو بچا کر آپ کیا کریں گے جس کے پل پل کٹنے کا خدشہ آپ کو بے چین رکھے۔اب تو ضرور ی ہوچکا ہے کہ ڈاکٹر ناک کا ختنہ بھی شروع کردیں تاکہ یہ مسئلہ ہی سِرے سے ختم ہوجائے۔
ہمارے یہاں رشتے والیاں بھی جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے ناک ہی دیکھتی ہیں اس کے بعد نقشہ۔۔حالانکہ اگر نقشہ دیکھ لیا ہوتا تو آج اپنا نقشہ نہ بگڑا ہوتا ،ہمارے زیادہ تر معاملات بگاڑ  کا شکار ہیں ،اس میں بھی ناک ہی  شریکِ جرم ہے، جیسے کہ مذہب ہمیں جوڑنے کی بات کرتا ہے لیکن ناک توڑنے کی،مذہب ایک دوسرے کے کام آنے کی بات کرتا ہے جبکہ ناک کسی کو مشکل میں دیکھ کر منہ موڑنے کی ترغیب دیتی ہے،ناک اور نفس میں “ن”مشترک ہے۔۔۔یعنی “نہیں “!
آ پ کسی کا فائدہ کرنے کا سوچیں،ناک “نہیں” کہہ دے گی ،کسی سے اچھا سلوک کرنا چاہیں،ناک کی “نہیں” کی رٹ برقرار رہے گی،احکام شریعہ کی پیروی پر بھی یہی ناک اگلے کی ناک میں دم کردیتی ہے۔
بعض لوگ تو اتنی ناک والے ہوتے ہیں کہ ان کے گھر کے باہر ایک بورڈ لگادینا چاہیے کہ خبر دار یہاں ناک رہتی ہے۔۔اپنی ناک گھر چھوڑ کر آئیے،اس حیرت و حسرت پر مبنی دنیا ء لافانی میں  آپ کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف اکا دُکا لوگ ایسے بھی نظر آئیں گے جو صلح پسند ہوں گے لیکن ان کی ناک بار بار یہ کہہ کر خاک الود کر دی جاتی ہے کہ “تمھاری تو ناک ہی نہیں “۔۔ ویسے ہماری زبان   اردو بھی ناک رکھتی ہے،جیسے دہشت ناک، خوفناک، عبرت ناک،ہیبت ناک، نمناک،اندوہناک ، ہولناک،تشویش ناک،افسوس ناک،اور یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کتنے  خطر ناک  ہیں۔۔
تو حاصلِ کلام یہ ہے کہ ناک ضرور رکھیے کہ یہ قدرت کی طرف سے ہی آپ کے ساتھ لگا دی گئی ہے،لیکن اتنی نہ رکھیے کہ دوسرے کی کٹ جائے یا وہ  کٹوانے پر مجبور ہوجائے۔۔اعتدال پسندی ہی بہترین حکمتِ عملی ہے،چاہے زندگی کا کوئی بھی معاملہ کیوں نہ ہو۔۔یاد رکھیے کسی معاملے کے بیچ میں “ناک “آئے گی،وہاں اڑتی ہو”خاک “آئے گی!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ناک ری ناک تیری کون سی کَل سیدھی

  1. بھئ آج تو آپ نے اردو میں ناک کو ناکوں چنے چبوا دئیے اور اس، ناک ناک کی رٹ نے ہمیں پنجابی نکو نکی کر دِتا اے

Leave a Reply to اسما مغل Cancel reply