ایک ارب سال پہلے اور زمین کا دِل۔۔وہارا مباکر

ایک ارب سال پہلے کی زمین پر کوئی انسان نہیں تھا، کوئی بھی پیچیدہ جانور نہیں تھا اور رہ بھی نہ پاتا۔ ڈیڑھ ارب سال لمبا پروٹیروزوئیک دور اپنے اختتام پر تھا۔ کولمبیا سپر برِاعظم ٹوٹ رہا تھا اور نیا سپر برِ اعظم روڈینیا بن رہا تھا۔ اس دور کی چٹانیں جیولوجسٹ دنیا بھر میں دیکھتے ہیں۔
زمین پر بسنے والے آرکیا، بیکٹیریا اور یوکارئیوٹ تھے۔ زندگی مشکل تھی لیکن یہ ہر سمندر میں پھیل چکے تھے، ارتقا پذیر تھے، تنوع بڑھ رہا تھا اور یہ کئی ماحولوں کے مطابق ڈھل رہے تھے۔ زندگی کی ہر ڈومین کی شاخیں بن رہی تھیں۔ ان میں سے کئی اب باقی نہیں رہیں۔ پودوں، جانوروں اور فنگس کے درمیان تقسیم ہو رہی تھی۔ یک خلوی مخلوقات جو اکیلے رہتی آئیں تھیں، اب کالونیاں بنا رہی تھیں، اس کے ساتھ کام کی تقسیم آئی۔ کالونی کے باہری خلیوں نے اپنا کردار اندرونی خلیوں سے الگ کر لیا۔ یہ آنے والی پیچیدہ زندگی کا نقشہ تھا۔ یہ کہہ لیں کہ ہمارے آغاز کے کچھ ابتدائی قدم رکھے جا رہے تھے۔ خلیوں نے آپس میں مل کر جینز کو مکس کرنا سیکھ لیا تھا۔ یہ جنسی عمل کی ایجاد ہو رہی تھی۔ سمندر میں سفنج اور الجی کے قالین جو سرخ اور نیلے تھے، سمندر کی سطح کو ڈھک رہے تھے اور لمبے عرصے سے مردہ پڑے ساحلوں تک پہنچ رہے تھے۔
زندگی کی معدودے چند شکلوں نے خشکی پر رہنے کے طریقہ ڈھونڈا تھا۔ اوزون کی تہہ ابھی نہیں تھی۔ سورج کی مضر الٹراوائلٹ شعاعوں کے خلاف بچاوٗ کی یہ تہہ ابھی نہیں تھی۔ روڈینیا کی مردہ سطح پر چلا پھرا جا سکتا تھا۔ چٹانوں اور پتھروں کے رنگ دیکھے جا سکتے تھے۔ زندگی کہیں نظر نہ آتی، صرف کچھ پتھروں پر فنگس کے خلیے کالونی بنائے ہوئے۔ ان کالونیوں کے سائز ماچس کی تیلی کے سر سے بڑے نہ تھے۔
پروٹروزوئیک دور کے اختتام پر زمین اپنے فضا کی تیسری قسط پر تھی۔ (ابتدائی اقساط کے لئے نیچے دیا گیا پہلا لنک)۔ زندگی نے اس میں آکسیجن کا اضافہ کر دیا تھا اور ابھی مقدار آج کے مقابلے میں خاصٰ کم تھی لیکن یہ بہت سی قدیم زندگی کو ختم کرنے کے قابل تھی۔ لیکن آکسیجن کی آمد نئے مواقع پیدا کر رہی تھی۔ (اس پر تفصیل نیچے دئے گئے دوسرے لنک سے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین اور مریخ آج سے ایک ارب سال پہلے خاصے ملتے جلتے تھے۔ مریخ پر بھی کثیف فضائی غلاف، دریا، جھیلیں، سمندر تھے۔ زندگی کا ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ لیکن دونوں سیاروں نے بڑا مختلف راستہ لیا۔ مریخ ایک مردہ اور جما ہوا ستارہ ہے نہ کہ ہماری زمین کی طرح زندگی سے بھرپور۔ ان الگ راستوں کی وجہ کا سراغ ان کے عین دل سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک ارب سال پہلے چاند بھی آج سے مختلف نظر آتا۔ اس کے کچھ نمایاں گڑھے موجود نہیں تھے۔ یہ زمین سے قریب تر تھا۔ اس سے لہریں اونچی اٹھا کرتی تھیں۔ بیس روز میں یہ زمین کے گرد چکر مکمل کر لیا کرتا۔ (قمری مہینہ مختصر ہوا کرتا تھا)۔ زمین پر ایک دن اٹھارہ گھنٹے کا تھا۔
جب روڈینیا بنا تھا تو زمین پر زندگی کو دو ارب سال سے زائد ہو چکے تھے۔ زمین کے مرکز میں ایک چھوٹا سا، مگر اہم واقعہ رونما ہوا۔ آہستہ سے یعنی دسیوں ہزار سال میں اس کے عین مرکز میں تبدیلی آئی۔ مینٹل کے نیچے کور پگھلی حالت میں تھا، لیکن اس کے مرکز میں ایٹم ایک دوسرے سے مل کر جڑنا شروع ہو گئے۔ ایک ایک ایٹم ملتے ملتے پہلی بار یہاں پر کرسٹل بن گیا۔ یہ اندرونی کور کے سٹرکچر کا جنم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے ایک ارب سال کے بعد 1933 سائنس کی تاریخ کا اہم سال تھا۔ اس سال ایک امریکی ریڈیو انجینیر نے پہلی بار دھاتی ڈش کو آسمان کی طرف اشارہ کر کے ایک خفیف سا سگنل سنا تھا۔ ریڈیو آسٹرونومی کی پیدائش ہوئی تھی جس کی مدد سے ہم خلا میں پہلے سے کہیں زیادہ دور تک دیکھنے کے قابل ہوئے۔ کوانٹم تھیوری پر شروڈنگر اور ڈیراک کو نوبل پرائز ملا تھا۔ ہٹلر کے چانسلر بن جانے کے بعد آئن سٹائن امریکہ آ گئے تھے۔ لندن میں ایک ٹریفک سگنل پر کھڑے سیکلارڈ کو چین ری ایکشن کا آئیڈیا آیا تھا جس سے ایٹم بم بنا۔
زمین کے مرکز میں جو ہوا، وہ لوہے کی کوانٹم فزکس کی خاصیت کی وجہ سے ہوا، اس کو پڑھنے میں نیوکلئیر تجربات کی وجہ سے اہم پیشرفت ہوئی (اس کے تجربات مصنوعی زلزوں کا کام کرتے تھے)۔ فلکیات کے ڈیٹا نے اس طرف اشارے دئے لیکن 1933 میں ایک اور سائنسدان نے ہمیں زمین کے اندرونی کور کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہ ڈنمارک کے گاوٗں میں زلزلوں کے جنون میں مبتلا ماہرِ ارضیات انگ لی مین تھیں۔
کئی سالوں سے ڈیٹا اکٹھا کر کے اور اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کو ایک پیٹرن نظر آنا شروع ہوا تھا۔ زلزلوں کی لہریں ویسے نہیں تھیں جیسے ہونے چاہیے تھیں۔ زمین کے نیچے کہیں پر تسلسل ٹوٹ رہا تھا۔ پانچ سال کے تجزیے اور شواہد مکمل ہونے کے بعد انہوں نے اپنا پیپر 1933 میں شائع کیا۔ انہوں نے زمین کے نیچے ایک نیا علاقہ دریافت کر لیا تھا۔ یہ زمین کی اندرونی کور تھی۔ کیا یہ ٹھوس تھی؟ اس کے لئے تین دہائیاں انتظار کرنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ میں ریکارڈ ہونے والا دوسرا سب سے بڑا زلزلہ 27 مارچ 1964 کو آیا۔ اس کی شدت 9.2 تھی۔ اس نے نہ صرف الاسکا کے ساحل کی شکل بدل دی بلکہ سائنس کی بھی۔ دنیا بھر میں زلزلے کی پیمائش کے لئے سیسمک میٹر لگے ہوئے تھے۔ اس پر لہریں بتا رہی تھیں کہ ہر 247 سیکنڈ کے بعد زلزلے کی لہریں زمین کو بجا رہی تھیں۔ (کمپیوٹر کی آمد سے پہلے یہ سب اکٹھا کرنا بڑا وقت طلب تھا)۔ کسی بھی ماڈل میں جواب 247 سیکنڈ نہیں آتا تھا۔ ماسوائے اس وقت جب زمین کے مرکز میں ٹھوس کور ہو۔ انگ لی مین کا خیال درست تھا۔ اندرونی کور کی پیشگوئی کی تصدیق ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لی مین کا انتقال 103 سال کی عمر میں 1993 میں ہوا۔ ان کا آخری سائنسی پیپر جب شائع ہوا، اس وقت ان کی عمر 99 برس تھی۔ اندرونی کور کے اسرار کے پردے ایک ایک کر کے کھل رہے ہیں۔ یہ محض کوئی ایک لوہے کی گیند نہیں۔ خاصا پیچیدہ سٹرکچر رکھتی ہے۔ اس بارے میں ہم حالیہ برسوں میں ہونے کوانٹم مکینکس کے ماڈلز کی مدد سے اس وقت جو جانتے ہیں، وہ یہ کہ اندرونی کور لوہے کے کرسٹلز کے جنگل کی طرح ہے۔
مریخ نے اپنا مقناطیسی فیلڈ کیوں کھو دیا جبکہ زمین کا ڈائنامو چل رہا ہے، فضائی کرہ موجودہ شکل میں ہے، اس کا تعلق اس کے بننے کے واقعے سے ہے۔ زمین کی اندرونی کور کی گردش کی رفتار بیرونی کور کی گردش کی رفتار سے مختلف ہے۔ اس کی وجہ سے ایک ڈائنامو ایفیکٹ پیدا ہوتا ہے۔ یہ زمین کی طاقتور مقناطیسی فیلڈ کی وجہ ہے۔ وہ فیلڈ جس کی وجہ سے شمسی ہوائیں فضائی کرہ اور سمندر زمین سے نہ چھین سکیں۔ سائنسدان ڈیوڈ وہائٹ ہاوٗس کے مطابق، “ہم صرف سطح، روشنی، کاربن اور توانائی کے بچے ہی نہیں، زمین کی کور کے بھی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی تصویر زمین کی اندرونی کور دریافت کرنے والی سائنسدان انگ لی مین کی
دوسری تصویر اندرونی کور میں کرسٹل کے جنگ کی۔ ایک کرسٹل کا سائز دس کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔
زمین کی فضا کی ابتدائی اقساط
آکسیجن کی آمد
زمین کی اندرونی کور بننے پر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply