• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میرے حضور کی سنتیں اور موجودہ دور کے مسائل۔۔۔محمد یاسر لاہوری

میرے حضور کی سنتیں اور موجودہ دور کے مسائل۔۔۔محمد یاسر لاہوری

اس کائنات کی سب سے پرانی چیز جسے انسان نے ابھی تک کھوجا ہے، وہ چیز وقت ہے۔ جو کچھ بھی وقت سے پہلے تھا یا وقت سے باہر ہے، اسے ہم نہیں جان سکتے۔ اسی “وقت” کی تجربہ کار پرانی آنکھ نے ایسے مناظر کبھی نہیں دیکھے ہوں گے اور نہ ہی فناءِ دنیا تک ایسے مناظر اس آنکھ کو دوبارہ کبھی دیکھنے کو ملیں گے۔ کیسے مناظر؟ میں کن مناظر کی بات کر رہا ہوں؟ ابھی اس وقت میرے دل پر محبت و عشق کے راز جیسے الہام کی صورت اُتر رہے ہیں۔ میرے دل و دماغ کی گناہگار نگاہیں ماضی بعید میں گزرے کچھ واقعاتِ قُدسیہ کو عالمِ سکوت میں تلاش کر رہی ہیں۔

میری انگلیاں موبائل کی سکرین پر ٹک ٹک کے ساتھ ایک پاکیزہ تحریر کو ٹائپ کر رہی ہیں، اور بے اختیار کرتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ میرے دل و دماغ کی پوشیدہ نگاہیں آج سے چودہ صدیاں قبل مدینہ و مکہ کے اندر برپا ہوئے کچھ حسین مناظر پر توجہ کیے ہوئے ہیں۔ ذہن کے تمام گوشوں میں عرب کے صحرا میں بسی ایک بستی کے کچھ مناظر چل رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا منظر اپنے احساس سے ہی مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کرتا چلا جا رہا ہے۔

اس منظر میں مجھے کچھ دیوانوں اور مستانوں کا ایک ہجوم نظر آ رہا ہے۔ یہ سب کے سب پروانوں کی طرح ایک شخص کے ارد گرد جمع ہیں، گویا کہ کسی شمع کے گرد اس پر فدا ہونے والے پروانے جمع ہوں۔ وہ شخص ایک بال تراش سے اپنے سر کے بڑھے ہوئے بال اتروا رہا ہے۔ اس شخص کے ارد گرد یہ لوگ گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، اس شخص کے سر سے کٹ کر نیچے کی جانب آنے والے کسی بھی بال کو زمین چوم سکے، ایسا کرنا زمین کے نصیب میں نہیں  ہے۔

بال تراشنے والے (حجام) کا اُسترا بالوں پر بعد میں چلتا ہے کہ نیچے اس شخص کے دیوانے اپنے اپنے ہاتھ کیے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ کٹ کر نیچے آنے والے یہ نفیس، پاکیزہ اور نایاب بال زیادہ زیادہ اس کے حصے میں آئیں۔اس خوبصورت منظر میں موجود وہ شخص “محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم” ہیں۔ ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے یہ سب کے سب میرے حضور علیہ السلام کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب اپنے آقا کے بالوں کو نیچے نہیں گرنے دینا چاہتے۔ بلکہ سنبھال لینا چاہتے ہیں، کسی قیمتی خزانے کی طرح (صحیح مسلم)

آپ میرے ساتھ ساتھ آئیں۔ ایک اور حسین و عجیب منظر ہمارا منتظر ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک وفادار غلام انس رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ ان کا گھر ہے، غلامِ رسول انس رضی اللہ عنہ گھر میں ہی موجود ہیں۔ آقا علیہ السلام ان کے گھر آئے اور لیٹ کر آرام فرما رہے ہیں۔

نبی اکرم علیہ السلام کی آنکھ لگ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک و بابرکت جسمِ اطہر سے پسینہ بہنے لگا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی ماں ایک شیشی اٹھا لائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کے قطروں کو پونچھ پونچھ کر شیشی میں بند کرنے لگی ہے۔ اور اتنے میں آقا کی آنکھ کھل گئی ہے۔ گویا ہوئے:
اے امِ سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟

عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا پسینہ ہے۔ آپ کا پسینہ ہم خوشبو میں شامل کرتے ہیں، لیکن آپ کا پسینہ بذات خود تمام خوشبوؤں میں سے سب سے عمدہ خوشبو ہے”

اس ہستی کے کیا کہنے کہ جس کے پسینے تک کو خالق نے خوشبو بنا دیا۔ اس ہستی کے ان جانثاروں کے کیا کہنے کہ جو اس ہستی کے پسینے کے قطروں تک کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے (صحیح مسلم)

یہ تو تھی میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور ان کے حلقہ احباب میں ان کی عزت و تکریم۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک اور چیز بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لے کر آئے، اس تعلیم کو اپنا کر اہل عرب اس دنیا کی مقدس ترین قوم بن گئے۔ اس تعلیم کو ہم شریعت کہہ لیں، اسلامی احکامات کہہ لیں یا “سُنتِ نبوی” صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لیں ایک ہی بات ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کر کے کیا کیا انقلابات برپا ہوئے؟ اس کی چند ایک جھلکیاں اگلی سطور میں۔

میں نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھروں کا اجڑنا دیکھا ہے۔ میں نے بیوی کو ایک بے بس ریاعا کی طرح اور شوہر کو اس پر ہٹلر کے جیسا ایک ظالم حکمران بنتے بھی دیکھا ہے، گویا شوہر کو نکاح نامہ کی صورت میں عورت پر ظلم و جبر کرنے کی اجازت مل گئی ہو۔ میں نے بیمار اور تکلیف میں مبتلا بیوی سے اپنا حقِ زوجیت زبردستی وصول کرتے بھی دیکھا ہے۔ اولاد کی ہر ایک غلطی کی وجہ ماں کو قرار دے کر شوہر کا اپنی بیوی کو گندی گالیاں دیتے بھی میں نے دیکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ انسانیت کے حقوق ہم کیوں تلف کرنے لگے؟ کیوں کہ ہم جس ہستی کا کلمہ پڑھتے ہیں، اس کی سنتوں کو پسِ  پشت ڈال کر جی رہے ہیں۔

اس تناظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں دیکھیے کہ اس پاک ہستی کا اپنی بیویوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات گھر آتے تو آہستہ آوز میں سلام کرتے، مگر کیوں؟ اس نیت سے کہ اگر بیوی جاگ رہی ہوئی تو جواب دے دے گی اور اگر سو چکی ہے تو اس کی نیند خراب نہیں ہو گی۔ ایک یہ بھی سنت تھی کہ اگر کوئی کام وقت پر نہ  ہوتا تو اپنی بیوی کو بے عزت نہیں کرتے تھے، ماتھے پر بل ڈال کر تیوریاں چڑھا کر بیوی کو ڈراتے دھمکاتے نہیں تھے۔ بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔ بیویوں کے دکھ درد اور خوشی میں برابر شریک ہونا بھی میرے حضور کی سنت تھی۔

میں نے جیلوں میں پڑے قیدیوں کا بُرا حال ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے پولیس کو مجرموں کے ناخنوں میں پلاس ڈال کر ناخن کھینچتے بھی دیکھا ہے۔ میں نے پولیس کو قیدیوں پر ظلم و ستم اور تشدد کر کر کے ان قیدیوں کو قتل کرتے بھی دیکھا ہے۔ میں نے نہتے شہریوں کو پولیس کے ہاتھوں درندوں کی طرح قتل ہوتے بھی دیکھا ہے۔ یہ سب کیوں ہے؟ کیا ہم مسلمان ہیں؟ اس بات کا جواب میں نہیں دوں گا نہ  ہی میں فتوے لگانا چاہتا ہوں، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم حضور علیہ السلام کے اسوہ اور سنتوں سے دور ہو کر انسانیت کے مقام سے بہت نیچے گر چکے ہیں” قیدیوں کے ساتھ میرے حضور کا کیسا رویہ تھا؟ یہ جاننے سے پہلے دل احساسات و جذبات کو بے لگام کر دیجیے تا کہ اندر کا غبار آنسوؤں میں بہہ جائے۔

جنگ بدر میں 72 باغیانِ اسلام بطور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ میرے حضور علیہ السلام نے مختلف صحابہ کرام کو دو دو چار چار قیدی دے کر کہا کہ ان کا خیال رکھنا۔ ان میں سے ایک قیدی نے بیان کیا تھا کہ “مجھے جس انصاری صحابی کے حوالے کیا گیا تھا وہ جب کھانا لاتے تو کھانا کم ہونے کی وجہ سے روٹی مجھے دے دیتے اور خود کھجوریں کھا کر گزارا کرتے، مجھے شرم آتی اور میں روٹی واپس کرنا چاہتا تو مجھے وہ انصاری صحابی کہتے کہ نہیں ہمیں ہمارے حضور نے کہا ہے کہ ان قیدیوں کے ساتھ مہمانوں جیسا برتاؤ کرنا”
(سیرت ابن ہشام)

قیدیوں کے ساتھ اگر آپ اچھا سلوک کرنے کے خواہش مند ہیں تو میرے حضور علیہ السلام کی اس تناظر میں بھی سنتیں موجود ہیں۔

میں نے غیر ملکیوں کو پاکستان کے متعلق برے خیالات کا اظہار کرتے دیکھا ہے۔ میں نے فارن کنٹریز کی اقوام کو اس ارضِ پاک کی طرف آتے ڈر اور خوف کی وجہ سے جھنجلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ میں نے اپنے پاکستانیوں کو دوسرے ملکوں میں پاکستانی ہونے کا طعنہ سنتے بھی دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے خود پاکستانیوں کو پاکستان سے بیزار ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ زمین ایسی ہے؟ کیا یہ خطہ ہی برا ہے؟ نہیں، بلکہ اس خطے پر ستر برسوں سے آنے والے حکمران میرے حضور کی سنتوں سے بیزار رہے ہیں۔ ایک حکمران کے لیے بھی میرے حضور علیہ السلام کی سنتیں موجود ہیں۔

جب آقا علیہ السلام نے اپنی ذات کو عملی نمونے کے طور پر پیش کیا تو پتہ ہے اس وقت کے غیر مسلم اور غیر ملکی (غیر عربی) لوگوں کا کیا رد عمل تھا؟ یہودی اور عیسائی خود خواہش کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی رعایا میں شامل کر لیں (بخاری)
میرے حضور علیہ السلام کا حکومت کرنے کا طریقہ دیکھ کر روم (اٹلی) کا قیصر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ “اگر یہ سچ ہے تو پھر میرے قدموں تلے جو زمین ہے اس پر بھی اس (نبی) کا قبضہ ہو جائے گا” (صحیح بخاری)

Advertisements
julia rana solicitors

میرے حضور علیہ السلام کی سنتوں کا مقابلہ آج کی جدید دنیا کا کوئی بھی قانون و آئین کبھی نہیں کر سکتا۔ ان سنتوں کے چشمہ آب سے بنجر دلوں کی جڑ سے کٹی کھیتیوں کو پھر سے سراب کیا جا سکتا ہے۔ ان سنتوں پر عمل کرنے سے ہماری زندگیوں میں آئی خزاں کو پھر سے بہار میں بدلا جا سکتا ہے۔ کوئی اپنا کر تو دیکھے، میرے حضور علیہ السلام کی ایک ایک سنت آج کے دور میں برپا ہوئی ہر پریشانی و مسئلے کا حل ہے۔

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply