کیا لیڈر سے فرق پڑتا ہے؟۔۔وہارا امباکر

جرمنی میں 1930 کے موسمِ گرما میں ایک گاڑی کا تصادم ایک ٹرک سے ہوا۔ ٹرک نے عین موقع پر بریک لگا دی اور گاڑی مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ گئی۔ گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھا مسافر اس حادثے میں چند انچ کے فرق سے بچا۔ اس مسافر کا نام ایڈولف ہٹلر تھا۔ ہٹلر کے چانسلر بننے میں ابھی دو سال رہتے تھے۔

اگر اس روز ٹرک کی بریک لگانے میں ایک سیکنڈ کی تاخیر ہو جاتی تو دنیا کی تاریخ کیسی ہوتی؟ اس طرح کے سوالات مورخین کے پرانے مباحث کا باعث رہے ہیں۔ کیا قومی لیڈر تاریخ پر فرق ڈالتے ہیں یا پھر لیڈر کوئی بھی ہوتا، تاریخ نے تو ویسا ہی ہونا تھا۔ ایک انتہا پر برطانوی مورخ تھامس کارلائل ہیں جن کے “گریٹ مین ویو” کے مطابق تاریخ عظیم لوگوں کے کئے گئے کاموں کا نتیجہ ہے۔ عسکری مورخ عام طور پر اس نقطہ نظر کا سب سے زیادہ استعمال کرتے آئے ہیں جو تاریخ کو جنرلوں یا جنگ کے وقت کے سیاسی لیڈروں کے لئے گئے فیصلوں سے بیان کرتے ہیں۔ دوسری انتہا پر ہمیں لیو ٹالسٹائی نظر آتے ہیں۔ ان کا شاہکار ناول “وار اینڈ پیس” اس کی مثال ہے جس میں بیان کی گئی فکشن کی جنگوں میں جنرل آرڈر تو دیتے ہیں لیکن جنگ میں جو کچھ جاری ہے اس کا تعلق ان احکام سے نہیں ہوتا۔

بہت سے مورخین تاریخ کو “گریٹ مین ویو” کی نظر سے دنیا کو نہیں دیکھتے۔ تاریخ کا انحصار پالیسیوں اور فیصلوں کی باریکیوں پر ہے نہ کہ اہم لیڈروں پر۔ ان مورخین کے مطابق لیڈر بااثر صرف اس وجہ سے لگتا ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے خیالات اور حالات کے مطابق اس کا پیغام یا پالیسی ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ غیرمتاثرکن لیڈر کو بھی اس وقت کے مواقع متاثرکن بنا دیتے ہیں۔ (اس کی ایک مثال امریکی صدر ہیری ٹرومین کی دی جاتی ہے)۔ کسی بھی لیڈر کے پاس کسی وقت میں خود بہت محدود آپشن ہوتے ہیں، جن سے انتخاب کیا جا سکے۔ دستیاب چوائس کا انحصار تاریخ کے چلتے پہئے کے دوسرے فیکٹرز پر ہے۔

ان دونوں کے درمیان میں ایک نقطہ نظر جرمن سوشیالوجسٹ میکس ویبر کا ہے جن کا کہنا تھا کہ کچھ قسم کے لیڈر، جنہیں کرشماتی لیڈر کہا جاتا ہے، کچھ حالات میں کئی بار تاریخ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ان میں سے ہر خیال میں سچ کا عنصر موجود ہے لیکن یہ طے کیسے کیا جائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بحث میں مورخ اپنا نکتہ نظر شواہد کے بجائے اپنے اصول پر رکھتے رہے ہیں اور انفرادی تاریخ لکھتے ہوئے اس پر اطلاق کرتے رہے ہیں۔ مثلاً، اگر گریٹ مین ویو رکھنے والا مورخ ہٹلر کی بائیوگرافی لکھتا ہے تو ہٹلر کو غیرمعمولی طور پر موثر لیڈر بتاتا ہے، جبکہ اس کا مخالف انہی واقعات کو لکھتا ہے اور ہٹلر کو اس وقت کے جرمن معاشرے کی آواز کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس بحث کو انفرادی کیس سٹڈیز اور کہانیوں سے نمٹانا ناممکن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک حالیہ تجزیے نے ایک اچھی اپروچ لی ہے۔ تاریخی واقعات کا بڑا سیمپل جو ایک ہی طرح کے ہوں (جنہیں نیچرل ایکسپیریمنٹ کہا جاتا ہے)۔ اس میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے قریب قریب کے حالات سے آگے لئے گئے مختلف راستوں کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے دو بہت ہی زبردست پیپر نارتھ ویسٹ یونیورسٹی کے بنجمن جونز اور ایم آئی ٹی کے اولکن نے لکھے ہیں۔

پہلے پیپر میں سوال یہ ہے: اگر ایک لیڈر اپنے دورِ اقتدار میں قدرتی وجوہات سے انتقال کر جائے اور اس کا موازنہ رینڈم وقتوں سے کیا جائے جب ایک لیڈر انتقال نہیں کرتا تو معاشی انڈیکیٹرز پر کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ موازنہ ہمیں ایک قدرتی تجربہ دیتا ہے کہ ہم لیڈرشپ کی تبدیلی سے ہونے والے اثرات کی پیمائش کر سکیں۔ اگر گریٹ مین ویو ٹھیک ہے تو لیڈر کی قدرتی موت سے معاشی بڑھوتری کی شرح پر کسی اور رینڈم ایونٹ (جس میں لیڈر تبدیل نہیں ہوتا) کے مقابلے میں زیادہ فرق پڑنا چاہیے۔ جونز اور اولکن نے 1945 سے 2000 کے درمیان ایسے 57 کیس لئے۔ اس میں اموات کی وجہ دل کا دورہ، کینسر، ڈوبنا، گھوڑے سے گرنا، جہاز کا کریش، ٹانگ کا ٹوٹنا تھے۔ یعنی یہاں پر مرنے کی وجہ کا تعلق کسی بھی طریقے سے لیڈر کی پالیسی سے نہیں تھا۔

اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی بڑھوتری کی شرح میں تبدیلی کا امکان لیڈر کی قدرتی موت کے بعد بہت زیادہ تھا۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ بہت سے کیسز پر جب اوسط نکالی جائے تو یہ واضح ہے کہ لیڈرشپ سے اکنامک گروتھ متاثر ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے پیپر میں جونز اور اولکن نے سوال کیا: اگر ایک لیڈر کو قتل کئے جانے کی صورت میں تبدیلی سے کیا ہو گا؟ قتل کئے جانا رینڈم واقعہ نہیں۔ (اگر کہیں پر معاشی بڑھوتری کی شرح کم ہو تو قتل کئے جانے کا امکان زیادہ ہے)۔ اس کے لئے جونز اور اوکلن نے قتل کئے جانے میں کامیابی کا موازنہ قتل کئے جانے میں ناکامی کی صورت میں ہونے والی تبدیلیوں سے کیا۔ اس میں 1875 سے 2005 تک قتل کی 298 کوششوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا۔ ان میں سے 59 کامیاب تھیں اور 239 ناکام۔ اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ کامیاب کوشش کے بعد ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کی شرح ناکامی سے زیادہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان دونوں سٹڈیز میں ایک اور چیز یہ واضح تھی کہ یہ فرق اس وقت زیادہ تھا جب لیڈر آمرانہ طرز کا تھا بہ نسبت اس کے جہاں پر جمہوری حکمران تھا۔ اور جو حکمران جتنا طاقتور تھا، یہ فرق اتنا زیادہ تھا۔ مضبوط لیڈر، اچھے اور برے، دونوں طرح زیادہ فرق ڈالتے ہیں۔

کوئی بھی فرق بہت بڑا نہیں ہوتا یعنی کہ ایسا نہیں کہ لیڈر کی تبدیلی بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ البتہ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ لیڈرشپ اہم نہیں ہے۔ اس سے فرق کتنا پڑتا ہے؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ حالات اور نظام کیسا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معاشی انڈیکیٹرز کے علاوہ لیڈرشپ کا ایک امتحان مضبوط مخالفت کا مقابلہ کر کے معاشرے میں تبدیلی لانا ہے۔ یہاں پر پچھلی صدی میں ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں پر احتیاط ، مضبوطی، معاملہ فہمی اور ایک ایک قدم کے ذریعے کچھ لیڈر یہ کام کرنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے خطے سے باہر اس کی مثالیں دیکھنے کے لئے کاوور اور چانسلر بسمارک کو دیکھا جا سکتا ہے جو آہستہ آہستہ اٹلی اور جرمنی کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چرچل جو ایک منقسم برطانوی کابینہ میں ہٹلر کے ساتھ لارڈ ہیلی فیکس کا امن معاہدے ختم کروانے میں قائل کرنے میں کامیاب ہوئے اور امریکیوں کو قائل کیا کہ وہ جرمنی سے جنگ ترجیح بنائیں (امریکہ کی ترجیح جاپان تھا)۔ چارلس ڈی گال، جنہوں نے اپنے اور الجیریا کے عوام کو رفتہ رفتہ قائل کر لیا کہ الجیریا کی جنگِ آزادی کا تصفیہ کر لیا جائے۔ سہارتو، جنہوں نے قوم کا سوئیکارنو سے اعتماد اپنی طرف منتقل کروایا، انڈونیشا میں جنگ بندی کروائی اور ملک کو انتہاپسندی سے دور رکھنے میں کامیاب رہے۔ ولی برانٹ جنہوں نے مغربی جرمنی کو کڑوی گولی نگلنےکے لئے قائل کیا اور بھاری اپوزیشن کے باوجود اپنے ملک کے بڑے حصے پر اپنا دعویٰ ختم کر دیا۔ اور ملک پر بیس سال سے حکومت کرنے والی پارٹی کی مخالفت میں نہ صرف یہ کیا بلکہ گھٹنوں پر گر کے پولینڈ سے جنگِ عظیم کی معافی مانگنے والا حیرت انگیز عمل تھا، جس نے جرمنی کو عزت دلوائی اور پھر اس کی مستقبل میں یکجائی اور طاقتور ملک بننے کی راہ ہموار کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مندرجہ ذیل لنک میں رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے نتائج کا مختصر خلاصہ ۔

“لیڈر فرق ڈالتے ہیں۔ یہ فرق آمرانہ سیٹنگ میں زیادہ ہوتا ہے جبکہ جمہوری اداروں کی موجودگی میں کم۔ سیاسی ادارے فرق ڈالتے ہیں لیکن یہ سب کچھ طے نہیں کر دیتے۔ سیاسی اداروں کا ایک بڑا اہم کام انفرادی لیڈروں کی طاقت کو قابو میں کرنا ہے۔ جمہوریت زمبابوے میں رابرٹ موگابے یا موزمبییق میں سمورا میکل کی تباہ کن معاشی پالیسیوں سے ملک کو محفوظ رکھ سکتی تھی اور ملک بچا سکتی تھی۔ جبکہ دوسری طرف یہ سنگاپور کے لی کوان ییو یا چین کے ڈینگ شیائو پنگ کو بھی روک دیتی۔

ڈیٹرمنسٹک ویو یہ تجویز کرتے ہیں کہ لیڈروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ ہم ڈیٹا کے ذریعے اپنے تجزیے سے یہ لیڈروں کے محض حالات کی پیداوار ہونے کا ہائیپوتھیسز مسترد کر سکتے ہیں۔ ان سے فرق ضرور پڑتا ہے اور قومی معاشی بڑھوتری جیسے اہم فیکٹر پر بھی پڑتا ہے”۔

اس پیپر کا لنک

Advertisements
julia rana solicitors

https://economics.mit.edu/files/2915

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply