وکلاء کی غنڈہ گردی اور پولیس، میڈیا و ریاست کی مجرمانہ خاموشی ۔۔۔ مکالمہ خصوصی

(مکالمہ خصوصی)

مصدقہ اطلاعات کے مطابق پنجاب بھر میں وکلاء کی جانب سے فوج کی بعد ریاست کے اہم ترین سیکیورٹی ادارے پولیس کا داخلہپنجاب بھر کی تمام عدالتوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ بزدار حکومت جس کی اپنی تعیناتی خود بزدار صاحب کے لیے یقیناً حیرانگی کا باعثرہی ہوگی، اس معاملے پر مکمل طور پر خاموش ہے۔ وکلاء کی جانب سے ناصرف ببانگ دہل یہ غیر قانونی بدمعاشی جاری ہے بلکہ کھلےعام بینرز اور آفیشل نوٹفکیشنز کے ذریعے پولیس کونشان عبرتبنانے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

اس ضمن میں مکالمہ کو چند انصاف پسند سرکاری اہلکاروں کی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس کے سینیرترین اہلکار وکلاء کے اس ناجائز اور غیر قانونیحکمکو مان چکے ہیں بلکہ تمام پولیس افسران کو یہ احکامات بھی جاری ہوچکے ہیں کہپنجاب بھر کی عدالتوں میں سرکاری حیثیت یعنی وردی میں داخلے سے گریز کیا جائے۔ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے پر ججز کی جانبسے پولیس اہلکاروں کو منع کیا جا رہا ہے کہ اپنی حفاظت کے پیش نظر سادہ لباس میں بھی عدالت داخلے سے گریز کیا جائے۔

یہاں یہ بات قابل افسوس ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کی جانب سے اس معاملے پر مکمل خاموشی دیکھنے میں آرہی ہے جس کی وجہ وکلاءاور ججز کا بادی النظر میں ایک ہونا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ میڈیا جس کے بارے میں وزیراعظم دنیا بھر میں کہتے پھررہے ہیں کہ آزاد ہے، بھی اس خبر کو یکسر نظرانداز کر کے وکلاء کا خاموش ساتھ دے رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب بھر کی تمام بار کونسلز وکلاء کی اس غنڈہ گردی میں شامل ہیں جن کے ثبوت جگہ جگہ بینرز اور آفیشلسرکلرز کی صورت میں دستیاب ہیں۔

ہفتے کی رات آئی جی پنجاب کی جانب سے بھیجے جانے والے واٹس ایپ پیغام کے تحت تمام پولیس اہلکاران کو احکامات جاری کیےگئے ہیں کہ عدالتوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ لیاقت پور میں بنایا جانے والا یہ بینر جو تیاری کے مرحلے میں بھی موصول ہوا میںوکلاء کی غنڈہ گردی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

وکلاء کی جانب سے غیر قانونی بینر

یہی بینر بعد ازاں لیاقت پور ایوان عدل پر عدلیہ کے شلوار کے لٹکتے ہوئے کمر بند کی طرح لٹکا دیا گیا جو ہر آتے جاتے فرد کو عدل کیاوقات کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے۔

اسی طرح کامونکی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے نکالا جانے والا یہ نوٹس عوام الناس کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

کامونکی وکلاء نوٹیفیکیشن

رحیم یار خان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے نکالا جانے والا یہ سرکلر اس صورت میں وکلاء کے عزائم واضح کرتا ہےجہاں ایک جانب پنجاب بھر میں پولیس کا عدالت کے احاطے میں داخل ہونا ممنوع ہے جبکہ دوسری جانب ڈاکٹرز کو پابند کیا جا رہاہے کہ وہ عدالت میں اپنے مقدمات کے سلسلے میں پیش ہوں جہاں ان کیخاطر مدارتکےبہترینانتظامات پولیس کی غیرموجودگی میں کیے جائیں گے۔

رحیم یار خان وکلاء سرکلر

ضلع چنیوٹ پولیس سٹیشن کی جانب سے ہیڈ محرر کی جانب سے جاری کردہ یہ نوٹیفیکیشن پولیس کے سینیر افسران کی جانب سے وکلاءکی اس غنڈہ گردی پر سر تسلیم خم کر دینے کے مترادف سمجھا جانا چاہئے۔ یاد رہے کہ ہیڈ محرر ضلعی سطح پر احکامات کی نوٹیفیکیشنجاری کرتا ہے۔ ضلع چنیوٹ کی طرح پنجاب بھر کے باقی اضلاع میں یہی سرکلر ضلعی سطح پر جاری کیا گیا ہے۔

پولیس سرکلر ضلع چنیوٹ

پنجاب بار کونسل کی جانب سے یہی ناجائزحکمذیل میں پیش کیے جانے والے سرکلر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاقانونیتکی انتہاء یہ ہے کہ سیکرٹری پنجاب بار کونسل کے دستخط کردہ اس نوٹیفیکیشن میں بار کے ممبران کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ پولیس کےعدالتی احاطے میں داخلے پر بین کے اس ناجائز فیصلے پرپوری تندہی سے عمل درآمد کرنے کے ذمہ داربھی ہوں گے۔ یعنی ابان غیر قانونی احکامات کا نفاذ ریاستی پولیس ہی کے خلاف کیا جائے گا۔

پنجاب بار کونسل نوٹیفیکیشن

بار ایسوسی ایشن میاں چنوں کی جانب سے لگایا جانے والا یہ بینر بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا کے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہیہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے جس کا اطلاق منظم طریقے سے پنجاب بھر میں پولیس اور سرکاری عدلیہ کو آن بورڈ لے کر کیا جا رہاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارہ مکالمہ اس موقع پر وزیراعظم پاکستان کو ان کے دیگر کئی وعدوں کی طرح اداروں کو مضبوط کرنے کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے یہاپیل کرتا ہے کہ پولیس داخلی سطح پر اہم ترین ادارہ ہے لہذا اس کی منظم تباہی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اسے مضبوط کرنےمیں اپنا کردار ادا کریں۔ پولیس کی عدم موجودگی میں وکلاء کی جانب سے یہ غنڈہ گردی ناصرف کھلی بدمعاشی ہے بلکہ انصاف کی فراہمیکے اہم ترین ستون کے ٹیڑھے پن کا واضح اشارہ بھی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply