احتجاج بمقابلہ کامیابی۔۔رزاق لغاری

دنیا کے کامیاب انسانوں کی تاریخ پڑھ کر دیکھیں کسی بھی کامیاب انسان نے کبھی بھی احتجاج نہیں کیا ہوگا اور ناکام لوگوں کی داستانیں پڑھ کر دیکھیں انہوں نے کبھی بھی احتجاج کو نہیں چھوڑا ہوگا۔
احتجاج کرنے والا بظاہر تو سمجھتا ہے کہ وہ طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن اصل میں وہ کمزور تھا اور مزید کمزوری کی طرف چلا جا رہا ہے ،احتجاج وہ نفسیات ہے جو شکوے کو جنم دیتی ہے جو مسئلوں کا حل نہیں بلکہ ایک مسئلے سے دوسرے مسئلوں کا جنم ہے۔ یہ معاملہ چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی، جہاں بھی احتجاج کی روایت ہوگی وہاں افراد یا قومیں پستہ حال ہونگی، جس کی سب سے بڑی مثال ہمارا معاشرہ ہے جہاں کسی مسئلے کے لیے احتجاج کرکے دوسرے سینکڑوں مسئلوں کو جنم دیا جاتا ہے جیسے کہ احتجاج کو نہ سننے پر بھی احتجاج   کیا جاتا رہا ہے ۔یہاں آئے دن ایک مسئلہ ہوتا ہے اور اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے احتجاج کا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے ،کبھی روڈ بلاک کر کے کبھی ہسپتالوں میں مریضوں کو بسترِ  مرگ سے بے دخل کر کے کبھی انصاف کے نام پر احتجاج کبھی بے انصافی پر احتجاج ، یعنی کہ  ہم  نے احتجاج کو ہی اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔

دوسری طرف احتجاج کے برعکس ہے متبادل اور ممکنات۔۔ اگر احتجاج کی روایت کو چھوڑ کر ممکنات کی روایت کو لاگو کر دیا جائے اور ممکن کی نفسیات کو ترجیح دے دی جائے تو ہمیں ہزاروں امکانات نظر آئیں گے جو احتجاج کیے بغیر احتجاج کا خاتمہ اور مسئلوں کا حل ہوں گے۔

دنیا کے سب سے بڑے کامیاب انساں وہ پیغمبر تھے جو اس روئے زمین پر آئے اور کامیاب زندگی گزاری اور ایک کامیاب زندگی کا راستہ دکھایا بھی اور سکھایا بھی، لیکن کسی پیغمبر کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی احتجاج نظر نہیں آئے گا۔
ہم لوگ کتاب کے وارث اسلام کے وارث کس سمت کی طرف چل نکلے ہیں۔۔

بدقسمتی سے یہاں ایک سبزی کی ریڑھی لگانے والے سے لے کر ملک کا وزیراعظم ایک امکانی فتح کو نظر انداز کرکے احتجاج کرتا ہوا نظر آئے گا۔کسی نے درست کہا ہے کہ ایک پُر امید شخص نااُمیدی کی کیفیت میں بھی ایک اُمید کو بھانپ لیتا ہے لیکن ایک نا اُمید شخص پُر امیدی میں بھی نا اُمید ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

رزاق لغاری
ایک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”احتجاج بمقابلہ کامیابی۔۔رزاق لغاری

Leave a Reply to رزاق لغاری Cancel reply