آزادکشمیر کے آخری انتخابات؟۔۔نیر نیاز خان

پانچ اگست 2019 کے بھارتی پارلیمان کے فیصلے کے پیچھے پورا ہوم ورک موجود تھا۔ جس کے لیے بھارتی سرکار نے علاقائی اور عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد اتنا بڑا قدم اٹھایا۔ وگرنہ بھارت جو کام 72 سالوں میں نہ کر سکا وہ اچانک دن کی روشنی میں کیسے کر گیا؟ محض انتظامی تبدیلی بھارت کے لیے شاید کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ لیکن عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے اتنی بڑی آبادی اور علاقے کو کرفیو نافذ کر کے جیل میں بدل دینا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔ جس میں انسانی حقوق کی پامالی کا عنصر بھارت کے لیے عالمی سطح پر ندامت اور ہزیمت کا سبب بن سکتا تھا۔ جس کے لیے بھارتی سرکار نے سب سے پہلے او آئی سی میں مبصر کی حیثیت میں اپنی جگہ بنائی۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ذریعے اس بات کی گارنٹی لی کہ اس طرح کے کسی اقدام کی مخالفت کے لیے او آئی سی کا پلیٹ فارم استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مغربی ممالک میں طاقت کے مراکز کو بھی استعمال کیا گیا تاکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے پاکستان کو ممکنہ ردعمل سے روکا جا سکے۔

پاکستانی عوام کی کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ جذباتی وابستگی ایک فطری عمل ہے اس میں مذہبی اور ثقافتی رشتوں کے ساتھ ساتھ نصابی اور غیر نصابی کتب میں “شہہ رگ ” کی دیو مالائی کہانیوں اور قصوں کا بھی عمل دخل ہے۔ لیکن تاریخ کے اس نازک ترین دور میں جب ریاست جموں کشمیر کے عوام مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس لیے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے دانستہ طور پر ایک بیانیے کو تقویت دی کہ اس طرح کے ردعمل سے بھارت کو بالواسطہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اور بات کو محض اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بے معنی تقریر تک محدود کر دیا گیا۔

پاکستانی میڈیا جو 1980 کی دہائی کے بعد اپنے ہر ایک نیوز بلیٹن کی ابتدا اور ہر اخبار کی سرخی کو کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کے لیے وقف کرتا رہا ہے وہ 5 اگست کے بعد اسے ثانوی حیثیت بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔
اس سارے عمل میں طے شدہ منصوبے کے تحت آزادکشمیر کی حیثیت راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ آزادکشمیر کی حیثیت کو شاید نہ مان رہے ہوں۔ لیکن ساڑھے چار ہزار مربع میل کا یہ چھوٹا سا خطہ اپنے اجزائے ترکیبی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو تخلیق کس طرح کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے کون سے سازشی نظریے شامل تھے؟ یہ بحث اب بے معنی ہو گئی ہے۔ بالفرض ان تصورات کو حقیقت مان بھی لیا جائے کہ حکومت پاکستان نے پہلے جمہوریہ آزادکشمیر پھر آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک کالونی بنائی تھی۔ لیکن اس کالونی کے اجزائے ترکیبی میں ایسی علامات شامل ہیں کہ جو آج بھی امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہیں اور سیاسیات و قانون کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ جمہوری و سیاسی کارکنوں کے لیے آزادکشمیر کے مختلف انتظامی ادارے پاکستان کی نوآبادی ہونے کے باوجود ہمارے آزاد مستقبل کی علامت بن سکتے ہیں۔
بالفرض آزادکشمیر کو معض ایک سیاسی و انتظامی ساخت مان بھی لیا جائے جس کے پاس اختیارات نامی کوئی چیز نہیں۔ پھر بھی الگ جھنڈا، وزیراعظم، صدر اور سب سے اہم علامت الگ سپریم کورٹ آزادکشمیر کے شہریوں سے تاریخ کے اس سیاسی موڑ پر دانشمندی کا تقاضا کرتی ہے۔

حکومت پاکستان عملی طور پر اسے پاکستان کا صوبہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس میں پاکستان کی سیاسی مجبوری نہیں بلکہ انتظامی مجبوری ہے۔ انتظامی مجبوری اس لیے کہ آزادکشمیر کا سائز ممکن ہے  پاکستان کے کئی اضلاع سے بھی کم ہو اور ایسا کرنے سے پاکستان میں انتظامی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ لہذا غیر محسوسانہ انداز میں ادغام کی طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ اور اس کو عملی شکل دینے کے لیے آزادکشمیر اسمبلی کو استعمال کیا جائے گا۔ تاکہ اگر کوئی ردعمل ہو بھی تو جواز یہ پیش کیا جائے کہ آزادکشمیر کے منتخب نمائندوں کی خواہش پر ایسا کیا گیا۔

اگریہ مفروضہ درست ہے تو آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی جس کے انتخابات 2021 میں ہونے ہیں انہیں قبل از وقت 2020 کے پہلے چھ مہینوں میں کروایا جا سکتا ہے۔ فاروق حیدر کا یہ بیان کہ انہیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ شاید آزادکشمیر کے آخری وزیراعظم ہوں اس سارے عمل کو سمجھنے کے لئے سیاسی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر ایسا ہونے جا رہا ہے تو ایک نئے انتخاب کے ذریعےیا ان ہاؤ س تبدیلی کے ذریعے فاروق حیدر کا متبادل وزیراعظم تلاش کیا جائے گا جو بخشی غلام محمد کا کردار ادا کر سکے۔ اور دونوں صورتوں میں یہ کام مئی/ جون 2020 سے پہلے کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور کچھ اہم ترین مراکز آئندہ سال کے وسط تک ہی اسے انجام دینے کی سیاسی پوزیشن میں ہیں۔ چونکہ پاکستان میں سیاسی اور انتظامی معاملات آئندہ سال کے وسط تک ہی ایسا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وہ ایک صفحے والی بات کا معاملہ ہے ۔

یہ ذمہ داری آزادکشمیر کے عوام سے زیادہ آزادکشمیر کے ان شہریوں پر عائد ہوتی ہے جن کی ایک خاصی تعداد دنیا کے آزاد جمہوری معاشروں میں آباد ہے۔ کہ وہ اس مرحلے پر ذاتی، گروہی، سیاسی، نظری اور فکری تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے سیاسی مستقبل کے لیے آزادکشمیر کو اس کے اجزائے ترکیبی سمیت بچانے کی طرف توجہ دیں۔ آزادکشمیر کی حیثیت چہ جائے ہم میں سے بہت سارے لوگوں کے نزدیک کچھ بھی نہ ہو۔ لیکن ساری ریاست جموں کشمیر کو دوبارہ یکجا کرنے اور اپنے حقوق قربان کر کے ریاست کی باقی اکائیوں کے لیے سب سے موٹر آوازیں ہمیشہ آزادکشمیرکے لوگوں نے اٹھائی ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ اکائی اپنا وجود کھو دیتی ہے تو شاید ریاست کو ایک بار پھر یکجا کرنے کی آواز ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply