جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/9

سلامُ الدین کیلاش کے متعلق بتاتے ہیں۔
کہیں سے سلامُ الدین صاحب آ بیٹھے۔وہ کیلاش لوگوں کے بارے میں بتانے لگے۔شفقت ان سے کچھ دیرپہلے چلے گئے تھے پھر آکر بیٹھ گئے۔سلامُ الدین صاحب نے پہلو بدلا سگریٹ کا کش لگایا پھر ماضی کاکیلاش اَور حال کاکیلاش بتانے لگے۔مثلاًکیلاش لو گ اچھے ہیں۔وہ بالکل ہمارے جیسے ہیں۔ہماری طرح ان کے بھی رسم و رواج ہیں۔وہ بھی ہماری طرح ایک مت رکھتے ہیں۔ہم اَور وہ ایک دُوسرے کے شادی بیاہ اَورماتم میں شرکت کرتے ہیں۔
ہمیں بتایا گیا تھاکہ سلامُ الدین اس سرائے کے منتظم،باورچی اَور ساتھ ساتھ ایک رہبر بھی ہیں۔ہم ان سے کیلاش کے متعلق ہر طرح کا سوال کرسکتے ہیں۔
مَیں نے پوچھا بودالک سماجی اَدارہ اَب بھی ہے یا نہیں۔؟جواب دیا نہیں اَب نہیں ہے۔یہ رسم کافی عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے۔اِن کی نئی نسل اَب اِس طرح کی رسومات سے باغی ہوتی جارہی ہے۔ہاں اِن کے پُرانے بزرگ ہیں،جو چاہتے ہیں کہ ہمیں پُرانے رسم و رواج کے مطابق ہی دفن کیا جائے۔مَیں نے پوچھا سنا ہے کیلاش لوگ اَپنے گھروں کی اَندرونی چھتوں سے جانوروں، جیسے کتے اَوربلیوں کے سر کاٹ کر لٹکا دیتے ہیں تاکہ نظر بد سے محفوظ رہ سکیں۔۔؟بولے اَیسی بہت سی رسمیں اَب دم بھی توڑ رہی ہیں۔انھیں اَپنی رسومات سے ایسے ہی پیار ہے جیسے ہمیں ہے۔پہلے وہ اَپنی رسومات کھلم کھلا کرتے تھے اَور اس کا اظہار بھی کرتے تھے اَب سامنے کرنے سے گھبراتے ہیں۔
شب کی سیاہی پوری طرح پھیل گئی تھی۔مصنوعی روشنیاں اس کے سیاہ پردے کوروشن کرنے میں ناکام تھیں۔کیلاش کی وادیاں اس میں چھپ گئی تھیں۔اَندھیرے میں دُور تک ڈھول کی مست آواز گونج رہی تھی۔ یہاں کے کوہ و دمن،ڈھول کی مست چوٹوں کی زد میں تھے۔ ہماری سرائے کے اُوپر پہاڑ پر کسی جگہ یہ ڈھول بج رہا تھا۔ ہم نے سلامُ الدین صاحب سے پُو چھا یہ آواز کیسی ہے۔َبولے کیلاش لوگوں کا میلا ہے۔
کیسا میلا۔؟
جس طرح ہمارے ہاں دو عیدیں ہوتی ہیں۔اَیسے ہی کیلاش لوگوں کے ہاں تین تہوار ہوتے ہیں۔یہ پہلا نہیں دُوسرا تہوار ہے۔دُوردُورکے ملکوں سے لوگ یہ تہوار دیکھنے آتے ہیں۔کل آپ کی جگہ پنجاب سے پورا گھرانہ آیا ہواتھا۔مگر بدقسمتی سے کل کوئی تقریب نہیں تھی۔کیوں کہ یہ ایک دن کے وقفے سے ہوتا ہے۔آج میلا ہے لِہٰذا آپ جاسکتے ہیں۔
کیامیلا ساری رات جاری رہے گا۔؟
جی ہاں۔یہ دن کو سوتے ہیں اَور ساری رات میلا کرتے ہیں۔پھر ایک دن وقفہ کریں گے،پھر میلا ہو گا۔
سلام ُالدین خامو ش ہوگئے تھے۔ہم بھی خاموش،بھرپوررات کامزہ لے رہے تھے۔دھیمی دھیمی انسانی آوازیں اَورڈھول کی تاپ،جو یہاں کا قدیم دستور ہے۔ہزاروں سالہ پرانا دستور، آج کوئی بہت ہی ماہر فن کار،اس دستور کا پالن کر رہا تھا۔ گلوبوں میں قید روشنی باغ میں پھیلنے کی کوشش کررہی تھی۔باغ کے کچھ حصوں پر اس کاحق تھا۔باقی حصہ اَور باہر کا علاقہ گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہواتھا۔
سلامُ الدین اَب ہم سے رات کے کھانے کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے کہ ہم کس وقت کھانا کھائیں گے۔مَیں نے شفقت سے کہا آپ دوستوں سے پوچھ آئیے کہ میلے میں چلیں تو ٹھیک،ورنہ مَیں اَور آ پ ہو آتے ہیں۔شفقت اَندر گئے تو سارے دوست تیار تھے۔
سلامُ الدین صاحب کا پلاؤ لذیذ ہوتاہے۔دن کو کھایا تھا۔اَسی لیے وقاص نے انھیں پلاؤ پکانے کا کہہ دیا۔ہم گاڑی لے جانا چاہتے تھے۔لیکن سلام الدین صاحب بولے پیدل چلے جائیے بَس پندرہ سے بیس منٹ کی مسافت ہے۔
ہم میلے کو چلے:
ہم باہر نکلے اَور مغربی سمت میلے کو چل دیے۔برون بازار راستے میں آتا ہے۔بازار میں ہی ایک جگہ میوزیم ہے۔ہم اس کی بغل سے دائیں مُڑگئے۔دُھندلی روشنیاں کھمبوں سے لٹکی ٹمٹما رہی تھیں۔غور کیا تو ان کھمبوں پر چھوٹی چھوٹی شمسی تختیاں لگی ہوئیں تھیں۔یہ روشنیاں تاریک راہوں کو روشن کرنے میں ناکام تھیں۔ایک کچی سڑک اس خاص گاؤں تک جاتی ہے جہاں میلہ سجا تھا۔ڈھو ل کی آواز برابر آرہی تھی۔کوئی روشنی،کوئی نیم تاریک راستا نہ بھی ہوتا تو ڈھول کی آواز سمت کا کام کررہی تھی۔راستے میں چونے سے تیر بنا کر راہنمائی کی گئی تھی۔ایک طویل چڑھائی چڑھنے کے بعد ایک اسٹیڈیم نما جگہ آئی۔ڈھول کی آواز برابر آرہی تھی۔اسٹیڈیم کے آغاز میں دولکڑی کے بُت کھڑے تھے۔یہ ُپرانے بت لکڑی کے دومنقش ستونوں پربیٹھے ہوے تھے۔
ایرانی سّیاح محمود احمد دانشور کی کتاب میں ان سے ملتے جلتے بتوں کی تصاویر ملتی ہیں۔وہ بُت قبرستانوں میں مُردوں کے ساتھ گاڑھے گئے تھے۔یہ اُن سے قدرے الگ تھے۔ہم ان بتوں کے پاس سے گزرے اَور ڈھول کی آواز کے تعاقب میں آگے بڑھ گئے۔لکڑی کے بنے گھروں اَوربھول بھَلییوں سے گزر کر،لکڑی کی چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک چوکور میدان میں پہنچے،جو اَندازً۰۲ضرب ۰۲فٹ کا ہوا ہوگا۔
اَندھیرے میں ڈھول،انسانی ہیولے اَور کچھ آوازیں تھیں۔سیاہی چھٹی تو میدان کے درمیان میں کیلاشا بچے اَور بچیاں تھیں۔ایک دوسرے کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے،نیم دائرے میں آگے پیچھے حرکت کررہے تھے۔کچھ نوجوان جو کیلا شا نہیں تھے ہا ہو کررہے تھے۔
یہاں تصاویر لینے اَور ویڈیو بنا نے کی اجازت نہیں تھی۔ملکی سّیاح جو اس ”کافر“میلے کو دیکھنے بے تاب آتے۔کچھ دیر ٹھہرتے،جب اَندھیرا دیکھتے اَور اس نیم اَندھیرے میں کیلا ش بچوں اَور بچیوں کو دیکھتے تو واپس چلے جاتے۔کچھ سرپکڑ کر بیٹھ جاتے۔کیوں کہ وہ ایک بھرپور میلہ دیکھنے آے تھے۔جہاں کیلاشا قبیلے کے نوجوان لڑکے اَور لڑکیاں ناچ رہے ہوں گے۔اَور لڑکیاں ساتھ انھیں بھی ناچنے دیں گی۔
شیر حسن نے کہا تھا۔سر جی! جو کچھ ےُو ٹیوب اَور انٹر نیٹ پر کیلاش کے متعلق چلتا ہے،و ہ سب سچ نہیں ہے۔جھوٹ ہے۔یہاں کے متعلق جعلی ویڈیو زبنا کر انٹر نیٹ پر چڑھائی جاتی ہیں۔پھر لوگ اِن ویڈیو ز کو دیکھ کر وہی تصورلیے دَوڑے چلے آتے ہیں۔
ڈھول مسلسل بج رہا تھا۔نیم دائرے میں کیلاشا بچے اَور بچیاں کچھ گا رہے تھے۔لڑکیاں آگے بڑھتیں کچھ کہتی،جواباً لڑکے ایک دوسرے کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھتے،اَور کچھ کہتے۔ڈھول بجانے والا شاید تھک گیا تھا۔اس کی جگہ ایک دوسرے نوجوان نے لے لی۔ہر کیلاشی ڈھول بجانے کے فن میں یکتا ہے۔اَندھیرے میں ماحول کی اَجنبیت برقرار تھی۔پہلے یہ میلے بھرپور روشنیوں میں ہوا کرتے تھے۔اَب کیلاشا میلے بھی سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔اِنھیں کسی انجانے خوف نے گھیر رکھا ہے۔
مَیں نے ایک لڑکے کو آواز دی تو اس نے منھ دوسری طرف پھیر لیا۔ایک دوسرا لڑکا جو دیکھ رہا تھا،اس نے اُس کے کان میں کچھ کہا تب وہ قریب آیا۔مَیں نے کہا میلے کے منتظم،جو آپ کے بڑے ہیں اُن سے ملوا دیجیے۔اُس نے نفی میں سر ہلایا جیسے کہہ رہا ہو ناممکن۔مَیں نے تھوڑا زور دیا تو پھر اسی طرح سر نفی میں ہلایا اَور واپس اپنی جگہ پر جاکر کھڑاہو گیا۔میلے میں جوش نہیں تھا۔بچوں کی ٹولیاں اس میں حصہ لے رہی تھیں۔بچیاں خصوصاً سر سے پاؤں تک کیلاشا لباس میں ملبوس تھیں۔بچے سر پر گول اُونی ٹوپی اَوڑھے ہوے تھے۔
شیر حسن سے ملنے کے بعد جب ہم برون کی طرف آرہے تھے تو ایک نیلی آنکھوں والی پیاری سی بچی نے مجھے سلام کہاتھا۔کچھ دیرٹھہر کر مجھے دیکھا۔جیسے مجھے ٹٹولنے کی کوشش کررہی ہو۔پھر آگے چل دی۔رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے بچے اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں یعنی ان کی فطرت میں ہی سلامتی اَور امن ہے۔بچوں کے چہروں میں خدا کا چہرہ ہوتاہے۔چاہے وہ کیلاشا ہوں یا دنیا کے کسی اَور خطے کے بچے ہوں۔
یہ بچے جو ایک دوسرے کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کے سامنے قطار میں آگے پیچھے رقص کر رہے تھے،معصوم تھے۔مجھ سمیت یہ سب لوگ، جوکیلاش تھے،سےّاح تھے اَور جومیرے دوست تھے،ان میں سے کوئی بھی اَپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا۔نہ کسی کو اختیار ملا کہ تم توحید پرست کاگھر چنو گے یا پھیر کسی بت پرست کا۔؟فطرت کے جبرکے سامنے سب مجبورہیں۔ڈھول کی تھاپ پرآگے پیچھے جھولتی اِس ننھی دنیا کو،اَپنی خوشیوں میں مگن چھوڑ کر ہم نے واپسی کی راہ لی۔
رات اَپنے نصف سفر کے قریب قریب تھی۔مگربمبوریت کاچھوٹا سابازار،اِس کے چاے خانے،اَورپتھر فروش اَبھی جاگ رہے تھے۔پانی سڑک کے دونوں کناروں سے سازبجاتا گزر رہا تھا۔دیار کی لکڑی کے بنے ان ہوٹلوں میں ابھی تک چاے پک رہی تھی۔دیسی ساخت کی وائرنگ سے لٹکتے ہوئے بلب روشن تھے۔بعض دکانیں پانی کی نالیوں کے اُوپر بنی ہوئی ہیں۔ پانی بلادقت ہوٹلوں اَوران دکانوں کے نیچے بہتا رہتا ہے۔
کیلاشیوں کی موت اورہماری عید،تباہی:
ہمارے آتے ہی کھانا چُن دِیا گیا۔سلام ُالدین صاحب نے پھر سے ہمارا استقبال کیااَور پوچھا کیسا لگا۔؟ہم نے بتایا یہاں وہ گہماگہمی نظر نہیں آرہی جس کا چرچا ہے۔بولے اَب حالات نہیں رہے یہ لوگ گھبرا رہے ہیں۔سلام الدین اَور ہم اِسی میز پر بیٹھ گئے۔جہاں پہلے بیٹھے تھے۔وہ پھر سے ہمیں کیلاش لوگوں کی زندگی کے بارے میں بتانے پہ تلے تھے اَور ہم سننے پر۔ایک کیلاش کی موت پر دس سے پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔اس کی تفصیل شیر حسن نے بیان کردی تھی۔مگر سلام الدین صاحب سے پھر سننے لگے۔ سننے میں مزا آرہا تھا۔ کہنے لگے ہمارے ایک بزرگ تھے شیر عالم صاحب اَب فوت ہو گئے ہیں۔اِن کا ایک مقولہ ہے سنیے۔
؎
کیلاشیوں کی فوتگی تباہی
مسلمانوں کی عید تباہی
مقولہ کیا تھا اچھا خاصا شعر تھا۔ہم نے پوچھا ایک غریب کیلاش گھرانہ فوتگی پر اتنی مہنگی رسومات کیسے ادا کرتا ہے۔؟بولے ان لوگوں نے بھی فلاحی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔مل جل کر کام چلا لیتے ہیں۔ہمارے ایک دوست قیوم امام ساقی صاحب ؔ کاشعر، شیر عالم صاحب کی طرح کاایساہی نشتریہ شعر ہے۔ ؎
کر ے جو چاق میری غربت کاراز
ایسے تہوار کو میں ساقی عید کہہ نہیں سکتا
کیلاشیوں کادفنانے کا طریقہ:
سلام الدین صاحب کا اگلا موضوع تھا،کہ کیلاش لوگ اَپنے مردوں کوکیسے دفناتے ہیں۔کیلاش اپنے مُردوں کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈال کر کھُلی جگہ چھوڑ آتے تھے۔اَب انھوں نے یہ طریقہ چھوڑ دیا ہے۔اَب قبر میں دفناتے ہیں۔مُر د ے کے دائیں بائیں ایک ایک تختہ رکھتے ہیں پھر اسی طرح پائنتی و سرہانے کی طرف بھی ایک ایک تختہ رکھتے ہیں۔ساتھ مُردے کا سارا سامان بھی رکھا جاتا ہے۔جیسے بندوق یا اس جیسی کوئی اَور چیز۔تاکہ جب متوفیٰ کو بھوک ستائے تو وہ شکار کرکے کھائے۔بندوق کے علاوہ اَور بھی قیمتی اشیا ہوتی ہیں۔اِن کے عقیدے کے مطابق مُردہ یہ چیزیں استعمال کرتا ہے۔
کیلاش لوگوں کا یہ عقیدہ نیا نہیں ہے۔فراعنہ مصر بھی اپنے مُردوں کے لیے بڑے بڑے خفیہ ہال زیرزمیں تعمیر کرتے تھے۔اَور سارا سامان مُردے کے ساتھ دفن کردیتے تھے۔ملکہ پوامی کی قبر سے ملنے والا سُونا اتنا ہے کہ اس سے ایک جیولری کی چھوٹی مارکیٹ سجائی جاسکتی ہے۔
مگر کیلاشا اَب اَیسانہیں کرتے۔وہ دفناتے ہیں۔اَور بندوق کی جگہ غلیل رکھ دیتے ہیں،بندوق سے پہلے تلوار رکھنے کا رواج تھا۔کیاتلوار سے پہلے بھی کوئی رواج تھا۔؟کیا ہندوکُش کی اِن خوب صورت وادیوں میں،اَورکیا یہاں سے کچھ فاصلے پر،ڈیورنڈ لائن کے ِاس طرف بسنے والے کیلاش، تلوار سے پہلے کے دَورمیں موجود تھے۔؟سلام الدین اِن سوالا ت کا کیا جواب دیتے۔؟کیلاش میں کوئی بھی ان سوالات کا جواب نہیں دے پائے گا۔وہ صرف معنی خیز مسکراہٹ لبوں پر لائے،سگریٹ کا کش لیا دُھواں چھوڑا اَور بولے یہ طریقہ اس لیے بدلا کے لاشوں کی بے حرمتی ہونے لگی تھی۔سامان چوری ہونے لگا تھا۔یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ لاشوں کی بے حرمتی کون کرتاہے۔؟اَور سامان کی چوری کون۔؟ شیرحسن نے دریاے بمبوریت کے کنارے بتا دیا تھاکہ کیلاشا خود اَیسانہیں کرتے۔تو پھر کون کرتاہے۔؟ اَیسی ہی معنی خیز مسکراہٹ لیے شیر حسن نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا تھا۔
شب ڈھول اور ٹڈیوں کاساز:
رات کافی گزر چکی تھی۔ڈھول مسلسل بج رہا تھا۔بجانے والا اس کے زیروبم سے پوری طرح واقف تھا۔وادی اس کی دھمک اَور گمک سے گونج رہی تھی۔کسی شور یاصوتی بدنظمی کااحساس تک نہیں تھا۔اس میں تال تھا،آہنگ تھااَور فن کارانہ مہارت تھی۔
ہمارے اردگرد سےّاحوں کی ملی جلی آوازیں تھیں۔شاہد حفیظ باغ میں چہل قدمی کررہے تھے۔ہمارے گرداگرد،شب نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔سیاہ رات کی حکمرانی بڑھ رہی تھی۔جیسے جیسے وقت بڑھ رہا تھا۔نالا گول (دریا ے بمبوریت)کے پانیوں کی ٹھنڈی گونج تھی۔ٹڈیوں کا ساز تھا۔بُلند قامت سفیدے،سفید تنوں کے ساتھ ایستادہ تھے۔
سیبوں کے درخت پھلوں کے بوجھ سے لدے،جھکے جارہے تھے۔پھل اَور سفیدے کے تنے مصنوعی روشنی میں چمک رہے تھے۔تاروں کا آسمان جھلمل کررہا تھاان جھلملاتے تاروں کے بہت نیچے ننھی ننھی چمگادڑیں پھر رہی تھیں۔عرفان اشرف کو کاکولا کی بوتل خالی کرچکے تھے۔کھانا ہم نے کب کا کھا لیا تھا۔
دھیمی گفتگو جاری تھی۔درمیان میں کوئی قہقہہ نکل جاتا۔عرفان اشرف دل کھول کر ہنس رہے تھے۔شاہدحفیط انھیں ہنسانے کی ذمہ داری پر معمور لگ رہے تھے۔وقاص جمیل اَور منصور اسماعیل خاموش تھے۔وقت کافی ہو چکا تھا۔ ڈھول ابھی تک بج رہا تھا۔سلام الدین برتن لے جاچکے تھے۔ہم اٹھے اَور کمروں میں آکر سو گئے۔
صبح،نماز اور ناشتا:
صبح نماز کے لیے سب سے پہلے منصور اسماعیل جاگے،پھر رفتہ رفتہ باقی لوگ۔نماز باجماعت پڑھی گئی۔کچھ دیر کے لیے پھر آسودہ بستر ہوگئے۔یہاں کی سویر،شفاف تھی۔آسمان شفاف،شفاف دھوپ اور شفاف پانی کی شفاف آوازیں۔ہریالی،سیب،ناشپاتیاں،بگوگوشے،انگوروں کی بیلیں ان میں سے لٹکتے گچھے،ان پر بیٹھے پنچھی۔ہم نے اس شفاف ماحول میں ناشتا کیا۔ناشتا پرتکلف تھا مگر ہممیں سے کوئی تکلف کے لیے تیا رنہ تھا۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply