ڈھولکی اور چند کام کی باتیں۔۔وقار اسلم/بُک ریویو

قارئین کرام لکھنا کوئی معمولی کام نہیں یہ وقت بھی لیتا ہے اورتوجہ بھی, اگر اس پر وقت صَرف نہ کیا جائے تو تحریر میں وزن پیدا نہیں ہوتا اور بھانت بھانت کی باتیں سننے کو ملتی ہیں متوازن ذہن اور کثیر الجثہ علم ہی آپ کو اچھا لکھنے کی تحریک دیتا   ہے اسی طرح کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب آپ  کچھ تحریر کرنا چاہیں تو ذہنی مزاج  کے مطابق  موضوع تحریر سے مطابقت نہیں رکھ رہا ہوتا لیکن قرطاس پر اپنا ادب اتار پانا ہی ادیب کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔

ہمارے دوست ظاہر محمود کی جیٹھری کتاب ”ڈھولکی” آ نہیں رہی بلکہ آچکی ہے اور اپنی پوری آب وتاب سے   چرچے کروائے چلی جارہی ہے۔ اس کی مراجعت کے متعلق ظاہر اًگاہے بگاہے بتاتا رہتا ہوں ، اوائل مراحل کے داؤ پیچ بتلاتا خوشی محسوس ہوتی کہ میرا دوست صاحب کتاب ہوچکا ہے اور دیکھ لیجیے آج وہ وقت آگیا جب ظاہر کی تصنیف نے بڑے  بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا، جب طلباء اپنا وقت منفی سرگرمیوں میں صرف کررہے تھے ظاہر اپنی معرکتہ الاآرا کتاب تخلیق کر رہا تھا جو ایک اچھی کتاب کے تمام connotations کو رقم کرتی ہے۔اس کتاب کی خوبصورت بات یہ ہے کہ اس میں سفرانچے، افسانے اور مضامین یکجا ہیں۔افسانے میں سسپنس  ایسا کہ دل دہلا دے اور سفرانچے میں عکاسی ایسی کہ یوں لگے آپ خود پاکستان کے یہ علاقے گھوم رہے ہوں ،مضامین کی پختگی ایسی کہ مزہ آجائے یہ ایک ایسی variety ہے جس سے بہت  سکون  میسر آسکتا  ہے۔تحقیق و مشاہدات سے بھرپور کتاب یقیناً طبع آزمائی کے لئے نمبر ون چوائس ہے۔ظاہر محمود نے اپنی کتاب جو کہ بالکل کثیف نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنے اندر  اک  دنیا سموئے ہوئے ہے ،پیش کی۔ اس کے انداز تحریر کا میں پہلے بھی مداح تھا اور اس کتاب کو پڑھ کر زیادہ حظ اس لئے بھی اٹھایا  کہ اس لکھاری کی شستہ  طبعیت سے میں واقف ہوں ،شعبہ کیمیاء کا طالبعلم ہوکر بھی اردو سے اتنا لگاؤ  اور اُنسیت رکھتا ہے ،ممتاز شخصیات میں ہی اٹھتا بیٹھتا ہے اور اپنے وقت کو قیمتی بناتا ہے۔ ڈھولکی پر ظاہر کے ہاتھ ہیں وہ اسے تھپتپا رہا  ہے اور جو آواز پیدا ہورہی ہے وہ یقیناً  پڑھنے والوں کا  روم روم اپنی جانب متوجہ  کروالے گی ۔اس کا ایک افسانہ ڈھولکی جس کو بے حد پذیرائی ملی، اس کتاب کی جانب توجہ  اس باہمت دوست کو اس افسانے نے ہی دلوائی  جس کو اختصار کی بنیاد پر اس نابغہ ہنر نوجوان نے افسانچے کی پہچان دی۔دراصل ڈھولکی پڑھنے والوں کے لئے ایک مکمل پیکج ہے اس میں معاشرت،متجسس خاکے،ثقافت اور بہت کچھ ملتا ہے اور خالصتاً اس میں آپ کو وہ گوندھی ہوئی چاشنی محسوس ہوگی جیسے کوئی اپنا ہی آپ سے مخاطب ہوا ہو آپ کو اپنائیت کے سیلِ رواں میں اپنے ساتھ بہائے لئے جا رہا ہو۔لاتعداد ادیب لکھتے ہوئے بے شمار سیگریٹ پیتے ہیں جبکہ کچھ چائے پیتے ہیں۔۔
فرانسیسی ادیب بالزاک چائے کے بجائے کافی پیتا تھا۔ایک دفع اس نے کہا تھا“میں کافی کی دس ہزار پیالیاں پی کر مروں گا۔”
بعض ادیب ایسے بھی گزرے ہیں جو لکھنے کے دوران اپنی میز پر اپنے قریب سیب یا شہد رکھتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیب یا شہد کی خوشبو سونگھنے سے ان کے خیالات کو تحریک ملتی تھی ۔
ایک زمانہ تھا جب ادیب اتنے نازک مزاج ہوتے تھے کہ بلی کی میاؤں میاؤں اور مرغ کی ککڑوں کوں سے بے چین ہو جاتے اور ایک دم ان کے قلم رُک جاتے۔ تاہم آج کے بیشتر ادیب لکھتے وقت اردگرد ہلکا پھلکا شور پسند کرتے ہیں اور ان کے لئے ایسا ماحول لکھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے کیونکہ یہ ان کے مشاہدات اور عمومی رویوں کو بہتر کرنے میں سہولت کار نظر آتا ہے۔
اردو کے منفرد اور مشہور افسانہ نگار  سعادت حسین منٹو لکھتے وقت صوفے پر بیٹھ کر دونوں گھٹنے سُکیڑ لیتے اور ایک چھوٹی سی پنسل سے کہانی لکھتے۔ افسانہ شروع کرنے سے پہلے وہ ۷۸۶ ضرور لکھتے تھے۔۔
انگریزی کا ادیب ٹموتھی ڈیکسٹر اپنی تحریر میں کامے، فل سٹاپ اور ڈیش وغیرہ نہیں لگاتا تھا۔ وہ اپنی تحریر میں اس قاعدے کا بھی خیال نہیں رکھتا تھا کہ ہر نیا جملہ بڑے حروف تہجی سے شروع ہو نتیجتاً اس کی تحریر ایک طویل ترین جملہ لگتی۔ اس کی کتاب کے ناشر نے ایک دفع پریشان ہو کر اسے لکھا کہ اس میں نہ تو کاما ہے، نہ فل سٹاپ، میں کیا کروں۔ ڈیکسٹر نے کچھ کاغذوں پر بیشمار کامے، ڈیش، فل سٹاپ وغیرہ لکھے اور ناشر کو اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیے کہ جہاں جہاں ضرورت ہو وہ اس کاغذ سے کامے، ڈیش اور فل سٹاپ وغیرہ لے لے۔

آج تو کمپیوٹر کا دور ہے لیکن پہلے وقتوں میں تحریر صاف رکھنے کے لیے ٹائپ رئٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم چارلس ڈکنز اس کا ستعمال نہیں جانتا تھا، اس لیے ڈکنز کی تحریریں پڑھنا نہایت دشوار کن مرحلہ ہوتا تھا۔ اس کی تحریریں خاردار تاروں کے مانند الجھی نظر آتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشہور ادیب ڈیوما لکھتے ہوئے ایک اونچا اور لمبا ٹوپ پھول دار جاپانی چوغے کے ساتھ پہنتا۔ وہ کہتا تھا“میرے آدھے خیالات اس ٹوپ کے اندر ہوتے ہیں اور آدھے ان جرابوں میں جو میں روحانی مناظر لکھتے وقت پہنتا ہوں۔ ہمیں ان رائٹرز کی عادات و خصائل دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے پُر سکون لمحات میں اچھا ادب تخلیق کرتے ہیں اپنے وقت کو منفرد بناتے ہیں آنے والی نسلوں کے لئے فکشن لکھتے ہیں انہیں ایک ایسے طلسم بادباراں میں بھینچ لیتا ہے کہ وہ اس سے کچھ نہ کچھ اخذ کرکے ہی باہر آتا ہے قریہ قریہ نسل در نسل ادب زندہ و جاوید رہتا ہے اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ کوئی شاہکار تخلیق کرنا اگر محال لگے تو کچھ اچھا پڑھ کر ہی اپنے آپ کو بدلیں اپنی سوچ بدلیں اور اچھا لکھنے والوں کی قدر کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply