پاکستانی فلمی ستاروں کا کنسلٹنٹ۔۔یاسر پیرزادہ

ط ظ سے میری شناسائی زیادہ پرانی نہیں، غالباً میری پہلی ملاقات کسی کھانے پر ہوئی تھی جہاں وہ بن بلائے موجود تھا، موصوف مہمانوں کے لیے مختص کی گئی نشستوں پر براجمان تھے جو کھانے کی میز سے ذرا فاصلے پر تھیں مگر اِس کے باوجود جونہی کھانے کا اعلان ہوا تو سب سے پہلے پلیٹ میں مٹن کی بوٹیوں کا مینار بنانے کا اعزاز آپ کے حصے میں آیا۔

وہیں اِن سے سلام دعا ہوئی اور پتا چلا کہ آنجناب روزنامہ کالک کے چیف رپورٹر ہیں اور پارٹ ٹائم پلمبر کا کام بھی کرتے ہیں، یہ عقدہ بھی کھلا کہ موصوف کنسلٹنٹ بھی ہیں اور کیریئر کاؤنسلنگ سے لے کر مڈ وائفری تک ہر قسم کے مشورے فراہم کرتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ جناب کی مشورہ فیس کیا ہے تو انہوں نے نہایت تمکنت سے جواب دیا کہ ویسے تو میں بہت مہنگا ہوں لیکن آپ جیسے کرم فرماؤں کے لیے میرا ایک خصوصی گولڈ پیکیج ہے جس کے تحت ایک کلو چکن کڑاہی، چار روغنی نان اور ڈیڑھ لیٹر کی بوتل کے عوض میں دو گھنٹے کی کیریئر کاؤنسلنگ کرتا ہوں اور اگر آپ نے اپنی پوری زندگی بہتر بنانے کا تفصیلی مشورہ لینا ہو تو اُس کے لیے پلاٹینم پیکیج ہے جس میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے کے عوض آپ کو اپنی زندگی گزارنے کا مکمل خاکہ بنا کر دیا جائے گا۔

میں نے وہیں کھڑے کھڑے اُن سے پلاٹینم پیکیج خرید لیا، کھانے کے دوران ط ظ نے مجھے کہا کہ میں ہر بندے کو اُس کی شخصیت، مزاج اور شعبے کے مطابق مشورے دیتا ہوں جس سے آئندہ زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مجھے یوں لگا جیسے کھانے کے دوران ط ظ کی شخصیت بالکل تبدیل ہو گئی ہو، اب وہ کوئی مجہول شخص نہیں لگ رہا تھا بلکہ یکایک اُس کی شکل سے معقولیت جھلکنے لگے تھی، شاید اچھا کھانا اسی طرح راس آتا ہو۔

ط ظ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اُس کے کلائنٹس میں ہمایوں سعید، ماہرہ خان، مہوش حیات، ماورا حسین (یا حوقین‘ جو بھی نام ہے )، شاہد آفریدی جیسی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں اور ثبوت کے طور پر اُس نے اِن لوگوں کے ساتھ اپنی سیلفیاں بھی دکھائیں۔

ط ظ نے میرے چہرے کی طرف دیکھ کر بولنا شروع کیا ’’اصل میں آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ اصول پسند ہیں، تو آ پ کے لیے پہلا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ نے اِس ملک میں خوش و خرم زندگی گزارنی ہے تو اصول پسندی کی عیاشی چھوڑنا ہوگی.

دوسرا مشورہ، ہمیشہ وہ بات کریں جو عوام کو پسند اور لوگوں میں مقبول ہو، چٹ پٹا بیانیہ بیچیں جس کے خریدار ہر طبقے میں موجود ہوں یا کم ازکم اکثریت جس کی گاہک ہو، اِس ضمن میں عقل یا منطق کی پروا نہ کریں، صرف لوگوں کے جذبات دیکھیں۔

مثلاً اگر لوگ جمہوریت کے خلاف تبصرا سننا چاہتے ہیں تو روزانہ جمہوریت کے خلاف شام غریباں برپا کریں، کوئی ضرورت نہیں کسی کو جمہوریت کی تاریخ سمجھانے یا آئین کے فائدے بتانے کی، بس گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنگامہ مچائے رکھیں۔‘‘

ط ظ نے ابھی اتنی ہی بات کی تھی میں نے بیچ میں ٹوک دیا ’’اِن سب باتوں کا مجھے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ اِس پر ط ظ نے ایک قہقہہ لگایا ’’فائدہ ہی فائدہ ہے، جب آپ اصول پسندی چھوڑ کر صرف وہ باتیں کریں گے جنہیں انگریزی میں populistکہتے ہیں تو لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔

اِس کا نشہ ہی اور ہے، ایک مرتبہ آپ کو اِس مقبولیت کا چسکا لگ گیا تو پھر آپ کو کچھ اور اچھا نہیں لگے گا۔ اب تیسرا مشورہ بھی سُن لیں، ہمیشہ اُن موضوعات پر بڑھ چڑھ کر بولیں جن کی مخالفت میں بولنا ممکن ہی نہیں۔

مثلاً ہر دوسرے دن انڈیا کے خلاف ایک ٹویٹ کریں، اِس کے لیے تو ہمارے پاس بے شمار حقیقی وجوہات موجود ہیں، کلبھوشن کی جاسوسی، ابھینندن کی ذلت، کنٹرول لائن کی خلاف ورزی، کشمیر میں ظلم، مسلمانوں کے خلاف تشدد، کیا کچھ نہیں کہا جا سکتا، بس دل کھول کر بھارت کی کلاس لیں، داد سمیٹیں۔

جب اِس موضوع سے بور ہو جائیں تو I stand with girl educationکا ٹرینڈ چلا دیں، کون ہے جو اِس با ت سے اختلاف کرے گا! جب کبھی کسی آٹھ دس سال کی بچی کا ریپ ہو تو ماہرہ خان کی طرح سینہ تان کر میدان میں آئیں، پریس کانفرنس کریں، اِس وحشیانہ پن کے خلاف بیانات دیں، مظاہرے کریں، لوگ آپ کو ایک عزم و ہمت والا بندہ سمجھیں گے!‘‘ ط ظ بول رہاتھا اور میں حیرت سے اُس کی باتیں سُن رہا تھا۔

اب یہ ایک بالکل بدلا ہوا شخص لگ رہا تھا، اپنے تئیں میں نے فلم ’’بھیجا فرائی‘‘ کی طرح کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ ط ظ تو بالکل اس کے الٹ نکلا۔

میں نے دوبارہ اُس کی طرف توجہ کی، اب وہ کوئی اور مثال دے رہا تھا ’’اِن تمام باتوں سے آپ کو فوری طور پر تین فائدے ہوں گے، ایک، آپ ہمیشہ غیر متنازع رہیں گے، دوسرا، آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور تیسرا، ہر محفل میں آپ فخر سے کہہ سکیں کہ آپ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں‘‘۔

’’اب آخر میں سب سے اہم بات۔ حق سچ کی بات اور مظلوموں کا ساتھ ہمیشہ اُن کا مذہب اور ملک دیکھ کر کریں، دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اُن کے حق میں بے فکر ہو کر آواز بلند کریں مگر اپنے ملک میں پہلے مظلوم کا مذہب دیکھیں۔

اگر وہ ہم مذہب نہیں تو چپ کرکے پتلی گلی سے نکل جائیں، یاد رکھیں کہ اِن مشوروں کا اطلاق (سابقہ) فاٹا، بلوچستان اور ملک کے کچھ حصوں پر نہیں ہوتا‘‘۔

ط ظ یہ کہہ کر سانس لینے کے لیے رکا، پھر بولا ’’اور اب مشورے کی دُم، ہمیشہ وہ بات کریں جو طاقتور کو پسند ہو پھر اِس ملک میں آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہاں اگر اصول پسندی کا مروڑ اٹھے اور آپ کو لگے کہ آئین شکنی دراصل سنگین غداری ہوتی ہے جس کی سزا موت ہے اور یہ بات برملا کہنی چاہیے تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ تین ماہ تک پاکستانی فلمی ستاروں کا ٹویٹر پر پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کس خوبصورتی سے مقبول عام بیانیہ بیچ رہے ہیں۔

آپ کو افاقہ ہو جائے گا‘‘۔ ط ظ نے اپنی بات ختم کی، بچا ہوا کھانا پیک کروایا اور ہاتھ ملا کر رُخصت ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply