خوشیاں بانٹیں۔۔۔ولائیت حسین اعوان

کرسمس کی آمد آمد ہے۔
یہاں یورپ میں 25 دسمبر کرسمس کے دن سے ذیادہ کرسمس کی آمد سے پہلے اس کی جوش و خروش سے تیاریاں انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
بازاروں میں برقی قمقمے۔خریداری کرتا ہجوم اور مہینہ پہلے ہر گھر ہر دفتر ہر کام والی جگہ پر کرسمس کے دن اور چھٹیوں کی مصروفیت اور منصوبہ بندی پر بحث ہو رہی ہوتی ہے۔لوگ پرجوش ہوتے ہیں۔تحفے تحائف کے تبادلے عروج پر ہوتے ہیں۔
ایسے میں بے شمار کمپنیاں اپنے ورکرز کو بھی تحائف دینا نہیں بھولتیں۔
میں ان دنوں بارسلونا میں ایک سپینش کمپنی کے ہوٹل میں استقبالیہ کاؤنٹر (Reception) پر بحیثیت Receptionist ویک اینڈ پر دو دن کے لیے جاب کر رہا ہوں۔
ایک مہینہ پہلے میری ڈائریکٹر Silvia نے وٹس ایپ پر مجھ سے پوچھا کہ کرسمس کی آمد پر ہم اپنے تمام ورکرز کو کرسمس گفٹ  دے رہے ہیں ( یہ ایک مکمل ڈبہ پیک ہوتا ہے جو مختلف چیزوں مثلا چاکلیٹ وائین شراب سور کا گوشت زیتوں کا تیل پنیر مربہ جات خشک میوہ جات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے) اب چونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں مسلمان ہوں تو اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو شراب ،سور مذہبی طور پر ممنوع ہے اور اپ کے لیے وہ بے کار ہیں اس لیے آپ کے لیے بغیر شراب اور گوشت کے پیکٹ تیار کرا دوں؟؟میں نے اتنا خیال رکھنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور جواب دیا کہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔آپ نے پوچھ لیا اور میرا گفٹ ہو گیا۔

پرسوں جمعہ کو جب آفس گیا تو ساتھ کام کرنے والے دوست نے بتایا کہ آپ کا گفٹ پیک اوپر پڑا ہے۔گھر جاتے ہوئے  وہ لیتے جائیے گا۔سوچا انھوں نے خلوص سے دیا ہے ۔گھر لے جاؤ ں گا اور اپنے استعمال میں نہ آنے والی چیزیں کسی پڑوسی کو کرسمس کا گفٹ کر دوں گا۔
دوسرے دن پیکٹ کھولا تو اس میں اس طرع کی کوئی چیز شامل نہیں تھی جس کے کھانے پینے کی مجھے اللہ کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔دو بوتل سپینش وائین تھیں اور جب اٹھا کر دیکھیں تو ان پر لکھا تھا “Sin Alcohal”مطلب بغیر الکوحل کے۔
آپ یقین مانیں دیکھ کر ان لوگوں کی انسانیت اور دوسروں کے مذاہب کا احترام کرنے پر دل سے ان کے لیے شکریہ اور دعا نکلی۔بے شمار اور بھی چیزیں تھیں۔مختلف قسم کے  چاکلیٹ،کھجور،پنیر،اخروٹ،ادام،زیتون آئل،جیلی،سبز چائے،مچھلی،مربہ جات وغیرہ۔۔

میں سوچ رہا تھا کہ ان قوموں کی ترقی کے رازوں میں سے ایک شاید یہ بھی ہو کہ یہ ہر شخص کے مذہب عقیدے سوچ خیالات کا احترام کرتے ہیں۔کسی پر اپنی سوچ خیال منطق مسلط نہیں کرتے۔انسان کو گورا کالا، اعلی نسل کم نسل، ملکی غیر ملکی، آباد کار مہاجر امیر غریب اپنا پرایا کی تفریق سے ہٹ کر فقط انسانیت کے رشتہ سے دیکھتے ہیں۔
کاش ہمارے ملک میں بھی معیار تعلیم شعور اور ظرف اتنا بلند ہو جائے کہ یہاں رہنے والے سب لوگوں کو پہلے انسان کے رشتہ سے ہاتھ ملایا جائے اور گلے لگایا جائے اور مذہبی لسانی گروہی معاشرتی تعصب کا خاتمہ ہو جائے۔۔

درخواست ہے کہ ہر شخص رحمت العالمین پیارے نبی کریم محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کا سچا امتی ہونے کے ناطے اور اسلام کے انسانیت کی عظمت پر مبنی سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جہاں جہاں بھی رہتا ہے کرسمس کے اس تہوار پر کرسچیئن کمیونٹی کی خوشیوں کا احترام کرے۔ان سے ملاقات کریں ۔ ہو سکے تو اپنے ساتھ کام کرنے والوں اپنے ورکرز یا پڑوس میں رہنے والوں کو کچھ نہ کچھ چھوٹا سا تحفہ ضرور دیں۔کچھ بھی نہ کریں تو کرسمس کے روز ایک مسکراہٹ سے انہیں مبارکباد دے کر ان کی خوشیوں کو سراہیں ضرور ۔
یاد رکھیں اللہ پاک رب العالمین ہے اور ہمارے پیغمبر رحمت العالمین۔۔خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے کا سبب بنیں۔۔ نہ کہ کانٹے بچھانے اور درد دینے کا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply