جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/10

میوزیم:
ہلکی پھلکی تیاری کے بعد ہم باہر نکلے ہماری اگلی منزل یہاں کا میوزیم تھا۔برون میں ایک دومنزلہ عمارت میں میوزیم ہے جو دیکھنے کی چیز ہے۔کیلاش تہذیب دُنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیب ہے تو یہاں کا میوزیم،اس قدیم کیلاشا ثقافت کو سجائے بیٹھا ہے۔
ہم میوزیم پہنچے،اس کی باہر کی دیواریں فنِ کاریگری کااعلیٰ و عمد ہ نمونہ ہیں۔بیرونی دیواروں کے پتھر َایسے تراشے گئے ہیں کہ ان کی تراشیدگی میں،ناتراشیدگی پھر اس ناتراشیدگی میں کمال کی تراشیدگی چھپی ہے۔پتھر جو جیومیٹری کی مثلثی،قائمہ الزاویہ،مساوی الزاویہ َاور چوکور شکلیں ہیں۔یہ ساری شکلیں ایک دوسرے سے اجنبی ہونے کے باوجود یوں جوڑی گئی ہیں کہ ہَوا کا گزر بھی محال ہے۔ اس جمادی ترتیب کاحسن ننگا ہو کر نکھر گیاہے۔اس پر کوئی پلستر یا مسالہ نہیں لگایاگیا۔ پتھرو ں کے جوڑ ہیں جو کمال مہارت کا ثبوت ہیں۔پتھروں میں اَعلی ٰ وعمدہ پتھر یہاں لگائے گئے ہیں۔
بظاہر میوزیم کی تین منزلیں ہیں۔مگراس کی دومنزلیں ہی کام میں لائی گئی ہیں۔تیسری منزل فقط دُورسے ہی دیکھنے کے لیے ہے۔ممکن ہے بعدمیں اسے بھی استعمال میں لایا جائے۔ہم مرکزی دروازے سے داخل ہوئے تو دائیں طرف ٹکٹ گھر تھا۔ایک چودری سے ایک کیلاشالڑکی اَور ایک ادھیڑ عمر کا شخص جھانک رہا تھا۔عورتوں کو لڑکی،جب کہ مردوں کو مرد ٹکٹیں دے رہا تھا۔یاد نہیں کہ ٹکٹ کتنے میں خریدے۔ہمیں ُحکمیہ بتایا گیا کہ میوزیم کے اندرتصویریں لینے کے 150روپے الگ سے ہوں گے۔ اگرخلاف ورزی کی تو جرمانہ ہو گا۔میر کارواں کو یہ ُحکمیہ لہجہ پسند نہ آیا۔فوراً انکاری  ہوگئے ہم تصویریں لیں گے ہی نہیں۔
اس کھرے جواب پر میوزیم کے منتظم بگڑ گئے لڑکی سے بولے اگر انھوں نے کوئی تصویر لی تو ان کو فوراً باہر نکال دوں گا۔ہم میوزیم میں داخل ہوئے تو یہ صاحب بھی ساتھ داخل ہوگئے۔کھوری نظروں سے دیکھتے ہوئے اشارہ کیا، تصویر نہیں لینی۔شاہد سیاحوں کے رویے نے اس مزاج کو یہاں اُگایا ہے۔ورنہ آگے معاملات ٹھیک ہی رہے۔
داخلی دروازے سے اَندر جاتے ہی بائیں ہاتھ،مجسمے رکھے گئے تھے۔دیارکی لکڑی کے یہ مجسمے اَب کچھ دیمک زدہ ہوگئے ہیں۔کیلاشیوں کا مذہبی قانون  ہے۔جو شخصیت جتنی بڑ ی ہو گی اتنا ہی بڑا اَور اِتنا ہی نفیس مجسمہ بنایا جائے گا۔شیشے کی ایک بڑی عمودی الماری میں،یہ مجسمہ کسی والا خان نامی اہم شخصیت کاتھا۔ان کے تابوت کے پاس سے لاکر یہاں رکھا گیا تھا۔اس ساری تفصیل کے ساتھ ان کی اَولاد کا شکریہ اَدا کیا گیا تھا۔جنھوں نے یہ مجسمہ قبرستان سے اٹھا کر یہاں رکھنے کی اجازت دی۔
وقاص کا توحیدی مزاج،اس مشرکانہ ماحول کو برداشت نہ کرسکا۔وہ فوراً ناراض لہجہ بناتے ہوئے باہر نکل گئے۔منصور اسماعیل میرے ساتھ ساتھ تھے۔ہر چیز یہاں قرینے سے چھوٹے بڑے جاروں میں رکھی گئی ہے۔دیواروں کے ساتھ قدیم اَور نایاب چیزیں سجی ہوئی ہیں۔ہم ان کے ساتھ ساتھ گھومتے جارہے تھے۔پرانے ثقافتی لباس عورتوں کے مجسموں پر لگے تھے۔عورتیں جو کیلاشا زبان میں ”کپور“ کہلاتی ہیں،کے لباس میں اِزار بند بھی ہوتا ہے۔لکڑی کے برتنوں کے ساتھ ٹوکریاں لٹکی ہوئی تھیں۔ٹوکری کو کیلاشا میں ”ویشکو“کہا جاتا ہے۔یہاں کی عورتیں اَور مرد جب کھیتوں یاجنگلوں میں نکلتے ہیں تو پشت پر ٹوکری اٹکا لیتے ہیں۔اس میں کام کی چیزیں ٹہنیاں،پھل،جنگلی سبزیاں ڈال لیتے ہیں۔جو انھیں راستے میں ملتی ہیں۔ٹوکری ہمالیہ اَور ہندوکُش کی وادیوں میں بسنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
ہمارارہبر ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔میوزیم میں،مَیں اَو ر منصور اسماعیل رہ گئے تھے۔ایک جگہ ہم رُکے،یہاں لکڑی اَور پتھر کی الگ الگ سیڑھیاں تھیں اَور زمین سے کچھ اُوپر ایک کمرے میں داخل ہوتی تھیں۔بتایا گیا یہ کیلاش کے تین سو سالہ پرانے گھر کا نمونہ ہے۔جو اَصل کی نقل ہے۔دیوار میں درجہ بہ درجہ دروازے تک پتھر لگے ہوتے ہیں۔یہ درجہ بہ درجہ لگے پتھر،پتھر کی سیڑھیاں ہوتی ہیں۔دوسری طرز کی سیڑھیوں میں لکڑی کابڑا شہتیر  کاٹ کر زمین سے اُوپر دروازے تک لگایا جاتا ہے۔اس پرتیسے کی مدد سے کاٹ کر اَور چھیل کر سیڑھی بنائی جاتی ہے۔کمرے میں اَلگنی،لسی بِلونے کاسامان اَور برتن تھے۔کھرے بان کی چارپائی بچھی تھی اَور کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں تھیں۔ بھاری بھرکم  دروازہ،دیواریں اَندر سے لیپائی اَور باہر سے پتھر ننگے تھے۔
دَروازے کے پاس کونے میں کُرسی بچھی تھی۔رہبر نے بتایا اَگر کسی کی بیوی فوت ہو جائے توتین سے چار ماہ شوہر غم کرتا ہے۔باہر سے آنے والے اِس کے پاس آکر دعاکرتے ہیں اَور مرحومہ کے حق میں خیر کے کلمات کہتے ہیں۔ وہ صرف رفع حاجت کے لیے باہر جاتا ہے۔کھانا اسے یہیں  کمرے میں دیا جاتا ہے۔اس دوران وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتا۔
ایک وقت میں دو سے زیادہ رہبر اپنا کام کررہے تھے۔ہمارے رہبر نے بتایا ہمارے ہاں تین تہوار ہوتے ہیں ،15,16 مئی کو چلم جوشی 22تاآخری دنوں تک اوچال, پھر چارماہ بعد چوموس ہوتا ہے۔ جو 8دسمبر تا 22دسمبر تک رہتا ہے۔یہ سب سے بڑا اَور مزے دار تہوار ہے۔اس تہوار کے دَوران ہر گھر کا دروازہ اجنبی ہوں یا اَپنے،لوگوں کے لیے کھلا رہتا ہے۔کیلاشا اس عرصے میں مہمان نوازی کی اِنتہاکردیتے ہیں۔خشک پھل،مشروب اَور طرح طرح کے کھانوں سے تواضع کی جاتی ہے۔زیادہ تر خشک پھل پیش کیے جاتے ہیں۔بڑے خوان پھلوں سے بھرے ہوئے مہمان کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں۔جو جتنا کھانا چاہے کھا ئے۔کیلاشا 17,18,19 دسمبر کو بتریک کی عبادت گاہ چلے جاتے ہیں اَور مل کرمناجات کرتے ہیں۔تین سو سالہ پرانا گھر دیکھ چکے تھے۔کیلاشا 300سالوں میں اِتنے نہیں بدلے، جتنا ان کی نسل اَب بدلنا چاہتی ہے۔
ایک طرف ہل اَور اُس کے ساتھ جندر ا لگا تھا۔مضبوط اَور خوب صورت بیلوں کی سُرخ جوڑی کی ایک تصویر بھی تھی۔اَیسے یک رنگے اَور جوڑی دار بیل مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔یہ تصویر کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے لی گئی تھی۔ یہ بہت پہلے کی ہے۔ اَب یہاں ٹریکٹر زمین ہَلتے ہیں۔
ایک طرف آلات ِموسیقی رکھے گئے تھے۔ڈھول،طبلہ نما شے َاوربانسری کے جونمونے یہاں دیکھے وہ کہیں اَور نظر نہیں آئے۔ہمارے ہاں سیدھی لکڑی کاگودا۔بڑی نفاست سے خالی کیا جاتا ہے۔پھر اس پھونک داں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کیے جاتے ہیں۔مگر کیلاشوں کا یہ قدیمی آلہ موسیقی منفرد ہے۔ایک سیدھی بانسری میں مزید دو بانسریاں لگائی جاتی ہیں۔جو اصل بانسری پر انگریزی کے حرف ”وی“کی شکل بناتی ہیں۔کل چھوٹے چھوٹے چھ سوراخ ہوتے ہیں۔جو وی شکل کے دو بازوؤں پرالگ الگ بنے ہوتے ہیں۔اسے بجانا عام بانسری سے زیادہ مشکل ہے۔
اُوپری منزل پرکوئی سرکاری قافلہ تین سوسالہ پرانے آثار دیکھنے میں مگن تھا۔جن میں زیادہ تر قدیم تصویریں اورقدیم اَشیا کے نمونے اَور پتھر کی اَشیا رکھی ہیں۔۔بمبوریت میں کھدائی کے دوران کچھ زیورات ملے ہیں۔ابھی تک یہاں مزید کوئی دریافت نہیں ہوئی۔منصور اسماعیل نے آواز دی۔آئیے جانا ہے۔باہر آئے تو وقاص جمیل چہرے پر بے زاری کی دُھول جمائے،باقی دوستوں کے ساتھ صحن میں لگے بینچوں پر بیٹھے تھے۔
اسی صحن میں ایک یونانی کو،جس کی تحریک اَور کاوش سے یہ میوزیم بنا تھا۔ مسلح طالبان اٹھا کر کابل لے گئے تھے۔بدلے میں بھاری بھر رقم لینے کے بعد رہا کردیا تھا۔اس کے بعد”اتھناسس لی رونس“کو کیلاش میں قدم رکھنا نصیب نہ ہوئے۔اگرچہ اس نے بہت کوشش کی مگر حکومت ِیونا ن اپنے قیمتی شہری کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
میوزیم سے نکل کر ہم آگے بڑھے۔اس وادی میں پانی،کھیت پیڑوں اَور پھلوں کی بہتات ہے۔گاڑی آہستگی سے چل رہی تھی۔بہتے پانی کی آوازیں بے حال کیے جارہی تھیں۔شہتوت کے درختوں کی چھاؤں میں لیٹا سبزہ،پھلوں سے لدے پیڑ،گھنے درختوں کی شاخوں اَورپتوں سے اَٹکتی چھنکتی دھوپ،یہ سارے مناظر یہاں پھیلے ہوئے تھے۔کافی آگے جاکر ہم واپس مُڑے۔

کیلاشیوں کے ماتھے پر ایک خاموش تحریر:
کیلاشوں کے ماتھے پرا یک خاموش تحریر لکھی ہے۔ایک علامت ہے سوالیہ نشان کے ساتھ کہ وہ کون ہیں۔؟کیلاشا عرصہ درا ز تک خود کو یونا نی منوانے پر زور دیتے رہے۔پھر یونان باسیوں نے اَپنے منہ  بولے بھائیوں کاسنا تو کچھ نے آکر یہیں ڈیرہ ڈال دیا۔کچھ نے اِن کی فلاح کے لیے اَپنی عمر یہیں  پرکھپا دی۔مگر جب اِنہی منہ  بولے بھائیوں میں سے ایک نے اِن کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تو اسے سخت مایوسی ہوئی۔کیلاشا یونانی نہ تھے۔کئی مصنفین اِنھیں درَد کہتے ہیں۔کوئی آریاؤں کا بچھڑا ہوا قافلہ۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کیلاشا اِنہی وادیوں میں پلے،بڑھے اَور پھیلے۔وہ کہیں سے آئے نہیں ہیں۔آریاؤں نے جن دراوڑوں کو دھکیل کر ہند کے میدانوں کی طرف بھیجا تھا۔کیلاشا انہی دراوڑوں کے ہم عصر جنگجو قبائل ہیں۔ پرانوں میں،سنسکرت کی کتابوں میں اَور قدیم یونانی مصنفوں کے ہاں بھی اِن کا ذکر ملتاہے۔ اَلیگزینڈر سے یہ آج بھی محبت کرتے ہیں۔اِسی محبت کاثبوت یہاں کا ایک چائے خانہ ہے۔نام ہے الیگزینڈر ہوٹل۔
ہماری گاڑی آہستگی سے بمبوریت کی سڑک پر رواں تھی۔اردگرد کھیت،پانی،پھل دار درخت اور پاریو (چلغوزہ) کے جنگل اَوربیچ میں ایک پہاڑی دریا۔جو ان خوب صورت وادیوں کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ کیلاش دُنیاکا نایاب خطہ ہے۔صدیوں نہیں ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کازندہ ثبوت۔ایشیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی آخری زندہ نشانی ۔ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ورنہ مَیں ان کے نخلستانوں تک جاتا،جو ان کے بودلک کامسکن ہیں۔ان کی جادوئی جھیلیں دیکھنے کی کوشش کرتا جن میں لوہا پھینکیں تو طوفان آجاتا ہے۔راتوں کو ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنے نظام شمسی کی کہکشاں کو دیکھتا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ گائے اَور گھوڑے کی آپس میں دوڑ سے اُٹھنے والی گرد ہے۔ان کی پریوں سے ملنے کی کوشش کرتاجو بہت ہی حسین ہیں اَو ر کبھی کبھی گرم دوپہروں کو مل لیتی ہیں۔ کیلاشوں کے پاس بیٹھ کر، اِن کے دیومالائی، بچھڑے وطن سیام کے قصے اَور لوک گیت سنتا۔ سیام جس کو محققین اَور یہ لوگ ابھی تک تلاش کررہے ہیں۔اَن کی وادیاں ساری کی ساری دیومالائی ہیں۔طلسماتی ہیں،ان کی دُنیا،ساری دُنیاؤں سے الگ ہے۔انہی دیومالاؤں نے رُوڈیارڈ کپلنگ سے،اس کاشہرہ آفاق افسانہ ”ایک آدمی جو بادشاہ بنے گا“تخلیق کروایا۔کپلنگ یہاں کبھی نہیں آیا۔وہ برصغیر کے باقی علاقوں میں رہا۔کیلاش کے متعلق اس نے جو کہانیاں،افسانے اَور واقعات سن رکھے تھے۔اُن کی بنیاد پر  اُس نے ایک کہانی تخلیق کی۔اُس کی اِس کہانی میں رُوس دِکھتا ہے،برطانیہ ہے،اَفغان ہیں اَور اِن سب کے ساتھ ساتھ یہاں کے پٹھان ہیں جنھیں وہ یہودی النسل سمجھتا ہے۔ رُوڈیارڈکپلنگ قدیم ترین ایشیا کی نفسیات بیان کرتا ہے اسی کے ساتھ برطانیہ َاوررُوس کی بھی اَور پھر اس حساس خطے کے لوگوں کی بھی۔افسانے کا مرکزی کردار، روس کا پُراسرار سیلانی شخص ہے،جو خاموشی سے واپس وطن چلا جاتا ہے۔سرکش اَور حساس ڈیورنڈ لائن اُس کے پار۔
ایشیا قدیم ہے،خو ب صورت تہذیبوں کا وارث ہے،پراِسرار ہے اَورمشرقی حسن کا نمائندہ ہے۔ سادہ زندگی کا عادی ہے۔تو کیلاش اس ایشیا کاقدیم ترین اَور جیتا جاگتا میوزیم ہے۔یہ قدیم ترین روایات، وہ مشرقی حسن، اَور وہ قدیم ترین تہذیب یہاں زندہ حالت میں موجود ہے۔میں اس زندہ تہذ یب سے رُخصت ہو رہا تھا۔مجھے قلق تھا کہ مَیں اِسے پورا نہیں دیکھ سکا۔مجھے اِسے پڑھنا چاہیے تھا،یہاں رُکنا چاہیے تھا،مگر وقت نہیں تھااَور کوئی رُکنے کے لیے آمادہ بھی نہیں تھا۔
اَب منزل واپس چترال تھی۔ اتنا ہی سفر طے کر کے چترال پہنچے۔ چترال کی ایک جامع مسجد میں نماز ظہر اَدا کی۔اس کی دومنزلہ کشادہ عمارت نئی بنی تھی۔خالی خالی اَورپرسکون ماحول میں یاد خدا کا اپنا لطف ہے۔دن کا کھانا،ہم نے چترال لاری اڈے کے قریب ایک ہوٹل میں کھایا۔اس ہوٹل میں اگر کوئی خاص بات ہے تو بس یہ کہ،اس کے دونوں طرف گاڑیوں کاشوراور ایک گندے لاری اڈے کی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔مگر ساتھیوں نے یہاں جم کر کباب،کابلی پلاؤ اَور نان کھائے۔مَیں نے دو کیلے لیے،اِن کا چھلکا اُتار کر انھیں روٹی کے ٹکڑے سے ملیدہ بنایا اَور اِسی قدرتی حلوے سے نان کھاکر پانی پی لیا۔
ہمارے آگے دوپڑاؤ مزید تھے۔مارخوروں کا نظارہ اَور گرم چشمہ۔گرم چشمہ ہم تتہ پانی آزاد کشمیر میں دیکھ چکے تھے۔مارخوروں کے بارے میں اَِطلاع تھی کہ وہ ہرروز دریا پر،عصر کے وقت پانی پینے آتے ہیں۔
ہم منز ل کی طرف بڑھ رہے تھے۔دریاے چترال کے کنارے کنارے آگے کی طرف۔شہر سے جیسے ہی باہر نکلے تو جاپانی ٹرالیاں درجنوں کے حساب سے،دریائی مٹی ڈھونے پہ لگی ہوئیں تھیں۔ دریائی احاطے میں دُور دُور تک یہی نظر آرہی تھیں۔ہمارے دوست شفقت بار بار چلاتے اوئے! دیکھو ڈیمپری، ”ڈیمپری“اس چھوٹی ٹرالی نما گاڑی کو کہتے ہیں۔جو ایک چھوٹے ٹرک سے مشابہہ ہوتی ہے۔ہمیں بتایا گیا کہ افغان سرحد نزدیک ہے۔یہ گاڑیاں جاپان سے اسمگل ہو کر،افغانستان آتی ہیں وہاں سے چل کر یہاں پہنچ جاتی ہیں۔پھر ریت،کریش اَور سیمنٹ ڈھونے پہ لگ جاتی ہیں۔
میرے دوست اِنھیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔اِس سارے سفر میں اِنھیں کوئی چیزبھلی لگی تو وہ ”ڈیمپری“تھی۔ڈیمپریاں دیکھتے دیکھتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک بڑا کتبہ لگا تھا۔”جنگلی حیات ہمارا قومی ورثہ ہے۔انھیں معدوم ہونے سے بچائیں۔“
گاڑی آہستہ چلنے لگی۔سڑک کنارے اِکا دُکا لوگ تھے۔موٹر سائیکل تھے اَور ایک آدھ کاربھی۔یہ سارے لوگ مارخوروں کو دیکھنے آئے تھے۔ایک مقامی آدمی نے بتایا یہ اَبھی نہیں آئیں گے،کچھ دیر بعد آئیں گے۔وقاص جمیل نے کہا تھوڑا آگے سے ہوآتے ہیں۔تھوڑا آگے ایک مسجد تھی،مَیں اِس کے پاس اتر گیااَور یہ لوگ کچھ مزید آگے نکل گئے۔
سڑک کے کنارے دائیں طرف مسجد ہے اَور مسجد کے آگے دریا بہتا ہے۔ یہ جگہ کھانس غبیر کہلاتی ہے۔ٹھیکے دار ابراہیم شاہ اَور اِن کے دو ساتھی مسجد کے بیت الخلا تعمیر کررہے تھے۔علیک سلیک ہوئی۔ابراہیم شاہ اَور اظہرالدین میرے پاس آبیٹھے۔مسجد کے آگے دریا ہے،پیچھے سڑک، سڑک کے پیچھے پار اَناروں کاباغ اور باغ کے پیچھے اَظہرالدین کا گھر تھا۔
اظہرالدین سال اوّل کا طالب علم تھا۔یہ سب لو گ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ابراہیم شاہ نے بتایا مارخور دسمبر میں ملاپ کرتے ہیں۔مادہ مارخور ایک تا آٹھ جون کے درمیان بچے دیتی ہے۔ابراہیم شاہ صاحب نے کہا یہاں (کھانس غبیر)سے بوغیوگول تک کاسارا علاقہ مارخوروں کاہے۔ہمارے سامنے دریا کے پار ایک پہاڑ تھا۔بلند،چٹیل،مٹیالہ بے آباد،اس پرایک چھوٹا غار تھا۔اظہرالدین نے غار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ہمارے بزرگ بتاتے ہیں،یہ علاقہ کسی وقت میں ویران تھا۔یہ سڑک اَور اس کے نزدیک جو آبادی اَب ہے،اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جنگلی جانور یہاں عام گھوما کرتے تھے۔ تب اس غار میں چیتا رہتا تھا۔اَب یہ اس کا ویران گھر ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply