• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امریکہ جاکر واپس نہ آنے والے صحافی اچھا کررہے ہیں۔۔اے وسیم خٹک

امریکہ جاکر واپس نہ آنے والے صحافی اچھا کررہے ہیں۔۔اے وسیم خٹک

سننے میں آرہا ہے کہ پشاور کے کچھ صحافی امریکہ میں جرنلسٹ ایکسینچ پروگرام میں غائب ہوگئے ہیں اور یہ کوئی آج کی بات نہیں یہ گزشتہ کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے ۔ جس پر کچھ لوگ صحافیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ اور صحافی بھائیوں کو طعنہ دیا جارہا ہے کہ اگر ہمت ہے تو کوئی بریکنگ ان پر بھی چلا دو کہ فلاں صحافی پشاور سے امریکہ جاکر فرار ہوگیا ہے یا کسی نے مغربی ملک میں جا کر سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے اور اب اُن کا کیس پراسس ہورہا ہے۔ تو مجھے یہ جان کر نہ تو حیرانی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی مجھے گھیرتی ہے، بلکہ میں  اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو اس طرح کرتادیکھ کر  خوش ہوتا ہوں کہ میرے دوستوں کی زندگی سنور جائے گی ۔ اُ ن کو اللہ ایک موقع فراہم کرتا ہے اور وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو یہ ا ن کی سنگین غلطیوں میں شمار ہوگا  ۔ اور میری طرح جو لوگ باہر ملک جاکر واپس پلٹے ہیں ،اُسے میں اُن کی بد نصیبی ہی سمجھوں گاکہ وہ اپنے ضمیر کی مان کر واپس اس امید پر پاکستان آئے ہیں کہ پاکستان سے انہیں محبت ہے اور یہی محبت انہیں واپس لے آئی ۔مگر پاکستان آکر بہتری کی آس میں انہوں نے اپنی زندگی داؤ  پر لگا دی ۔ اور جو صحافی بھائی دوسرے  ممالک جا کر غائب ہوجاتے ہیں میں ان کو اچھی نظر سے دیکھتا ہوں انہوں نے بہت اچھا کیا ہے ۔ اور جو اس طرح کرتے ہیں وہ بہت ہی اچھا کر رہے ہیں کیونکہ اس ملک میں ان کے لئے رکھا ہی کیا ہے ۔ وہ دووقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں ۔ ویج بورڈ ان کو نہیں مل رہا۔ بجٹ ان کی  تنخواہوں میں اضافہ نہیں کررہا ۔چھٹیاں ان کو نہیں ملتیں  ۔ پنشن ان کی نہیں ہوتی ، وقت بے وقت یہ گھر سے باہر ہوتے ہیں ۔ عیدین پر ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے ۔ شادیوں پر انہیں چھٹی نہیں ملتی ۔ ہر وقت خبر کے پیچھے پریشانی کا شکار ہوتے ہیں نہ اُن کی جاب کی سکیورٹی ہے اور نہ ہی جان کی حفاظت کے لئے کوئی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔ ۔

ادارہ بھی کوئی خبر شائع ہونے پر رپورٹر کی طرف کھڑا نہیں ہوتا   ۔ حالانکہ ادارے کی ریٹنگ اسی صحافی کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ وہ جان  جوکھوں میں ڈال کر خبر تلاش کرتا  ہے ۔  لوگوں کی دشمنیاں پالتا ہے ۔ وہ اس لئے یہ سب کچھ کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہے ۔ مگر پاکستان میں اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنا جرم ہے ۔ یہاں سچ بولنے پر پابندی ہے ۔ یہاں عدالتوں کے خلاف لکھنا اُن کے فیصلوں کے خلاف بات کرنا ،خود کے ساتھ زیادتی ہے ۔ یہاں بڑے بڑے اداروں کی  کرپشن کو بے نقاب کرو تو نامعلوم ہوجاؤگے۔ یہاں سیاسی زعماءکی  کرپشن پر قلم اُٹھاؤ تو سر ِ عام رسوا کیے جاؤگے۔ خود تو چھوڑیں آپ کے دوست رشتہ دار اورخاندان والے زیر عتاب آئیں گے ۔ تو ایسے میں یہ ملک چھوڑجانا ہی عقلمندی ہے ۔ وہ کسی بھی طریقے سے کیوں نہ ہو۔ اور صحافیوں کے لئے آسان ترین راستہ جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام ہے ۔ جس میں وہ پل صراط کا سفر طے کرکے امریکہ یا کسی اور ملک پہنچ جاتے ہیں ۔ جس طریقے سے انہیں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہ وہ جانتے ہیں جنہوں نے کبھی امریکہ جیسے ملک کے لئے اپلائی کیا ہو۔

گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کا ایک پروگرام صحافیوں کی تربیت کے لئے مرتب کیا گیا ہے ۔ جس میں ملک بھر سے صحافی اپلائی کرتے ہیں اور امریکہ کا ویزہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جس میں انہیں وہاں مختلف میڈیا ہاؤسز میں تربیت دی جاتی ہے ان کو وہاں صحافت کے رموز و اوقاف سکھائے جاتے ہیں ۔اور کچھ شہروں کے وزٹ کروائے جاتے ہیں ۔ اُنہیں پینٹاگون گھمایا جاتا ہے ۔ جہاں دنیا بھر کے ممالک کے مستقبل کے فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ وہاں کے ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہوپاتے اور واپسی کی راہ لے لیتے ہیں اور کچھ وہاں اپنا مستقبل دیکھ کر اپنے بچوں اور خاندان کو مدنظر رکھ کر کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں ۔ اور واپسی کے سارے راستے مسدود کرکے وہیں پر بسیرا کر لیتے ہیں ۔

ہمارے بہت سے ساتھیوں نے امسال مختلف ممالک کے ویزے حاصل کیے اور اپنے بہتر مستقبل کی خاطر ملک کو چھوڑا ہے ، تو اس میں مضائقہ کہاں ہے ۔ آج اگر کسی بھی پاکستانی کوامریکہ جانے کے لئے کہا جائے تو وہ آنکھیں بند کرکے وہاں چلا جائے گا اور مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ ہمارے سیاست دان ، ججز، آرمی سے ریٹائرڈ بڑے عہدوں والے امریکہ میں زندگی نہیں گزار رہے ؟ اور اگر کسی صحافی کو یہ موقع ملا تو لوگ چیں  بہ جبین ہیں ۔جو ایسا کر رہے ہیں وہ بہت اچھا کر رہے ہیں کاش ایسا میں بھی کرتا اور اگر موقع ملا تو شاید میں بھی اُن کے نقش قدم پر چلوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply