دلاور ماما۔۔۔مدثر اقبال عمیر

١٩٩٨کی اس شام کے دھندلے نقوش اب بھی مجھے یاد ہیں۔

سردی آخری سانسیں لے رہی تھی۔گوالمنڈی چوک کوئٹہ میں میکانگی روڈ اور کانسی روڈکے سنگم پر دکانوں کے عین اوپر مسجد عمر فاروق کے ہال میں نماز مغرب ہوچکی تھی اور اب تبلیغی جماعت کا بیان چل رہا تھا۔میں اسی تبلیغی جماعت کے ساتھ تھا اور ہماری پوری جماعت ان افراد مشتمل تھی جو تازہ تازہ چار ماہ لگا کر لوٹے تھے اور گھر واپسی سے قبل تین مساجد میں کام کر رہے تھے اوریہ ہماری آخری مسجد تھی ۔امیر صاحب نے بیان  کی ذمہ داری مجھے دے رکھی  تھی  ۔ایک اٹھارہ سالہ نوزائیدہ تبلیغی کیا بیان کرتا ،بہر حال  ،عنوان کے مطابق  جیسا تیسا بیان کر ہی دیا ۔

سامعین میں دو پہلوان ٹائپ باریش نوجوان بیٹھے ہوئے تھے ۔ایک بیس ،اکیس سالہ گورا چٹا جوان اور دوسرا بتیس،تینتیس سالہ سانولا پہلوان ۔بیان کے بعد دونوں نوجوان بڑے تپاک سے ملے ۔دونوں میں ماموں بھانجے کارشتہ تھا۔پہلوان نے اپنی پاٹ  دار آواز میں میری حوصلہ افزائی کی۔ذرا سی دیر میں وہ پوری جماعت کے ساتھ یوں گھل مل گئے جیسے برسوں کا یارانہ ہو ۔انھوں نےجب جانے کی اجازت لی تو دل بے ساختہ بولا کہ کاش کچھ دیر اور ۔۔بس کچھ باتیں اور۔

یہ دلاور ماما سے میری پہلی ملاقات تھی ۔

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سے وابستہ دلاور ماما کا پورا نام اپنوں کے سوا شاید ہی کسی کو معلوم ہو لیکن وہ  مشہور دلاور ماما کے نام  سے تھے ۔شوخی جھلکاتی بڑی بڑی آنکھیں،چہرے پہ چیچک کے نشان ،مضبوط ڈیل ڈول،سر پہ سفید ٹوپی،کندھے پہ رومال اور پاؤں میں جوگرز اور اس پر ان کا مخصوص مسکراتا چہرہ جو ہر سو مسکراہٹیں بکھیرتا تھا۔محفل لوٹنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔اجنبیت سے اپنائیت کا سفر اس تیزی سے کرتے کہ آپ دیکھتے رہ جاتے۔واقعات میں مزاح کا عنصر اس خوبصورتی سے انڈیلتے کہ دیر تک اس کی مٹھاس ذہن کو شگفتہ رکھتی۔

کوئٹہ میں کھلاڑیوں کی تبلیغی جماعت آ ئی ،چونکہ یہ ماما بھتیجا بھی  سپورٹس مین تھے سو ان کی تشکیل بطور راہبر،ان کے ساتھ کردی گئی ۔مشورے میں طے پایا کہ سٹی تھانے میں گشت کرتے ہیں ۔اب جونہی پولیس والوں کے کیبن میں گئے ،وہاں تاش کی بازی چل رہی تھی۔پولیس والوں نے جب ان کو دیکھا تو اس میں سے کچھ تو موقع سے “فرار “ہونے  میں کامیاب ہوگئے اور جو دھرے گئے ان کی جان ارادہ  کر کے ہی چھوٹی ۔ماما دلاور اس واقعے کو بڑے دلچسپ انداز سے بیان کرتے ،کہنے لگے کہ جب ہم جانے لگے تو ایک پولیس والے نے کہا کہ لوگ ہم پولیس والوں سے ڈرتے ہیں اور ہم پولیس والے آپ تبلیغ والوں سے۔

دلاور ماما کی شخصیت تھی ہی ایسی کہ ان سے دل کی بات کہنے کو دل کرتا ،ان کی غلافی آنکھوں میں ہمیشہ زندگی رقص کرتی تھی ۔ان آنکھوں میں دن میں شوخیاں رقصاں ہوتیں، تو رات کو آنسوؤں کے ڈیرے ہوتے ۔ان کے ساتھ کئی بار تبلیغی سفر کیے ۔رات کی تنہائی میں یہ قد آور پہلوان رب کے سامنے اک معصوم بچہ بن جاتا, مچل مچل کے فریاد کرتا ،اُمت کی ہدایت کی دعا کرتا۔آنسوؤں کی بھی الگ زبان ہوتی ہے اور جب یہ آنسو رب کی محبت کی بولی بول رہے ہوں تو اس زبان کی تاثیر ہی الگ ہوتی ہے ۔اس معصوم بچے نما پہلوان کے  اشکوں کی زباں میں کچھ تو اثر تھا کہ ٹین ٹاؤن کا ماما دلاور افریقہ کے کسی ملک میں دین کی تبلیغ کے لئے بھی گیا۔

حالات نے کوئٹہ سے جلاوطن کروادیا ،تو کوئٹہ والوں سے رابطوں کی ڈور بھی کچی ہوتی گئی ۔ہم جو قدامت پسند تبلیغی کہلاتے تھے ،ماڈرن مولوی میں بدل گئے ۔اسی دوران آغا جان کے بچوں کے داخلے کے سلسلے میں پھر یہ ڈور بندھی مگر وقت کے پیچوں نے اسے پھر سے کُند کر دیا ۔پھر ایک دن ناصر بھائی کا فون آیا کہ دلاور ماما کو کینسر ہوگیا ۔اور مدتوں بعد میں نے انھیں کال ملائی ۔وہی پاٹ  دار آواز،وہی شوخ لہجہ ،کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ پہلوان کینسر سے لڑ رہا ہے ۔

شاید وہی ایک کال کی ہوگی پھر مصروفیات کے دلدل میں یوں دھنسے کہ کب کتنے پیاروں سے دور ہوگئے پتہ ہی نہ چلا اور ایسے ہی کسی شام اکبر مجھ سے ملنے جعفرآباد آیا اور خبر دی کہ دلاور ماما اپنے محبوب رب کو پیارے ہوگئے ۔خبر کیا تھی میرے لئے ماضی کا دروازہ تھی ،ٹین ٹاؤن کی گلیاں ،خرواری اور حاجی میاں خان مسجد کے برآمدے اور ہال ،ٹین کی چھت کی بنی ہماری بیٹھک جہاں کئی بار انھیں ٹھیٹھ پنجابی ناشتہ کروایا،صدیقیہ اور فاروقیہ مراکز میں مسجد کی خدمت ان کی امارت میں کام کرنا ،ان کا پکایا ہوا لذیذ پلاؤ،ان کی مسکراتی آنکھیں ،گونجدار آواز اور دعائے نیم شب میں مسجد کی فضا میں سسکیوں کی ہلکی ہلکی آواز سب واقعات قطار باندھے کھڑے ہوگئے ۔

میں نے ان کے بھانجے ولی کو فون کیا۔ولی نے بتایا کہ دلاور ماما بیماری کے باعث بہت کمزور ہو چکے تھے اور بڑی تکلیف میں تھے لیکن شاید نام کا اثر تھا کہ ہر تکلیف کا دلاوروں کی طرح سامنا کیا۔ولی بھائی کی آواز میں سن تو رہا تھا لیکن میں 1998 کی اس دھندلی شام کے نقوش میں گم ہوچکا تھا۔ہال میں ان کی باتوں کا سحر سا تھا ۔دلاور ماما اس پہلی ملاقات میں ہماری پوری جماعت کے ماما بن چکے تھے ۔اب وہ جانے کی اجازت لے رہے تھے اور دل بے ساختہ بول رہا تھا کہ کاش کچھ دیر اور ۔۔بس کچھ باتیں اور۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply