نہیں۔۔۔مختار پارس

کائنات میں جس قدر بھی اثبات ہے وہ سب “نہیں ” کا منطقی نتیجہ ہے۔ایک وقت تھا جب کچھ بھی نہیں تھا۔پھر اس نہ ہونے نے ہونے کا ارادہ کیا اور ہوگیا۔
مکافاتِ عمل میں اکثر چیزیں سجھائی نہیں دیتیں،عجب یہ کہ انسان نے جتنا سیکھا ہے،سب اسی نہ دکھائی دینے کے سبب ہے۔دنیا میں سب کچھ کرسکنے والی اس مخلوق کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں،جب کوئی چیز تخلیق ہونا چاہتی ہے تو پہلے اپنی عدم موجودگی کو یقینی بناتی ہے،اور جب کوئی عمل فنا کی طرف رواں دواں ہوتا ہے تو اس کے لیے موجود رہ جانا کوئی منطقی بات نہیں لگتی۔کرنیں پھوٹتی ہیں تو اندھیروں کی نفی کردیتی ہیں،اور رات جب اُترتی ہے تو اُجالا کہیں کا نہیں رہتا۔کارِ جہاں میں سلسلہ ء روزوشب کی اہمیت کچھ بھی نہیں۔ساری سانسیں جی کر بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ایسا لگتا ہے کہ سارا جہاں قطار میں کھڑے ہوکر انکار کی گردان الاپ رہا ہے۔

حیف یہ کہ گریہ دل پر بھی کان دھرنے والا کوئی نہیں ملتا،یہاں دل کی بات اگر کوئی سنتا بھی ہے تو صرف محبوب کے کوچے میں،وہاں سبھی چاہتے ہیں کہ نہ تو کوئی پدر دلبر ہو اور نہ کوئی اور بالمقابل۔عاشق خراب حال،درودیوار تو درکنار،کسی نقاب،کسی حجاب کا بھی روادار نہیں ہوتا۔وہ چاہتا ہے کہ محبوب کی آنکھیں ہمہ وقت بے نیام رہیں۔وہ نہیں چاہتا کہ دشمنِ جاں کے تیروں کا رُخ کسی اور طرف ہو۔وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی اس خاص گلی سے گزرے۔وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کو چھت پر چڑھنے سے روک سکے۔وہ نہیں چاہتا کہ اس کا مطلوب اس کی ٹیڑھی آنکھوں میں کوئی نقص نکالے،وہ تو کسی اور کوچاہنا بھی نہیں چاہتا۔وہ نہیں چاہتا تو اس بڑھیا کو جو اس کی خوشدامن بننے پر معترض ہوتی ہے،اور اس لڑکی کے برادر خورد کو جو اس سے رشوت نہیں لیتا۔
اوّل تو شادی ہی نہیں ہوتی،اگر ہوبھی جائے تو سینے میں یہ نام نہاد دل رکھ دیا گیا ہے،اسے چین نہیں آتا۔۔۔تڑپ تڑپ کر سر پٹخ کر کہتا ہے،نہیں نہیں۔۔نہیں نہیں۔۔
اسے سمجھ نہیں آتی کہ شادی کے بعد وہ ناکتخدائی حسن کدھر کو منہ چھپا لیتا ہے،اس سے یہ گتھی نہیں سلجھتی کہ جس ستواں ناک پر وہ مر مٹا تھا،وہ اب اسے پھولی ہوئی کیوں دکھائی دیتی ہے،اسے یقین نہیں آتا کہ پتلی کمریا،وہ لچکنا مٹکنا،وہ بالوں کی لَٹ اسی مخلوق کی تھی جو اب اس کی بیوی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ کہیں وہ اس پرستان کی کہانی کا کردار تو نہیں،جس کی شادی ایک پری وش سے ہوتی ہے،اور جو بعد میں ڈائن نظر آتی ہے،اسے سمجھ نہیں آتی کہ اس کی بیوی کو اس کی سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔اسے کون بتائے کہ اس جادونگری میں نظر جماؤ گے تو نہیں ٹکے گی،اور نظر ہٹاؤ گے تو نہ ہٹ سکے گی۔

ایک عاشق زار نے دہائی دی کہ رشتہ نہیں دیتے تو اپنا مکان کرائے پر دے دو۔۔پوچھا گیا کہ کیا کرو گے؟
جواب ملا،کہ کمروں میں بیٹھوں گا،دروازوں سے لگ کر کھڑا رہوں گا،چوکھٹوں کو چوموں گا۔۔۔
پھر پوچھا گیا کہ اس سے آخر کیا ملے گا؟
اس نے ذرا سوچ کر تسلیم کیا کہ کچھ نہیں
درسگاہ میں دانشور اکڑے اکڑے پھرتا تھا۔روک کر وجہ فخر و ناز پوچھی تو کہنے لگا کہ علوم کے دریا عبور کرچکا ہوں۔۔حقائق میرے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔وقت کا کوئی راز مجھ سے پوشیدہ نہیں رہا۔
پوچھا گیا کہ کیا کرو گے اتنے علم کا؟
ذرا سارنگ فق ہوا اور جواب مِلا کہ کچھ نہیں۔۔۔
پھر ایک پیڑ کے نیچے ایک بڑھا بابا سرجھکائے بیٹھا تھا،رُک کر اس سے پوچھا گیا،روٹی کپڑا،پیسہ،بابا بولو کیا لوگے؟
بوڑھے نے سر اٹھایا،زبان کھولی اور کہا کہ کچھ نہیں۔۔
اس بوڑھے کا فلسفہ اس لیے درست ہے کہ سب کچھ کبھی بھی حاصل نہیں ہوتا۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ پیسے والے خرچ کرنا نہیں جانتے،خرچ کرنے والے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرسکتے،اپنی ذات پر توجہ دینے والے تمیز کھو بیٹھتے ہیں،جوتمیز رکھتے ہیں وہ اختیار نہیں رکھتے،جو اختیار رکھتے ہیں ان کا اعتبار نہیں ہوتا۔۔۔جن پر اعتبار ہوتا ہے وہ اپنے قریب نہیں ہوتے،یہ نہیں ہونے کا عمل ہر جگہ موجود ہے۔ہر لب تشنہ،ہر آنکھ منتظر اور ہر ہاتھ پھیلا ہوا رہتا ہے۔تو کیا یہ بہترنہیں کہ کسی چیز کی خواہش ہی نہ کی جائے؟

ہم نامکمل ہیں۔۔ہم سب اپنے اپنے خلاء پُر کرنے کے لیے کسی نہ کسی کام میں لگے رہتے ہیں،یوں سمجھیں کہ زندگیایک دھکا سٹارٹ گاڑی ہے،اور یہ ادھورے پن کا احساس اسے حرکت دیتا رہتا ہے،تمام عمر لوگ اپنے اپنے روزگار کے تیشے پکڑ کر خواہشوں کے بُت تراشتے رہتے ہیں،مگر پھر بھی اس پوجا پاٹ سے دل نہیں بھرتا،اگر جنون کو سکون مل جائے تو انسان واپسی کا سفر شروع کرکے پہلے بندر کا روپ دھارے گا پھر چوپایہ بنے گا،پھر پانی میں اُتر جائے گا اور آخر میں جرثومہ بن کر ختم ہوجائے گا۔

دوسری طرف اگر معاملہ اُلٹ جائے یعنی اپنی تکمیل کا وحشی پن ختم ہوجائے تو انسان مزید آگے کا سفر رکرکے پہلے روشنی کی رفتار سیکھے گا،پھر ہر روپ میں ہر جگہ پہنچ جانے کا فن جان لے گا،پھر کہکشاں کو اشاروں پر نچائے گا اور آخر میں ستاروں کو ایک دوسرے پر مار کر خود بھی مرجائے گا۔انسان پلٹ کر دیکھے یا آگے بھاگے،دونوں صورتوں میں کچھ نہیں رہے گا۔
کچھ لوگ پیدا ہی “نہیں “کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔اگرچہ ایسے لوگوں میں اکثریت کا تعلق سلسلہ حسن و زیبائی سے ہوتاہے،لیکن غیر محبوب بھی اس کا استعمال جانتے ہیں،مثلاً ڈاکٹر جب نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریض کی جائیداد اس کے وارثین میں تقسیم ہونے والی ہے،تھانیدار جب نہیں کرتا ہے تو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ آپ کا مسئلہ باہمی تعاون کی فضا میں حل ہوسکتا ہے،غرض جتنے منہ اتنے نہیں۔۔

نہیں ایک ایسا ہتھیار ہے جوبچے کے ہاتھ میں پتھر،جوان کے ہاتھ میں چاقو اور بوڑھے کے ہاتھ میں توپ کی حیثیت رکھتا ہے،بچہ نہیں کرتا ہے تو اس کی ضد کسی کا سر کھول سکتی ہے۔جوانوں کا انکار لاوے کا انبار ہوتا ہے،جو بستیاں بہا کرلے جاتا ہے،لیکن پیرانہ سالوں کی نفی ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے لرزتے ہاتھ یہ توپ چلانا افورڈ نہیں کرسکتے۔
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ساری کائنات کی پُرکار انکار کے گرد گھوم رہی ہے،دنیا کے سبھی اہم سوالوں کا جواب اکثر نہیں کی صورت میں ملتا ہے،کیا آپ نے زندگی کا مقصد تلاش کرلیا ہے؟کیا آپ دنیا میں اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟کیا آپ سچ بولتے ہیں؟کیا معاشرے میں امن امان ممکن ہے؟کیا پھول کوکِھلنے سے اور بھنورے کو پھول کے گِرد طواف کرنے سے روکا جاسکتا ہے؟کیاانسان کا تباہی کی طرف جانا رُک سکتا ہے؟کیا لطیفوں پر پابندی لگ سکتی ہے؟کیا پیسہ تجارت کے بغیر بھی کمایا جاسکتا ہے؟کیا دنیا میں احمقوں کی کمی ہوگئی ہے؟ان سب باتو ں کا جواب صرف نہیں ہے،کچھ اور نہیں۔۔

زندگی میں اثبات کا تعلق تو صرف معمولی باتوں سے ہوتا ہے،مثلاً آپ نے کھانا کھا لیا ہے؟ہاں۔۔
آپ نوکری کرنا چاہتے ہیں؟ہاں
آپ شادی کے خواہشمند ہیں؟جی ہاں
جی ہاں۔۔یعنی اگر آپ کو کسی سوال کے جواب میں ہاں سُننا پڑے تو سمجھ جائیں کہ آپ نہائیت عام اور بے مقصد سی بات دریافت کی تھی،اور اگر آپ کو جواب میں “نہیں “کو سماعت کرنے کا اتفاق ہو تو سمجھ جائیں کہ دال اور دل میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔
سکول کے زمانے میں ایک دفعہ مجھے بیت بازی کے مقابلے میں حصہ لینے کاشرف حاصل ہوا،اسٹیج پر مس سٹیلا جو سراسر داغ کا ایک شعرتھیں،کھڑی مسکرا رہی تھیں۔۔۔
وجہ یہ کہ دونوں اطراف سے سارے شعر ختم ہوچکے تھے،اور حرف نون،پر مقابلہ اٹک گیا تھا،نہ جانے ذہن کے کسی نہاں گوشے میں معاشرے کا اجتماعی شعور چھپا بیٹھا تھا،جس نے میری زبان پر سے یہ شعر جاری کروادیا۔۔میں نے عرض کیاکہ
نہ کر نہیں نہیں،یہ وقت نہیں،نہیں کا
تیری نہیں نہیں نے چھوڑا نہیں کہیں کا

مس سٹیلا سیٹی مار کرہنستی تھیں۔یہ شعر سن کر وہ سیٹی کافی دیر بجتی رہی،اب جبکہ وہ لمحے دھندلے ہوچلے ہیں،ایک بات سمجھ میں آئی ہے،اصرار کرنے والے اصرار کرتے رہتے ہیں۔انکار کرنے والے انکار کرتے رہتے ہیں۔دونوں میں مفاہمت ممکن نہیں ہے۔خوشبو پھول کوسمیٹتی رہتی ہے،مگر وہ بکھر جاتاہے،میں اس راز کو نہیں جانتا تھا اور شاید مس سٹیلا میری کم علمی پر ہنسی تھیں۔

انسان کو اگر انکار کی عادت نہ ہوتی تو وہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ کپڑے دھونے والی مشین ہوتا۔جو کام کہو وہ فوراً کردینا مشینوں کا وطیرہ ہے۔انسانوں کا نہیں۔۔آپ کسی فوٹو گرافر کے پاس چلے جائیں اور اسے تصویر کھینچنے کا کہیں تو وہ بڑے میکانکی انداز میں اٹھے گااور آپ کو پکڑ کر کسی اندھیرے کمرے میں ایک کالے ڈبے کا کان مروڑ کر آپ کو “ریڈی” کہے گا۔۔آپ ہونقوں کی طرح مسکرانے کی کوشش کریں گے،ایک کلک کی سی آواز آئے گی اور وہ رنگ برنگا فوٹو نکال کر آپ کے ہاتھ میں تھما دے گا۔اب ذرا وہاں سے اپنی گاڑٰ کا رخ کسی مصور کے گھر کی طرف موڑئیے۔۔پہلے تو مصور صاحب گھر پر نہیں ہوں گے،اگر ہوں گے تو آپ سے ملیں گے نہیں،ہِل بھی گئے توآپ سے بولیں گ نہیں،آپ ان کو اپنا پورٹریٹ بنانے کوکہیں گے،تو وہ آپ کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھیں گے۔۔آپ کو اچانک احساس ہوگا کہ شاید آپ کا پورٹریٹ بنانا فن مصوری کی توہین ہے۔پھر وہ بولیں گے آج کل پینٹنگ کا موڈ نہیں ہے،پھر کہیں گے کہ انہوں نے سوئٹزرلینڈ سے رنگ منگوائے ہوئے ہیں،جوابھی نہیں پہنچے۔چنانچہ اگر آپ انہیں اپنی تصویر بنانے پر مائل کرلیں تو یوں سمجھیں کہ آپ نے فن مصوری کی تاریخ میں اپنا نام لکھوالیاہے۔وہ بادل نخواستہ قسم کا مصور جب کینوس پر آڑھی ترچھی لکیروں سے آپ کے چہرے کا زاویہ کھینچے گاتو آپ خود یہ محسوس کریں گے کہ کیمرے سے کھینچے گئے فوٹو اور ہاتھوں سے بنائے گئے پورٹریٹ میں نفی اثبات کا فرق ہے۔ کیمرے کا فوٹو چونکہ اچانک کھینچا گیا ہوتا ہے،اس لیے اس میں “یکدمی” اثرات پائے جاتے ہیں۔رنگ و مو سے بنایا ہواچہرہ ایک طویل انکارانہ ریاض کے بعد سامنے آتا ہے،ایسی تخلیق میں چہرے کچھ سوچتے دکھائی دیتے ہیں،ان آنکھوں میں کبھی تفکر دکھائی دیتا ہے اور کبھی تحیر،ان جھریوں میں ایک کہانی ہوتی ہے جو عدسوں اور سرچ لائٹوں میں سامنے نہیں آتی،یہ تحیر،یہ تفکر عالم انکار کی ایک جھلک ہوتا ہے جو مصور کہیں ڈھونڈلاتا ہے۔

کیا آپ کسی دنیاکا تصور کرسکتے ہیں جہاں سب لوگ سر ہلا ہلا کر ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملارہے ہوں،جہاں ادب بغیر تنقید کے تخلیق ہورہاہو۔۔جہاں محبوب بغیر کسی پس و پیش کے دھاگے سے بندھا کھنچا چلاآئے؟۔۔۔جہاں شاعری میں استعاروں کی ضرورت نہ پڑے جہاں کوئے جاں میں کوئی چیخ نہ گونجے۔۔،جہاں لبِ دریا کوئی پیاسا نہ ہو،جہاں باغوں میں پت جھڑکا پیلا موسم نہ ہو،جہاں آنکھون میں رتجگے نہ ہوں،جہاں کارِ جہاں دراز نہ ہو،جہاں کہیں انتظار نہ ہو،یہ دنیا نفی،انکار اور تردید کی تال پر ناچ رہی ہے۔یہ ردھم تھم جائے تو ہر طرف ” ہُو” کا عالم بلکہ ہاں کا عالم طاری ہوجائے،میں اسی لڑتی جھگڑتی دنیا کا باسی ہوں،میں کہیں اور نہیں جاناچاہتا،کیاآپ مجھے کہیں اور لے کر جانا چاہتے ہیں؟
نن نن نہیں نہیں۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply