بلیک ہول میں نہ تو کوئی ایٹم ہے اور نہ ہی کسی ایٹم کے بال بچے، یعنی پروٹان ، نیوٹران، الیکٹران، کوارکس، گلیوآنزوغیرہ وغیرہ۔ بلیک ہول میں جو کچھ بھی ہے اُسے مادے کی کسی تعریف کے مطابق بھی مادہ نہیں کہاجاسکتا۔ وہ انرجی ہے۔ فقط توانائی اور توانائی بھی ایسی کہ صرف اورصرف مرتعش سٹرنگز پر مشتمل۔
الغرض مادے میں اپنے مرکز پر دباؤ ڈالنے کا رجحان پایا جاتاہے۔ یہ رجحان چونکہ آخرالامر مادے کے فنا اورانرجی کی پیدائش کا باعث بنتاہے اس لیے یہ کہنا چنداں غلط نہیں کہ کائنات میں موجود مادے کے اندر کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرنے کا رجحان پایاجاتاہے۔ کائنات کی ہرشئے میں یہی رجحان پایا جاتاہے۔
جتنا بھاری بھرکم ایٹم ہےاتنا ہی تابکار ہے۔ یورینیم کا ایٹم کتنا بھاری ہے؟ اس کے مرکزے میں بانوے (92) پروٹان ہوتے ہیں۔ یہ تو بہت ہی بھاری ایٹم ہوا ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن کا ایٹم سب سے ہلکا ایٹم ہے جس کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان ہے۔ اب دونوں میں سے کس کوتوڑنا یا کس کا ٹوٹ جانا آسان ہوگا؟ ظاہر ہے بھاری ایٹم جلدی ٹوٹے گا۔ ایٹم بم کے دوران یورینیم کو توڑدیاجاتاہے۔ اس سے قدرے چھوٹے چھوٹے ایٹم وجود میں آتے ہیں یعنی یورینیم یورینیم نہیں رہتی بلکہ دوالگ قسم کے عناصر(elements) پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس عمل میں تین نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔ ان میں سے دوکہیں غائب ہوجاتےہیں یا واپس یورینیم میں جذب ہوجاتےہیں لیکن ایک نیوٹران اگلے کسی ایٹم کو پھاڑنے کے لیے اس کے مرکزے میں کسی بم کی طرح جالگتاہے۔ اس سارے عمل میں ان نیوٹرانوں کی بائینڈنگ انرجی جسے نیوکلیس کے اندر گلیوآنز کہاجاتاہے اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تباہی پھیر دیتی ہے۔
جس زاویے سے بھی دیکھیے کائنات کی ہرشئے میں کثیف سے لطیف کی طرف سفرکرنے کا رجحان موجود ہے۔ چینی کا مالیکیول بہت زیادہ بھاری ہوتاہے اس لیے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہی ،خون میں موجود پانی میں حل ہوکر ٹوٹ جاتاہے۔اس عمل سے جو توانائی پیدا ہوتی ہے وہ ہمیں فوری طورپرحرکت کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ہمیں توانائی کی ضرورت ہے لیکن ہائیڈوجن کا ہلکا مالیکیول ہماری یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ ہمیں چینی کا بھاری مالیکیول اس لیے چاہیے تاکہ وہ ہمارے جسم میں جاتے ہی خون میں حل ہوکر ٹوٹے اور انرجی خارج ہو۔ وہی انرجی ہمیں چاہیے۔
اشیائے کائنات کا کثافت سے لطافت کی طرف یہ سفر فقط مادے تک ہی محدود نہیں۔ انرجی کی جتنی قسمیں ہیں ان میں دیکھیں تو بھاری انرجیاں بھی ہیں اور ہلکی انرجیاں بھی ہیں۔ لیکن انرجیوں کی دنیا میں ہلکے اور بھاری کا لفظ نہیں بولا جاتا ورنہ بہت بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں۔ انرجیوں کے معاملے میں فریکوئنسیوں کا لفظ بولاجاتاہے۔ فریکوئنسی کیا ہے؟ ایک سیکنڈ میں ایک مقام سے گزرنے والی لہروں کی تعداد۔ جیسے پل کے نیچے سے گزرنے والے پانی کی لہریں۔ روشنی کی فریکوئنسی تو بہت زیادہ ہے لیکن روشنی کی شعاعوں کے مختلف رنگ ہیں۔ سات رنگوں کی روشنیوں میں سب سے کم فریکوئنسی سرخ رنگ کی ہے اور سب سے زیادہ فریکوئنسی سبز، نیلی اور نارنجی شعاعوں کی ہے۔روشنی کی شعاعیں بھی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ اگر روشنی کی دو سرخ شعاعیں مخالف سمت سے آرہی ہوں اور درمیان میں کہیں آپس میں ٹکرا جائیں تو ایک دوسرے کی توانائی جذب کرنے کی وجہ سے وہ سرخ نہیں رہتیں بلکہ زیادہ فریکوئنسی والے کسی رنگ کی شعاع بن جاتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک ہلکی گیند دوسری ہلکی گیند کو دھکا مار کر تیز کرسکتی ہے۔انرجیوں کی دنیا میں بلیک ہول کی اندرونی انرجی تک لطیف ہوجانے کا رجحان پایا جاتاہے۔آئن سٹائن کی فیلڈ اکویشن یا جنرل ریلیٹوٹی والی مساوات میں اس عمل کو آسانی کےساتھ ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔
چونکہ کائنات کی ہرشئے میں کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرنے کا رجحان ہے اس لیے تھرموڈائنامکس کے تینوں قوانین اس رجحان کی پیروی کرتے ہیں۔ بطورِ خاص تیسرا قانون۔ جس کے مطابق ایک مادی نظام کا انتشار (سسٹم کی اینٹروپی) اُس وقت ایک مستقل مقدار تک پہنچنے کے قریب ہوجاتا ہے جب اس کا درجہ حرارت صفر کے قریب ہوجاتاہے۔ مطلق صفر پر اینٹروپی، اُصولی طورپرصفرہوجاتی ہے۔
ان تمام سائنسی حقائق کی مزید تفصیل سے وضاحت کی جاسکتی ہے لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہمارا قاری دورجدید کا قاری ہونے کی وجہ سے ان تصورات سے آگاہ ہے ہم پھر ایک بار محفوظ طریقے پر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی ٹینڈینسی کارفرماہے اور وہ ٹینڈینسی یا رجحان یہ ہے کہ ہرشئے کثیف سے لطیف ہونے کی طرف مائل رہتی ہے۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی ہرگزپیدا نہ ہو کہ کہیں کہیں جو اس کے برعکس نظرآتاہے وہ اس رجحان کے منافی ہے۔ مثلاً جب سپیس ٹائم کی کسی قوس (Curve) میں مادہ جمع ہورہاہوتاہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو مادہ لطیف سے کثیف ہوتاجارہاہے؟ بالکل بھی نہیں۔ یہ منظر اسی جانب گامزن ہے جو کائنات کا حتمی مطمحِ نظرہے۔
بعینہ ایسا ہی رجحان پہلے انسانی شخصیت اور پھر شخصیت سےذات تک کے سفر میں دیکھاجاسکتاہے۔ نیا پیدا ہونے والا بچہ فقط ایک وجود جسمانی کی شکل میں پیدا ہوتاہے۔ جس کا کوئی نام نہیں، کوئی شناخت نہیں، کوئی پہچان نہیں اور کوئی جوہر نہیں۔ وہ ایسا زندہ وجود ہے جو پرندے کے عرفان تک سے بظاہر محروم دکھائی دیتاہے۔ اس کی اسی محرومی کو دیکھ کر اہل وجودیت نے وجود کو جوہر پر متقدم قرار دیاتھا۔ حالانکہ وہ لمبی عمر پانے کے جِینز لے کر پیدا ہوا اور اِس لیے اس کی جبلت یا اس کا وجدان جانوروں کی جبلت اور ان کے وجدان سے مختلف ہے۔ وہ شناخت کرنے کا وجدان رکھتاہے، جو ایک زیادہ بڑا وجدان ہے۔ وہ معصوم ہے لیکن اس کے پاس ایک ایسا ذریعۂ علم موجود ہے جواُسے سوفیصد یقینی علم فراہم کرتاہے۔ وہ اتنی ننھی سی عمر میں کسی چہرے پر موجود محبت اور نفرت کے فرق کو صاف پہچان لیتاہے اور اس کا فیصلہ سوفیصد درست ہوتاہے۔
ابھی اس کی عقل اپنی کارفرمائیوں پر نہیں اُتری۔ ابھی اس کے علم ِ وجدانی میں عقل کا التباس شامل نہیں ہوا اس لیے عقلی علوم میں ناقص ترین لیکن وجدانی علم میں باکمال ہستی کے طورپر اپنے ہونے کا اظہار کرتاہے۔ لیکن جوں جوں اس کے عقلی علوم کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی ہے اس کے وجدانی علم کا دروازہ تنگ ہوتے ہوتے فقط ایک روزن بن کر رہ جاتاہے۔
لیکن جب ہم اس کے تجربات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو حیرت انگیز طورپراس کے ابتدائی بچپن کا تمام عہد کثیف سے لطیف کی طرف سفر کا عہد ہے اور یہ سفر مرتے دم تک جاری رہتاہے یعنی چھوٹا بچہ عقلی جستجو کے اعتبار سے مادی کائنات میں غرق ہوتاہے۔ وہ کسی اچھے سائنسدان کی طرح ہوتاہے۔ اس کا تجسس یہ ہے کہ چیزوں کو جان لے۔ اس کے لیے رستوں کے گرد اُگے پھول اور ان پر اُڑتی تتلیاں کُل توجہ کا مرکز ہیں۔ جوں جوں وہ بڑا ہوتاجاتاہے اپنےگردوپیش سے ماورا ہوتا چلاجاتاہے۔ یہ پھراس کے فقط ایک روزن بھر وجدان کی کارفرمائی ہے۔جوپھیل کر دوبارہ کھلا دروازہ بھی بن سکتاہے اور زیادہ نہیں بھی پھیل سکتا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں