عہدِ وفا سے عہدِ بے وفائی تک۔۔عزیز خان

آج کل ٹی وی پر ایک ڈرامہ بہت دیکھا جا رہا ہے “عہد وفا” کمال ڈرامہ ہے ہر اتوار کو ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے تونسہ کے گُلزار کی اداکاری بھی کمال ہے جو تونسہ کے (دوسرے اداکار )سے ہزار گنا بہتر ہے کوئی شک نہیں ڈرامہ دیکھنے کے بعد میرا دل بھی اس عمر میں فوج میں جانے کو  کرتا ہے، ڈرامے  میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے مُلک کا سسٹم کتنا خراب ہے پولیس ،ڈاکٹر ،سیاستدان ،وکلا کس طرح جرائم پیشہ افراد کا ساتھ دیتے ہیں۔مگر کاش یہ بھی دکھایا جاتا کہ متذکرہ بالا پروفیشن کے افراد کی ٹرنینگ کا معیار کیا ہے۔

ڈرامہ کا ایک کردار کیڈٹ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اُس کے ماں باپ کی لڑائی کی وجہ سے وہ ٹریننگ نہیں  حاصل کر رہا ہوتا ، اس کے ماں اور باپ کو بلوا کر صُلح کروائی جاتی ہے ایسی ٹریننگ اور ماحول پولیس ملازمین کے لیے تو ایک خواب ہے۔

آج انسپکٹر بشارت عباسی Sho صادق آباد راولپنڈی نے اپنے CPO راولپنڈی کے بُرے رویے  کی وجہ سے تھانہ پر رپورٹ لکھی ہے اور Sho شپ چھوڑ کر لائین حاضری کر لی ہے رپورٹ میں اُس نے وجوہات بھی لکھی ہیں کہ ان افسران کا رویہ رینکرز سے کیسا ہوتا ہے اُن کو غلام سمجھا جاتا ہے صرف ذاتی پسند ناپسند دیکھی جاتی ہے اور کس طرح بے عزت کیا جاتا ہے

کُچھ عرصہ سے پولیس خاص طور پر پنجاب پولیس میں خود کشیوں کا رجحان زیادہ ہو گیا ہے۔ڈی ایس پی غلام محمد جو ایس پی یونٹ ساہیوال میں تعینات تھا ، نے خودکشی کر لی۔ڈولفن فورس کے کانسٹیبل نے ڈیرہ غازی خان میں خود کشی کر لی۔ٹریفک وارڈن نے لاہو دفتر میں خود کشی کرلی۔

ان کی وجوہات معلوم کرنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں صرف یہ کہہ دینا کہ  گھریلو پریشانی تھی اور فائل بند۔۔۔
لیکن اگر ان تمام واقعات کی وجوہات پتہ کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ ایک ہی ہوتی افسران کا رویہ، غلط ٹرانسفراور پوسٹنگ۔ سہولتوں کا فقدان ،چوبیس گھنٹے ڈیوٹی۔
تمام پی ایس پی افسران سے پوچھا جاتا ہے کہاں پوسٹنگ کروانا چاہتے ہیں اور اُن کی مرضی کی پوسٹنگ ہوتی ہے مگر ماتحتِ  اعلیٰ ،ادنیٰ اور رینکرز ڈی ایس پی اور ایس پی صاحبان کو جہاں مرضی بھجوا دیں اُن سے کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ کہاں پوسٹنگ کی جائے ۔

جب پوچھا نہیں جائے گا تو ایسے حادثات ہوں گے پوری دنیا میں کام کرنے والے افراد کو اچھا ماحول دیا جاتا ہے سہولتیں  دی جاتی ہیں پھر کام کا پوچھا جاتا ہے مگر ہمارے مُلک میں بغیر کسی سہولت کے رزلٹ مانگا جاتا ہے وہ بھی ترقی یافتہ ممالک جیسا۔

پچھلے دنوں ایک ڈی ایس پی نے اپنے تمام ایس ایچ اوز سے کرپشن نہ کرنے کی قسم لی ،ایک ڈی پی او نے کرپشن کی شکایت پر  تین ایس ایچ او معطل کر دیے، شاید وہ ملازمت سے برخواست بھی ہو جائیں گے مگر Dsp اور Dpo نے اپنے ملازمین کو یہ نہیں بتایا کہ کراچی یا پشاور سے کار کی برآمدگی یا مجرم اشتہاریوں کی گرفتاری کے اخراجات کون ادا  کرے گا۔
باتیں کرنا آسان ہے مگر فیلڈ میں ملازمت کرنا بہت مشکل ہے۔

آج مجھے اپنے کچھ پولیس ملازمین دوستوں کی کالز آئیں جو مجھ سے نالاں تھے کہ آئی جی کے دورہ بہاولپور اور ملتان پر یہ احکامات ملے ہیں کہ تمام ملازمین کے بوٹ اور وردیاں ایک جیسی ہوں یہ آپ کے کالم کا اثر ہوا ہے جو آپ نے کچھ دن پہلے لکھا تھا۔

اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو اچھی بات ہے مگر مجھے حقیقی خوشی تب ہو گی جب موجودہ آئی جی اپنی پولیس فورس کے مسائل حل کریں گے اور ان کو وہ سہولتیں دیں گے جو ان کا حق ہے سہولتوں کا فقدان اوپر سے افسران کا بُرا اور حقارت آمیز رویہ ملازمین کو ذہنی طور پر برباد کر دیتا ہے۔

پولیس کے ملازمین بھی اپنی پاسنگ آؤٹ پر “عہدوفا “کرتے ہیں مگر انہیں بے وفائی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ،انہیں بھی آرمی جتنی سہولتیں دے دیں تو مجھے یقین ہے یہ بھی کبھی بے وفائی نہیں کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply