• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • دوسری دنیائیں، دوسرے سفر ۔ نظامِ شمسی کے سیاروں کے آپریشن۔۔۔۔وہارا امباکر

دوسری دنیائیں، دوسرے سفر ۔ نظامِ شمسی کے سیاروں کے آپریشن۔۔۔۔وہارا امباکر

ماہرینِ فلکیات ہمارے نظامِ شمسی کی دنیاوٗں کو چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ برّی سیارے جیسا کہ عطارد، زہرہ، مریخ اور ہماری زمین۔ چھوٹی پتھریلی دنیائیں جیسا کہ مریخ کے مدار سے پرے آسٹرائیڈ بیلٹ جو بہت سی بے ڈھنگی شکل والے سیارچوں سے بھری ہے۔ ایسی دنائیں جنہیں پوری طرح تشکیل کا موقع ہی نہیں ملا یا پھر تصادم سے چکنا چور جانے والوں کی باقیات ہیں۔ اس بیلٹ میں سیریز بھی ہے جو ساڑھے نو سو کلومیٹر کے قطر کا جسم ہے۔ اس سے آگے گیس جائنٹ مشتری، زحل، نیپچون اور یورینس (کچھ آسٹرونومر آخری دو کو برف کے جائنٹ بھی کہتے ہیں) جو پتھریلی سطح نہیں بلکہ ہائیڈروجن اور ہیلئم کی گیس کا گہرا غلاف رکھتے ہیں جس کے اندر جاتے جائیں تو یہ کثیف تر ہوتی جاتی ہے اور اندر جاتے جاتے عجیب حالت دیکھنے کو ملتی ہے اور پھر نیچپون سے پرے برف اور پتھر کی دنیائیں جو بونے سیارے ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی کی تاریک سرد جگہوں پر ہیں۔
اگر ہم ان کے اندر غوطہ لگائیں تو کیسا ہو گا؟
سورج سے سب سے قریب عطارد ہے۔ خلائی پروب سے اس کی لی گئی تصاویر ایک غیرتربیت یافتہ آنکھ کو چاند جیسی لگیں گی۔ ہوا کے بغیر، گڑھوں سے بھرا گولا۔ پہاڑ اور وسیع چٹیل میدان۔ سورج کی سمت اس کی سطح کا درجہ حرات سیسے کو پگھلا دے۔ لیکن ذرا قریب سے دیکھیں تو بہت مختلف ہیں۔ یہ ایک کثیف سیارہ ہے اور اس کی کثافت اس میں لوہے کی بڑی کور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ اپنی نوعمری میں اس کا ایک بڑا تصادم ہوا تھا جس نے اس کی بیرونی سطح کو اڑا کر رکھ دیا تھا اور مینٹل بہت کم رہ گیا۔ اندر سے یہ بھی ہماری زمین جیسی تہیں رکھتا ہے۔
اس کی بیرونی ٹھوس سطح ٹھوس سلیکیٹ کی چٹان کی اور پچاس کلومیٹر موٹائی کی ہے۔ اس سے نیچے صرف دو سو کلومیٹر موٹائی کا مینٹل۔ اس سے نیچے پچاس کلومیٹر کا آئرن سلفائیڈ کا بیرئیر، اس سے نیچے 850 کلومیٹر کی مائع لوہے کی بیرونی کور جس کے اندر 1240 کلومیٹر ریڈیس کی ٹھوس لوہے کی اندرونی کور۔اگرچہ عطارد ہماری زمین سے خاصا چھوٹا ہے لیکن اس کی اندرونی کور زمین سے کچھ بڑی ہے۔ اس کی کور اس کا 85 فیصد ماس رکھتی ہے۔ اس وجہ سے عطارد اتنا کثیف سیارہ ہے۔ اس کا مقناطیسی فیلڈ بھی ہے جو دھاتی کور کی حرکت کی وجہ سے ہے۔ اس کے مرکز میں پریشر ہماری زمین کے مقابلے محض گیارہ فیصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادلوں سے ڈھکا زہرہ ہمارا اگلا سیارہ ہے۔ اس کو کئی بار زمین کا جڑواں کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا سائز زمین کے قریب قریب ہے لیکن جیسا کسی نے لکھا تھا کہ جنت اور جہنم کے دروازے ایک ہی جیسے ہیں اور قریب قریب ہیں۔ اگر زمین جنت ہے تو زہرہ، اپنے انتہائی کثیف اور گرم فضائی کرہ لئے جس کی کئی جگہوں پر خاص اونچائی پر ڈائیلیوٹ گندھک کے تیزاب کے ننھے قطرے برستے ہیں، کو جہنم کہا جا سکتا ہے۔ زمین اور زہرہ کے ایک جیسے سائز کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سفر کیا جائے تو وہ بھی زمین سے ملتا جلتا ہو گا۔ کور، مینٹل اور کرسٹ۔ اس کا اندرونی پریشر زمین کے مقابلے میں 81 فیصد ہے۔ ارضیاتی طور پر دونوں سیاروں کے درمیان فرق پلیٹ ٹیکٹانکس کا ہے۔ غالباً اس وجہ سے کہ پانی کے بغیر اس کی کرسٹ زیادہ مضبوط ہے اور غرق نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے اس میں حرارت کا اخراج بھی سست ہے۔ یہ زمین کی طرح ٹھنڈا نہیں ہوا اور اس میں کنوکشن کی وجہ سے ڈائنامو کام نہیں کر رہا جو مقناطیسی فیلڈ پیدا کرے۔ اس کی سلیکیٹ چٹانوں پر مشتمل کرسٹ پچاس کلومیٹر موٹی ہے۔ تین ہزار کلومیٹر موٹا مینٹل ہے لیکن ہمیں اس کی کمپوزیشن کا علم نہیں۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ اس کی کور ٹھوس بنی ہے یا نہیں۔ مستقبل کے مشن یہاں کی سطح پر سیسمومیٹر نصب کر سکتے ہیں تا کہ زلزلوں کی مدد سے اس کے اندرونی سٹرکچر کا ٹھیک طریقے سے پتا لگایا جا سکے۔ ابھی تک کے شواہد یہ بتاتے ہیں کہ سائنسی لحاظ سے اس کا اندرونی سفر زمین کی طرح کا ڈرامائی نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر بھی پچاس کلومیٹر موٹی کرسٹ ہے جو لوہے، کیلشیم، آکسیجن، میگنیشم، سلیکون اور ایلومینیم سے بنی ہے۔ اس کے مینٹل میں لوہے کا تناسب زمین سے زیادہ ہے۔ اپالو کے خلابازوں کے نصب کردہ زلزلے کی پیمائش کے آلات سے حاصل کردہ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ زلزلے یہاں پر ماہانہ آتے ہیں اور اس کا مرکز ایک ہزار کلومیٹر کی گہرائی پر مینٹل میں ہوتا ہے۔ ان کی وجہ چاند پر ٹائیڈل سٹریس ہے، جو چاند کے مدار کی شکل کی وجہ سے ہے۔ کئی طرح کے شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ اس کا کور چھوٹا ہے اور ساڑھے تین سو کلومیٹر کے ریڈیس کا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کا کم سے کم کچھ حصہ مائع شکل میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریخ کی سطح پر پہاڑ، وادیاں، گڑھے، ریتلے صحرا اور صبح گہری کھائیوں سے چھٹتی دھند ہے۔ زمین اور چاند کے بیچ کے سائز کے اس سیارے کے بیچ میں بھی کثیف دھاتی کور ہے۔ اس کے گرد لیتھوسفئیر انسولیٹر کا کام کرتا ہے اور یہ اپنی حرارت تیزی سے سطح پر نہیں ہنچا رہا۔ اس پر پلیٹ ٹیکٹانکس نہیں ہیں۔ ماضی میں اس کا بھی جیو ڈائنامو ہوا کرتا تھا اور مقناطیسی فیلڈ بھی۔ 1997 میں مارس گلوبل سروئیر نے اس کی کچھ جگہوں پر مقناطیسی فیلڈ دریافت کیا جو ماضی کے مضبوط مقناطیسی فیلڈ کی باقیات سمجھا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ دو ارب سال سے زائد ہوئے جب اس کا کور ٹھوس ہو چکا تھا اور ڈائنامو بند ہو گیا۔ اس کے اندر کا سفر اب زیادہ دلچسپ نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلچسپی میں جو سیارہ زمین کا مقابلہ کرتا ہے، وہ زمین سے 318 گنا بڑا مشتری ہے۔ اس کی سطح ہی بتا دیتی ہے کہ یہ زمین سے کتنا مختلف ہے۔ رنگ برنگے بینڈ اور جیٹ سٹریم اور ایسے موسمیاتی سسٹم جو زمین کے سائز سے بھی بڑے ہیں۔ امونیا کرسٹل کے بادل جن کی تہہ پچاس کلومیٹر موٹی ہے۔ اس کے نیچے پتلی اور صاف تہہ جس میں پانی کے بادل موجود ہو سکتے ہیں اور بجلی کی کڑک جو زمین سے ہزار گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ گرم ہوتے بادل اوپر کی طرف آتے ہیں۔ اپنا رنگ بدل کر پہلے نارنجی اور پھر بھورا کر لیتے ہیں۔ کنوکشن کے چکر انہیں اوپر نیچے اچھالتے رہتے ہیں۔
اس کے مرکز کے سفر میں ہم ان بادلوں سے اتریں گے۔ ہائیڈروجن کی فضا کثیف ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ اتنی کثیف ہو جائے گی کہ مائع بن جائے گی۔ گیس اور مائع کہ تہہ کے درمیان کوئی خاص حدِ فاصل نہیں ہو گی۔ اس کے بعد ہم دھاتی ہائیڈروجن کے سمندر میں پہنچ جائیں گے۔ اس میں لہریں ہوں گی اور بہتی ہو گی اور بھنور ہوں گے اور خطِ استوا کے قریب اس میں ابھار ہو گا جو مشتری کی گردش کی وجہ سے ہو گا۔ اس دھاتی ہائیڈروجن کے یہ گرداب مشتری کے طاقتور مقناطیسی فیلڈ کے ذمہ دار ہیں۔ ہیرے کے ٹکڑےبھی شاید ان دھاتی موجوں کے ساتھ ہی بہہ رہے ہوں گے۔ اس کی کم گہرائی میں بھی اتنا زبردست پریشر اور درجہ حرارت ہو گا کہ وہ ان کو مائع میں بدل کر مائع ہیروں کی بارش کا سبب بنے گا۔
واپس مشتری کے سمندر میں، جہاں درجہ حرارت دس ہزار ڈگری ہے اور اس کی تہہ میں ہم اس کی کور تک جا پہنچیں گے جو پوری زمین کے مقابلے میں بارہ سے پینتالیس گنا تک بڑی ہے۔ یہاں درجہ حرارت 37000 ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ پریشر زمین کے مقابلے میں دس گنا۔ کچھ کا خیال ہے کہ کور پتھریلی ہے لیکن ہمیں ابھی پکا پتہ نہیں۔ اس کی پیدائش کے وقت پتھریلی اور برفیلی کور ممکن ہے کہ اس سمندر میں ہی گھل گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے گرد گردش کرتا چاند یوروپا جس کی برفیلی سطح کے نیچے پانی کا بڑا سمندر ہے جو زندگی سپورٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یوروپا بھی اپنے اندر مائع لوہے کی کور رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹینڈرڈ سیاراتی ماڈل بتاتے ہیں کہ زحل بھی مشتری کی طرح ہے۔ چھوٹی پتھریلی کور جس کا درجہ حرارت 11700 ڈگری ہے۔ زمین کے ماس سے نو سے بائیس گنا زیادہ ماس۔ اس کے گرد مائع ہائیڈروجن جس کی تہہ مشتری سے زیادہ بڑی ہے۔ اس کے گرد ہیلئیم اور ہائیڈروجن جو اوپر جاتے جاتے گیس میں بدل جاتے ہیں۔ ہیرے پیدا کرنے کے بہتر حالات کی وجہ سے اس کے مرکز کا سفر ہیروں کے دلچسپ نظارے دے۔ زحل میں بھی ایسے ہی دھاتی سمندروں میں ہیرے ہوں گے جو اتنے بڑے ہوں گے جیسے زمین پر سمندر میں آئس برگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد برفیلے دیو یعنی نیپچون اور یورینس۔ سٹینڈرڈ سیاراتی ماڈل کے تحت ان کی تین تہیں ہیں۔ مرکز میں سیلیکیٹ، لوہے اور نکل کا کور، درمیان میں برف کا مینٹل اور باہر ہائیڈروجن اور ہیلیم کا غلاف۔ چھوٹی کور جو زمین کے سائز کا نصف ہے۔ ماڈل کے مطابق، یورینس کے درجہ حرارت اور پریشر پر میتھین کے مالیکیول ٹوٹ جاتے ہیں، نکلنے والے کاربن ایٹم ہیروں کی شکل میں مینٹل کا رخ کرتے ہیں جیسے ژالہ باری ہو رہی ہو۔ ہائیڈروجن کا وہ سمندر جس میں ڈائمنڈ برگ تیر رہے ہوں۔ اگر اس کے مرکز کا سفر کر رہے ہوں تو تصور کر سکتے ہیں کہ کچھ دیر کسی چھوٹے جزیرے کے برابر اس ہیرے کے پلیٹ فارم پر سستا لیں گے اور اس سے پلے کہ یہ بحری جہاز کے ہیروں کے جھرمٹ سے ٹکرا جائے، اٹھ کر مزید سفر جاری رکھیں گے۔ یورینس اور نیچپون میں ہیروں کی تعداد مشتری سے بھی زیادہ ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں نظامِ شمسی سے باہر بے شمار دنیائیں مل رہی ہیں۔ وہ کیسی ہوں گی؟ ان میں ہمیں بڑی تعداد میں زمین سے بڑی سپر ارتھ مل رہی ہیں۔ کیا ان میں پلیٹ ٹیکٹانکس ہوں گی؟ ایک خیال یہ ہے کہ زیادہ سٹریس کی وجہ سے زمین سے زیادہ، جبکہ دوسرا خیال ہے کہ زیادہ گریویٹی کی وجہ سے بالکل نہیں۔ کیا ان کی تہیں زمین جتنی متنوع ہوں گی؟ ایک خیال ہے کہ زمین سے زیادہ کیونکہ زیادہ پریشر اور سائز کی وجہ سے تقسیم زیادہ ہو گی۔ ایک خیال ہے کہ زمین سے کم کیونکہ زیادہ پریشر کی وجہ سے مینٹل اور کور الگ نہیں ہو پائیں گے اور سپر ارتھ کا کور نہیں ہو گا۔ البتہ سپر ارتھ میں میگنیشیم آکسئیڈ پگھلی حالت میں ہو گا جو زمین کے درجہ حرارت میں ٹھوس ہے۔ یہ ان میں مقناطیسی فیلڈ پیدا کر سکتا ہے جو اربوں برس تک رہ سکتا ہے۔
کیا ان زیادہ گریویٹی والے سیاروں میں زندگی ہو گی اور اگر ہاں تو کس قسم کی؟ کیا یہ ہماری زمین سے زیادہ ڈرامائی ہوں گے یا زمین سے زیادہ بورنگ؟ اس پر ابھی صرف اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔
زمین کے اندر کا حال

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply