کرنل ضیا شہزاد اور “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ”۔۔۔۔۔احمد رضوان

عنوان دیکھ کر چونکیے گا مت کہ کرنل ضیا شہزاد کا ٹارگٹ کیا ہے؟عرض کردوں کہ موصوف نہ تو ٹارگٹ کلنگ پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی ٹارگٹ کے پورا ہونے پر نعرہ مستانہ لگانا شروع کردیتے ہیں “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ” جیسے ہمارے پٹھان بھائی “لوشے لوشے لوشے” یا پنجابی بھائی “بلےبلے بلے” کرتے ہیں۔ ہمارے سندھی اور بلوچی بھائی ایسے مواقع پر کیا کرتے ہیں اس بابت” میں” اپنی کم مائیگی و علمی کا اعتراف کرتا ہوں ۔کرنل ضیا شہزاد کا ٹارگٹ بس اتنا ہے کہ اپنی تازہ تازہ اشاعت شدہ کتاب ” ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ “کے ذریعے آپ کے پیٹ میں ہنساتے ہنساتے بل ڈالنا چاہتے ہیں۔چونکہ کتاب ہٰذا کے مصنف پیشے کے اعتبار سے فوجی ہیں اس لئےانہوں نے اس کتاب میں دوران ملازمت پیش آنے والے حالات و واقعات کی کھٹی میٹھی یادوں کا لیکھا جوکھا بیان کیا ہے۔اپنے اس “ٹارگٹ”میں وہ کس قدر کامیاب ہوئے ہیں یہ تو آپ سب ان کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی بتائیں گے مگر میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب امسال طنز و مزاح کے میدان میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے عمدہ اضافہ ہے۔اس تبصرے کو بھی حتی الامکان مزاح کی زیریں لہروں میں ہچکولے لیتی نیا کی طرح پیش کرنے کی جسارت کروں گا گر قبول افتد۔

آرمی میں ڈسپلن اور چین آو کمانڈ کا تصور بہت سختی سے راسخ اور رائج ہے ۔اسی ڈگر پر چلتے ہوئے فاضل مصنف نے بھی اپنے آپ کو یقین کی آخری سرحدوں تک پہنچانے کےلیے فقط ایک بار “ٹارگٹ” لکھنے کو کافی نہیں جانا بلکہ اس کو عین اسلامی طریقے کے مطابق رنگ دیتے ہوئے “قبول ہے! قبول ہے! قبول ہے!” کی طرح “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ”کا نام دیا ہے۔مرزا نوشہ فرما گئے ہیں کہ ” سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر”۔کرنل ضیا شہزاد نہ تو ثقل سماعت کے مریض ہیں اور نہ ہی کانوں کے کچے ہیں کہ ان کو بار بار تاکید کے لئے اسے دہرانا پڑا ۔شائد ایک بار ٹارگٹ لکھنا انہیں شدید تنہائی اور اکلاپے کا شکار دکھائی دیا اس لئےدسراتھ بلکہ سہ باری لکھ کر اسے ثقیل بنانے کی کوشش کی ۔ “مکرر ارشاد” اور تکرار لفظی پر ان جنرل صاحب کا واقعہ نما لطیفہ یاد آگیا ہے جو آپ میں سے اکثر احباب نےیقیناََ سن یا پڑھ رکھا ہوگا “قند مکرر” کے لئے ایک بار پھر پڑھ لیجئے۔

ایک سابقہ فوجی حکومت کے دور میں ملک کے وزیر اطلاعات و نشریات ایک جنرل صاحب تھے۔ایک قومی نشریاتی ادارے نے ایک مشاعرہ برپا کیا تو صدارت کے لیے وزیر صاحب کو بلا لیا۔ یہ نہ جانا کہ وزیر صاحب مزاج اور ذوق کے اعتبار سے شاعر نہیں ہیں، فوجی ہیں۔مشاعرہ شروع ہوا تو باذوق سامعین نے ہراچھے شعر پر ۔۔۔ ’واہ واہ سبحان اﷲ‘۔۔۔ کہنے کے ساتھ ساتھ، حسبِ ضرورت ۔۔۔’مکرر ارشاد، مکرر ارشاد‘ ۔۔۔ بھی کہنا شروع کر دیا۔جنرل صاحب نے نوٹ کیا کہ ہر ’مکرر ارشاد‘ پر شاعر پہلے کا پڑھا ہوا شعر دوبارہ پڑھنا شروع کردیتا ہے۔اُنھوں نے اپنے اردلی سے پوچھا:
’’مکرر ارشاد ” ?What do they mean by that
اردلی نے بتایا:
’’یہsentence کہہ کر شاعر کو insistکرتے ہیں کہ وہ اپناشعر دوبارہ پڑھے‘‘۔
یہ سنتے ہی جنرل صاحب آگ بگولا ہوگئے۔زیر لب کوئی کلمہ اپنے تکیہ کلام میں سے منتخب کرکے پڑھا اور لپک کر مائک سنبھال لیا۔ایک صاحب کو جو اُچھل اُچھل کر داد دے رہے تھے (اور ریڈیو والے اُنھیں اسی مقصد سے بلا کر لائے تھے) بطورِ خاص مخاطب کیا!
’’Hey جنٹل مین! جس وقت شاعر اپنا شعر recite کر رہا ہو، اُسی وقت کان کھول کرغور سے سن لیا کرو۔شاعر تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہے کہ تم بہروں کو بار بار ایک ہی شعر سناتا رہے۔ خبردار جو اَب کسی نے’مکرر ارشاد‘ کہا‘‘۔صدرِ مشاعرہ کا یہ ’مارشل لا آرڈر‘ سنتے ہی سامعین کو سانپ سونگھ گیا۔ نتیجہ یہ کہ جس مشاعرے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مخصوص کیا گیا تھا وہ بس بیس ہی منٹ میں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔سب سے زیادہ بدمزہ وہ شعرا ہوئے جن کی حمایت میں جنرل صاحب نے اپنا ’فرمانِ امروز‘ جاری کیا تھا۔

کرنل ضیا شہزاد سے اولیں تعارف ان کی تحریر کے ذریعہ بواسطہ فیس بک ہوا تھا ۔ تحریر اتنی مزےدار تھی کہ مزید سے مزید تر کی جستجو ” آئی ایس پی آر” کے ماہنامے “الہلال” تک لے گئی۔ وہاں دیکھا تو کرنل ضیا شہزاد کی تحریریں باقاعدگی سے چھپ رہی تھیں۔ ان سے استدعا کی کہ ہمیں بھی یہ موقع عنایت کیجئے کہ مکالمہ اپنے قارئین تک آپ کے لکھے کو پہنچائے جو انہوں نےبخوشی قبول کرلی ۔مکالمہ کے باقاعدہ قاری کرنل ضیا شہزاد کی سلسلسہ وار ان تحریروں سے حظ اٹھا چکے ہیں مگر تشنگی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔کتاب کوانہوں نے انتہائی سلیس اور سہل طرز تحریر میں لکھاہے ۔چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے واقعات میں سے مزاح کشید کرنا ان کا”Hallmark” ہے۔ ان کی تحریر کا ایک نمونہ یہاں پیش کرتا ہوں۔

“ہمارے ایک یونٹ افسر بال گرنے کی وجہ سے بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے انہوں نے انواع و اقسام کے تیل استعمال کئے۔ دو ایک مرتبہ ٹنڈ بھی کروا دیکھی لیکن معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔ آخر کسی دوست نے مشورہ دیا کہ راولپنڈی سی ایم ایچ میں ایک سکن سپیشلسٹ بریگیڈئیر ڈاکٹر تعینات ہیں ، اگر ان کو دکھایا جائے تو ضرور کچھ افاقہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے فوراً بریگیڈئیر صاحب سے ملاقات کا وقت طے کیا اور بس پکڑ کر لاہور سے راولپنڈی روانہ ہو گئے۔ وقت مقررہ پر سی ایم ایچ پہنچے اور ڈاکٹر صاحب کے حضور پیش ہو کر اپنی بیماری کی تفصیلات بیان کیں ۔ سب کچھ سن کر بریگیڈئیر صاحب نے سر پر ہاتھ پھیرا اور وگ اتار کر میز پر رکھ دی ۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ہمارے یونٹ افسر نے سلیوٹ کیا اور واپس ہولئے۔ اس کے بعد انہوں نے کسی قسم کے علاج کا ترددنہیں کیا۔ بہت عرصے کے بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ہمارے حساب سے تو اب تک انہیں الف گنجا ہوجانا چاہئے تھا لیکن ان کے سر پر کافی بال دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے حیران ہو کر اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ بال گرنے کی اصل وجہ ٹینشن لینا تھی۔ میں نے جس دن سے ٹینشن لینا چھوڑ ی ہے میرے بال گرنا رک گئے ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

کرنل ضیاء شہزاد اسی تابندہ اور درخشاں روایات کے امین ہیں جس کا سلسلہ سید ضمیر جعفری ،شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، برگیڈئر صدیق سالک، کرنل اشفاق احمد اور بے شمار دوسرے ادبا سے جاملتا ہے۔یہ لوگ تلوار کے ساتھ ساتھ قلم کے بھی دھنی تھے اور اپنے موقلم سے ایسے عمدہ نمونے تخلیق کرگئے ہیں جو ابد الاباد تک ان کا نام زندہ و جاوید رکھنے کےلئے کافی ہیں ۔طنزو ظرافت ایک فطری عمل ہے جو انسان کو کو خدا تعالی کی طرف سے سے جبلی طور پر ودیعت ہے۔بقول یوسفی صاحب چھٹی حس اصل میں حس مزاح ہے۔ تحریر میں ظرافت کو وہی مقام حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو نصیب ہے زیادہ ہو جائے تو کھانا دشوار ،کم رہ جائے تو روکھا پھیکا ۔ کسی زبان کی لطافت اور کسی قوم کی ذہنی پختگی کا اندازہ کرنے کے لئے اس زبان کا ادب اور قوم کی حسِ مزاح ایک عمدہ پیمانہ ہے۔ اگر صاحب کتاب ہاتھ میں ڈنڈا بھی رکھتے ہوں تو ان کی بات ماننی ہی پڑتی ہے ۔ انسان حیوان ناطق تو ہے ہی مگر حیوان ظریف بن کر سب پر بازی لے گیا ہے۔ اردو ادب میں طنز و مزاح اور ظرافت کی تاریخ بھی اتنی پرانی ہے جتنی اردو زبان ہے کلاسیکی ادب میں ہمیں طنزوظرافت مزا اور شگفتگی کے نمونے بکثرت ملتے ہیں۔دور جدید میں مزاح لکھنے والے لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔واقعاتی مزاح جس میں آپ بھی ایک کردار ہوں اس کو یوں لکھنا کہ نازک آبگینوں کو ٹھیس بھی نہ لگے اور بات بھی لطیف پیرائے میں قاری تک پہنچ جائے یقیناََ اتنا آسان نہیں ہے۔ فارسی محاورہ معمولی تحریف کے ساتھ”خطائے افسراں گرفتن خطا است” اور جہاں بات آپ کے سینیرز کی ہو اور وہ بھی آرمی آفیسرز کی، وہاں پر اس دو دھاری تلوار کے وار کی ذد میں آپ بھی ہوتے ہیں اور صاحب واقعہ آپ کے کیرئیر کو بریک لگانے کا سبب بن سکتا ہے کہ قومی رازوں کا افشا بہت سنگین جرم گردانا جاتا ہے۔
سلسہ وار لکھی جانے والی اس داستان رنگین و سنگین (بندوق کی سنگین )کو اب کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ہے ۔ ملنے کا پتہ درج ذیل ہے۔اپنی اپنی کاپی جلد سے جلد بک کروالیں کہ اس کتاب کے بازار سے جلد ختم ہوجانے کے بہت روشن امکانات یوں ہیں کہ کہیں کرنل صاحب اسے” پی ایم اے لانگ کورس” کے لئے منظور نہ کروالیں کہ وہاں ٹریننگ پر آنے والے نئے نئے رنگروٹوں کو ” پڑھو اسےکہ دیدہ عبرت نگاہ ہو “کی شکل میں لاگو کردیا جائے۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”کرنل ضیا شہزاد اور “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ”۔۔۔۔۔احمد رضوان

  1. کاش کہ آپ یہ سب کتاب چھپنے سے پہلے لکھ دیتے تو اسے دیباچے کے طور پر شاملِ کتاب کیا جاتا… نہایت عمدہ الفاظ میں کتاب کا تعارف کروانے کا بے حد شکریہ… کرنل ضیاء شہزاد

    1. ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ۔سیکنڈ ایڈیشن میں انشاء اللہ ضرور شامل کریں گے اضافتوں کے ساتھ۔

  2. رضوان !!تمھارے تبصرے نے کتاب پڑھنے کا شوق پیدا کر دیا ہے ۔مزاح لکھنے کاُ ہنر واقعی مشکل کام ہے ۔تمھارے مزاح کی تو قائل تھی ہی کرنل صاحب کی کتاب پڑھے بغیر ہی تمھارے تبصرے سے یقین ہوُگیا کہ ماشاللہ مزاح کو ایک اور پر مزاح انسان مل گیا ہے
    میری مبارکباد کرنل صاحب تک پہنچا دو اور تمھیں اتنا اچھا تبصرہ لکھنے پر ڈبل دھمال ۔۔۔۔

  3. ایسے تعارف نے بعد کے بعد کتاب پڑھنی تو لازم ہوگئی آپ کے تبصرے نے بعد تو دل چاہ رہا کہ ابھی لحاف میں سے کتاب کی تلاش میں نکل جایا جائے پر سردی نے ٹانگوں میں دوڑنے والا خون بھی جما رکھا ہے۔

Leave a Reply to روبینہ فیصل Cancel reply