• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی آزادانہ خارجہ پالیسی، ایک خواب، ایک سراب۔۔سید فرہاد حسین

پاکستانی آزادانہ خارجہ پالیسی، ایک خواب، ایک سراب۔۔سید فرہاد حسین

جب سعودی عرب، امارات وغیرہ مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا تمغہ اور کشمیر کو صرف پاکستان کا مسئلہ قرار دے رہے تھے، تو یہ ایران ترکی اور ملائیشیا ہی تھے جو کشمیر اور FATF جیسے کڑے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

آج عمران خان نے انہی سعودی و امارات کے کہے میں آ کے کوالا لمپور کانفرنس میں نہ جا کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی دے ماری ہے۔اگر بدو ممالک اپنے مفاد میں مودی کو ویلکم کر سکتے ہیں تو کیا ہم اپنے مفاد میں اپنے محسنین کا شکریہ تک ادا نہیں کر سکتے؟

ترس تو بیچارے مہاتیر محمد پہ  آتا ہے۔ پاکستان کی خاطر بھارت سے پنگا لیا، ایف اے ٹی ایف میں سپورٹ کیا، اربوں ڈالر کے پام آئل میں تجارت کے ٹھیکے گنوائے، اور نتیجے میں ٹھینگا پایا۔ترس تو اردگان پہ  آتا ہے، پاکستان کو جڑواں گھر قرار دیا، ہر موقعے  پر  ساتھ کھڑا ہوا، آج جب انہوں نے بلایا تو ہم الٹا یہودی عرب دوڑے چلے گئے۔

ایران کی گزرے وقت میں بھارت سے کافی گاڑھی چھن رہی تھی، مگر جب امارات نے کشمیر معاملے پہ یہ کہہ کر کہ اس کا سٹیٹس بدلنے سے خطے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور وہ بھارت کےساتھ کھڑا ہے، تب ایرانی پارلیمنٹ اور لیڈرشپ کشمیر اور پاکستان بارے حوصلہ افزاء بیان دے رہے تھے ۔ ایران نے پاکستان کے تخفظات کے پیش نظر، چاہ بہار پورٹ پہ کام تک روک دیا، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ملکی مفاد کی بجائے، شخصی تعلقات کے دباؤ میں آ گئے۔

خدا نہ کرے کہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ سال کے اجلاس میں جب پاکستان کو صرف گرے لسٹ میں رہنے کے لیے ہی تین ووٹوں کی ضرورت ہو گی، تو تب یہی ملک منہ ہی نہ موڑ لیں۔ اگر ایسا ہوا، اور پاکستان خدا نخواستہ بلیک لسٹ میں چلا گیا تو یہ پاکستان کے  معاشی مفادات پہ  کاری ضرب اور ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سے ایک دوسرا نقصان یہ ہوا کہ دنیا بھر میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص یہ پیغام گیا ہے، کہ پاکستان (معاذاللہ) سعودی طفیلی ریاست ہے، جس کی اپنی کوئی  آزاد خارجہ پالیسی نہیں، اس کی سزا ناقابل اعتبار ہے۔ اگر ہم اسلامی ممالک بارے واضح اور ملکی مفاد کے مطابق آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے تو روس اور امریکہ تعلقات میں کیسے اور کیونکر بیلنس رکھ پائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply