مے فنگ ؛ ایک قدیم بلتی تہوار۔۔ علیم رحمانی

بلتستان میں ویسے تو بہت سے علاقائی تہوارقدیم زمانے سے منائے جاتےرہے ھیں مگر ان میں مے فنگ سب سےقدیم اور اھم ترین تہوارشمار ھوتاھےجوبون چھوس کے دور سے ہی بلتی ثقافت کاایک خوبصورت اور خوشیوں بھراحصہ ہے۔
مے فنگ ایک خالص علاقائی رسم یاتہوارہے جوھرسال 20 دسمبر کی رات کو بہت ھی جوش وخروش اور تزک واھتمام سے منایاجاتاھے. یہ دراصل نئے تبتی سال شروع ہونے کا جشن ہے۔ اس کی اھمیت اس لئے بھی دوچند ھوجاتی ھے کہ 21 دسمبر سے دن کا دورانیہ بڑھنااور رات کاگھٹنا شروع ہوجاتا ہے جوکہ اس یخ بستہ موسم سے نبرد آزما لوگوں کےلئےعید سے کم نہیں ہوتا، اس لئے یہاں کے سب لوگ بغیر کسی تفریق کے خوشی مناتے ھیں.
اگرچہ بعض حضرات اس تہوار کو کسی دیوتا کوخوش کرنے کی کوششوں کی پرانی روایت کاحصہ گردانتے ھیں کیونکہ اس رات کو سارے مرد خصوصاجوان اور بچےرات کو گھروں سے باھرنکل کرھاتھوں میں لکڑی کامشعل جلائے مٹرگشت اور ھلاگلاکرتے ھیں ،ان کےمطابق پرانے زمانوں میں یہاں کے باشندے بدھ مت کےپیروکارتھے جو نئے تبتی سال کے آغازپہ اپنے دیوتاکوخوش کرنے یااس سے برکت کے حصول کے لئے یہ تہوار مناتے تھے مگر اب نہ یہاں کسی دیوتاکاتصور ھے اور نہ پورے بلتستان میں بدھ مت کاکوئی پیروکار، ایسے میں اس کواب کسی دیوتا سے منسوب کرنے کی بجائے ایک علاقائی تہوار ھی کہنااور سمجھنا مناسب ھوگا کیونکہ آج کا بلتستان الحمد للہ سوفیصد مسلمانوں کاخطہ ھےجبکہ بعض مورخین اور محققین کے نزدیک یہ تہوار بدھ مت سے بھی پہلے بون چھوس کے زمانے سے چلاآرہاہےایسے میں اسے بدھ مت سے منسوب کرناکیونکر درست ہوگا؟ اور آٹھ سوسال پہلے جب یہاں کے باسی بون چھوس سے بدھ مت کی طرف راغب ہوئے تب بھی اس تہوار پہ کوئی قدغن نہ لگ سکی پھروہ مشرف بہ اسلام ہوئے تب بھی یہ تہوار اپنی اھمیت اور جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوااور تادم تحریر اس سے اسلام کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔اللہ کرے آئندہ بھی اسلام محفوظ رہے۔

اس تہوارمیں کوئی غیر شرعی بات نہیں ھوتی بلکہ اکثر مقامات پہ بچے دن کےآغاز میں جمع ھوجاتے ھیں اور گاؤں یامحلے کے ھر گھر کر دروازے پہ جاکے ایک خاص طرز میں اھل خانہ کی تعداد کے حساب سے دعائیہ گیت گاتے اور ان سے لکڑی اور جلانے کی دیگر غیر ضروری گھریلو اشیاء طلب کرتے ھیں اور گھر والے فورا لکڑی،خشک گھاس پھوس ،پرانے ٹوکرے ،ٹوکریاں وغیرہ ان بچوں کے حوالے کرتے ھیں.
بچے ان تمام لکڑیوں اور فاضل اشیاء کو کسی قریبی کھیت میں جمع کرتے جاتے ھیں تاکہ رات ان سے آگ جلائی جاسکے بچے اس گہماگہمی سے فراغت کے بعد لکڑی کے مشعل جسے بلتی میں ” رنڈر” کہاجاتاہے، بنانے میں جٹ جاتے ہیں جس کے لئے”شوب پہ” نامی جنگلی درخت کی سیدھی اور لال لال لکڑی ڈھونڈنکالنا ایک صبر آزمامرحلہ ہوتاہے۔رنڈر بنانے میں والدمحترم بچوں کاہاتھ بٹاتے ہیں۔
نماز مغربین کی ادائیگی کے بعد جشن شروع ھوجاتاھے اس موقع پہ بھی اس بات کاخیال رکھاجاتاھے کہ اگر 20دسمبر کو کسی آئمہ معصومین علیہم السلام میں سے کسی کی شہادت کی شب لگتی ھے تو جشن کاپروگرام سرے سے ھی کینسل کردیاجاتاھےاور اگر ایسی کوتاریخ نہیں پڑتی توسارے مرد جوان بوڑھے اکھٹے ہوجاتے ہیں اور صبح سے جمع کردہ لکڑیوں اور ٹوکروں وغیرہ کوچنگاری دکھلائی جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں پھر جب آگ جوبن پہ ھوتی ھے تو بچے اور نوجوان اس سے اپنے اپنے مشعل روشن کرتے اور اس کوزورسے گھماتے دور دور تک نکل جاتے ھیں یہاں تک کہ مشعل کی لکڑی ختم ھوجائے.
جبکہ بزرگ حضرات آگ تاپتے ھوئے مشترکہ طورپربلند آواز سے نعت یا کوئی منقبت پڑھتےیابعض مقامات پہ بلتی لوک گاتے رھتےھیں .
جب آگ مکمل طور پہ بجھ جاتی ھے تو لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کوواپس ھوتے ھیں جہاں خواتین نے طرح طرح کے دیسی وبدیسی پکوان تیار کررکھے ھوتے ھیں جن میں اپنے رشتہ داروں خصوصابیٹی داماد اور نواسے نواسیوں کی دعوت تو لازمی ھے جس کے بغیر مے فنگ کے خصوصی کھانے کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا.
یوں سمجھ لیجیے کہ مے فنگ دامادوں کے ناز نخرے اٹھانے کادن ھے اس دن کی تقریب کااصل دولہاوھی ھوتاھے اگر اس رات داماد صاحب مع اھل خانہ کی دعوت ممکن نہ ھو تو ایک ھفتے کے اندر اس کی قضا واجب ھے جس سے پہلو تہی نہیں برتی جاسکتی کیونکہ داماد راضی تو آپ کی بیٹی اوراس کی اولاد بھی خوش رہتی ہے۔
شکر ھے بلتستان میں بدھ مت کے خاتمے سے اب تک نسبتا انسان دوست اور بہت حد تک باشعور علماء کا ھولڈ رھاھے اس لیے انہوں نے بے ضرر تہواروں اور رسموں پہ بلاوجہ پابندی عائد کرنے کی بجائے مفید تقریبات میں تبدیل کرکے کسی حد تک ان کو اسلامائز کردیاھے اس وجہ سے نہ اسلام خطرے میں ھے اور نہ لوگوں کی خوشیوں پہ کوئی قدغن لگائی گئی ھے ھاں اگر کوئی رسم براہ راست اسلام کی تعلیمات سے ٹکراتی ھے تو اس کی ضرور بیخ کنی کی گئی.اب چند ایک برسوں سے کچھ بدیسی کلچر سے متاثر حضرات اس تہوار کو ناچ گانے کے ایونٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے خلاف ظاہر ہے علمائے کرام بھی شدید ردعمل دے رہے ہیں اس ایکشن اور ری ایکشن کابراہ راست اثر اس بے ضرر اور خوبصورت تہوار پہ پڑ رہاہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جولوگ بلتی تہذیب وثقافت سے واقعی لگاورکھتے اور اسے بچاناچاھتے ہیں وہ اس تہوار کواس کی قدیم شکل میں ہی برقرار رکھنے کی کوشش کریں اور بدیسی کلچرمتعارف کرانے بے مقصد اچھل کود کرنے والوں اور چائنہ سے درآمد کردہ مشعلوں اور قمقموں سے اس کوآلودہ کرنےوالوں کوسمجھائیں کہ ان کی یہ روش مے فنگ کےقدیمی حسن کونہ صرف گہنارہی ہے بلکہ اس کے ردعمل سے امن وامان کامسئلہ پیداہورہاہے۔
اس لئے براہ کرم بدیسی کلچر کااحسان نہ کرکے بلتی کلچر پہ احسان کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply