• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

آج میرا موضوع بحث سانحہ پنجاب کارڈیالوجی نہیں ہے۔ نہ ہی میرا موضوع بحث یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتائج کیا ہوں گے بلکہ میرا موضوع بحث اس سانحہ سے جڑے اور بہت سے معاملات ہیں جن پر بات ہونا ازحد ضروری ہے۔ وکلاء کے پنجاب کارڈیالوجی پر حملے میں کسی کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہوں اور نہ ہی کسی کا دفاع کر سکتا ہوں۔ اس افسوسناک واقعہ کا دفاع میرے لیے کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ چار لوگ اپنی جان سے گئے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ توڑ پھوڑ کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ کرنا عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ معاملے  کے اصل محرکات جاننے کیلئے ایک شفاف انکوائری ہونی چاہیے جس میں وکلاء اور ڈاکٹرز دونوں طبقات سے تفتیش کی جائے اور ذمہ داران پر قانون کے مطابق مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر چھپنے تک معاملہ کسی منطقی انجام تک پہنچ چکا ہو۔ وکلاء پر یہ تنقید بھی بجا ہے کہ یہ اکثر ہڑتالوں پر رہتے ہیں جس سے سائلین کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہم وکلاء کے عدم برداشت کے رویہ کیساتھ ساتھ ڈاکٹرز کے ناروا سلوک اور ان کی ہڑتالوں سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ دونوں طبقات کو ہی اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ تین سال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ڈاکٹرز نے بھی کافی ہڑتالیں کی، جس سے مریض رلتے رہے اور میڈیا ہی کے ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کے دوران نہ جانے کتنے مریضوں کو ان ہڑتالوں کی وجہ سے علاج نہ ملنے جیسی شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ واقعہ سے وکلاء کا وقار بہت مجروح ہوا ہے۔ اس بارے بھی ہماری پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور وکلاء کے ضابطہ اخلاق پر ناصرف نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد کی بھی اشد ضرورت ہے۔

گزشتہ تین سال کے دوران ڈاکٹرز کی ہڑتالوں میں بھی مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اگر ہم ڈاکٹرز اور وکلاء کا گزشتہ ریکارڈ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہڑتالوں میں کوئی بھی ایک دوسرے سے پیچھے نہیں رہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو میڈیکل کونسل و پاکستان بار کونسل کیساتھ مل کر مناسب اقدامات اٹھانے کی فی الفور ضرورت ہے۔

مہذب معاشروں میں وکالت، میڈیکل اور علماء کے شعبہ جات کو بہت مقدس سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان سے بہت توقعات رکھتے ہیں۔ حالیہ واقعہ میں دو پڑھے لکھے طبقات یعنی ڈاکٹر اور وکیل آمنے سامنے آئے جس سے ناصرف ان دونوں طبقات کا نقصان ہوا بلکہ عام عوام کو بھی ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا اور سرکاری و نجی املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ پوری دنیا میں بالخصوص وکلاء کمیونٹی اور بالعموم پورے پاکستانی معاشرے کا امیج سخت متاثر ہوا ہے۔ اس انتہائی افسوسناک واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ چیف جسٹس نے بھی اس کی پُر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے۔

اگر سارے معاملے کا وسیع النظری سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا عنصر بہت سرائیت کر چکا ہے اور یہی عدم برداشت کا عنصر تشدد کے رجحانات کو جنم دیتا ہے۔ معاشرے کے اندر زبردست غصہ پیدا ہو چکا ہے جو نا صرف گھریلو مسائل بلکہ حالیہ واقعات جیسے خطرناک رجحانات کو جنم دے رہا ہے۔ اگر ہم کھل کر بات کریں تو دراصل ہمارا معاشرہ عدم تحفظ کا شکار نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق عدم تحفظ کا شکار ہر شخص اپنے تحفظ کیلئے کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے لڑ سکے۔ اس طرح گروہ بندیاں جنم لیتی ہیں۔ جب معاشرہ یہ سمجھنے لگے کہ سسٹم طاقتور کو سپورٹ کرتا ہے تو لامحالہ ہر شخص طاقتور ہونے کے زعم میں مبتلا نظر آتا ہے۔

انگریزی کی ایک مشہور قانونی ضرب المثل ہے جس کا ترجمہ ہے کہ “انصاف میں دیر دراصل انصاف سے انکار تصور کیا جاتا ہے”۔ ہمارے نظام انصاف میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ لاکھوں مقدمات سالہا سال سے عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں جو مزید فوجداری مقدمات کو جنم دیتے ہیں۔ ماڈل کورٹس کے دائرہ کار کو پورے ملک میں وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کیلئے تمام مقدمات کو اسی دائرہ کار میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جس قدر جلد ممکن ہو قانون سازی بھی کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور نفسیاتی و معاشرتی اصول ہے کہ جب ایک طبقہ کو اس کا حق نہیں ملتا اور اسے کسی فورم یا ریاست پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ اس کا حق اسے دلائیں گے تو پھر تشدد جنم لیتا ہے جو انارکی کی صورت میں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ایسے رویے اس وقت بھی جنم لیتے ہیں کہ جب لوگوں کے ذہنوں میں یہ ہو کہ قانون صرف غریب کیلئے ہے، امیر اور طاقتور کسی بھی قانون سے ماورا ہے تو ہر شخص جائز و ناجائز ذرائع سے طاقتور ہونا چاہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں عوام کا ریاست پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رول آف لا مطلب قانون کی عملداری اور عدل و انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاست کیلئے ہر صورت اپنی رٹ قائم کرنا ناگزیر ہے کہ جس سے عوام کا اعتماد ریاست پر مضبوط ہو۔ ہمارے معاشرے میں عدم تحفظ اور عدم برداشت کے رویہ اور دیگر ایسے عوامل کی وجہ سے کوئی بھی طبقہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے مختلف پریشر گروپس جنم لیتے ہیں۔ ریاست کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، عوامی مسائل کو جنم لیتے ہی ان پر سنجیدگی سے سوچنے اور ان کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بیماری کی علامات نہیں، دراصل بیماری کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے جو نہ صرف معاشرے کی بربادی بلکہ سماجی رویوں میں عدم توازن کا بھی باعث بنتے رہیں گے۔ اپنے منتشر خیالات کو الفاظ کی صورت میں ڈھال کر قارئین کی نذر کر دیا ہے۔ آپ مثبت تنقید کا پورا حق رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply