تبدیلی کا سفر، کنٹینر سے کارڈیالوجی تک۔۔ثوبیہ عباس

تبدیلی کے سفر کا شروع سے اب تک مشاہدہ کیا جائے تو زندگی کے منفی رخ، غصہ، نفرت، گالم گلوچ پوری شدت سے محسوس ہوتے ہیں او نواز شریف، سارا ٹبر چور ہے، فلاں لٹیرا، فلاں چور جیسے جملوں نے یوتھ کو ہی نہیں اچھے خاصے باشعور افراد کو بھی متاثر کیا اور سب کو یہ ہی محسوس ہونے لگا کہ اس  ملک کو ایک اچھی سچی قیادت میسر آ چکی ہے، بس اب ان چوروں ڈاکوؤں کو اٹھا کر پھنک دینا چاہیے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ایماندار قیادت نے جب پی ٹی وی پر حملہ کیا تو مقتدر اداروں اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی سنجیدگی سے اس پر کوئی  ایکشن نہیں لیا، تبدیلی کا سفر الزامات کی سواری پر رواں دواں رہا یہاں تک کہ الیکشن کا  زمانہ آ گیا۔ نفرت انگیز تقریریں اپنے عروج پر پہنچ گئیں ،یہ سفر یہاں نہیں رکا، اور کسی دانشور، کسی مفکر کو احساس تک نہیں ہوا کہ قوم ان نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ پٹواری وہ یوتھیا، ہر شخص اب اسی پیمانے سے تولا جانے لگا، پھرتبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ گئی،کراچی میں ریحان کو عوام نے خود مار ڈالا کیونکہ وہ چور تھا ادھر پولیس نے صلاح الدین کو مار کر ٹھکانے لگا دیا ،قانون کو زحمت دینے کی ضرورت گوارا نہیں کی۔۔ جب وزیر اعظم یوتھ سے مخاطب ہوتے ہیں تو یہ سوچ لینا چاہیے کہ اسکے مثبت اور منفی اثرات کیا ہونگے ایک ایسے ذہن پر جو مہنگای کا ستایا ہے بیروزگاری سے تنگ ہے ڈاکٹر وکیل، ٹیچر، پٹواری سب اپنے حقوق کے لیے احتجاج اور دھرنوں پر کمر بستہ ہیں ان کو یہ راہ کس نے دکھائی؟

ایک جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مسلح جتھے کی پیٹھ تھپتھپانے والا کون تھا؟ یہ تو خیر کل کی بات ہوئی آج کی بات تو سب سے بڑھ کر ہے، ڈاکٹر اور وکیل معاشرے کے دو اہم ستون، دو معزز پیشے کس سازش، کے تحت ان کو لڑایا گیا یہ جھگڑا نہ سنی شیعہ  کا تھا، نہ مسلم اور غیر مسلم کا، یہاں سب اپنے تھے اور دونوں نے اپنوں پر ہی ستم کیا اپنے مسلمان مریض بھائی  کو موت سے ہمکنار کیا، اپنے اس بھائی کی کار کو تباہ کر دیا جو اس نے بڑی مشکل سے کمیٹیاں ڈال کر خریدی ہو گی سو خواہشات کو نظر انداز کیا ہو گا تب یہ گاڑی خریدی ہو گی، آخر ایسا کیا ہوا جو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ انسانیت کے درجے سے بھی نیچے گر گئے، ہم مسلمان تو اس نبی کی امت سے ہیں جن کو درخت کو نقصان پہنچانے سے بھی منع کیا گیا ہے کجا یہ کہ ہم جاں بلب مریضوں کے منہ سے آکسیجن ماسک بھی اتار کر انہیں مرنے چھوڑ دیں، کیا نفرت کا  زہر ہماری نس نس میں نہیں اُتر چکا کہ ہم یوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہمیں سنجیدگی سے اپنے درمیان چھپے اس دشمن کو پہچاننا ہو گا یوتھیا، پٹواری کی اس نام نہاد سوچ سے باہر آنا ہو گا ورنہ یہ آگ جو دو معزز کرداروں سے بھڑکی ہے کل کو آپکا یا ہمارا نشیمن بھی خاکستر کر سکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply