ماضی کی طرف دوڑتے گردش ایام۔۔نصرت جاوید

ہمارے ریگولر اورسوشل میڈیا میں اس وقت وکلاء بحیثیت مجموعی اس ملک میں تمام خرابیوں کے ذمہ دار ٹھہرائے جارہے ہیں۔’’وکلاء گردی‘‘ کو بے نقاب کرنے کیلئے وڈیوز کا طوفان ہے۔یہ بات اگرچہ طے نہیں ہوپارہی تھی کہ حسان نیازی نام کا ایک نوجوان وکیل ابھی تک گرفتار نہیںہوپایا تو اس کی ’’طاقت کا سرچشمہ‘‘ اس کے ’’والد‘‘ کو قرار دیا جائے یا اس کے ’’ماموں‘‘ کو۔

دل کے مریضوں کیلئے جدید ترین سہولتوں سے لیس ہسپتال پر جس انداز میں حملہ ہوا اس کی شدید ترین مذمت ہر صاحبِ دل پر لازم ہے۔ یہ حقیقت بھی عیاں کہ غضب ناک ہوئے وکلاء کے گروہ نے وحشی جانوروں کے غول کے مانند اپنے ’’دشمن‘‘ کو بھنبھوڑنے کی کوشش کی۔لاہور واقعہ سے متعلق مگر اہم ترین سوالات ریاست کے تصور اور انتظامیہ کی ذمہ داری کے بارے میں بھی اٹھائے جانا چاہیے تھے۔

یہ سوالات مگر اٹھائے نہیں جارہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ انتہائی اطمینان واعتماد سے ابھی تک اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مدارالمہام ہیں۔اسلام آباد سے حال ہی میں ’’خالصتاََ میرٹ‘‘ کی بنیاد پر بھیجے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ’’گڈ گورننس‘‘ کو یقینی بنانے کیلئے پے در پے ہوئے اجلاسوں کی صدارت میں مصروف ہیں۔فیاض الحسن چوہان صاحب کی خوش گفتاری کے ذریعے ہمارے زخموں پر مرہم رکھے جارہے ہیں۔امید ہے چند دنوں بعد ہم لاہور واقعہ کی وجہ سے اٹھے سوالات کو بھول کر روزمرہّ زندگی کے معمولات میں مصروف ہوجائیں گے۔

یہ کالم چھپنے کے دن یا اس کے ایک روز بعد سپریم کورٹ سے ’’تفصیلی فیصلہ‘‘ بھی آجائے گا۔اس فیصلے کی جزئیات پر کھلے ذہن سے غور کے بعد چند اہم ترین سوالات اٹھانا بھی ضروری ہوگا تاکہ وطنِ عزیز میں ایک طاقت ور ترین عہدہ شمار ہوتے منصب پر تعیناتی کے بارے میں طویل المدتی بنیادوں پر کوئی مدلل رائے بنائی جاسکے۔اس حوالے سے مگر مجھے یقین ہے کہ میڈیا میں مباحثے سے گریز کیا جائے گا۔معاملہ کی ’’حساسیت‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے۔ یہ فرض کرلیا جائے گا کہ ہمارے حکمران طبقات اپنے تئیں کوئی مناسب راہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ عام آدمی کو ویسے بھی اپنی اوقات میں رہتے ہوئے ڈنگ ٹپانے کو ترجیح دینا چاہیے۔

’’تاریخ‘‘ مگر ان دنوں پاکستان ہی میں نہیں دُنیا کے کئی ممالک میں ہیجان آمیز انداز میں بنائی جارہی ہے۔مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو دُنیا کی وسیع ترین جیل میں تبدیل کرنے کے بعد اپنے ملک میں اب ’’شہریت‘‘ کے حوالے سے ایک نیا قانون متعارف کروادیا ہے۔ فوری مقصد اس قانون کا بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں آباد بنگلہ دیش اور برما سے آئے مسلمانوں کو ’’غیرقانونی تارکین وطن‘‘ ٹھہرائے ہوئے کیمپوں میں محصور کرنے کے بعد ان کے آبائی ممالک بھیجنے کو مجبور کرنا ہے۔حتمی مقصد اگرچہ صدیوں سے بھارت میں آباد مسلمانوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ 1947میں دوقومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کے بعد انہیں ہندو اکثریت کے حامل ملک میں برابر کے شہری ہونے کا ’’حق‘‘ برقرار نہیں رہا۔انہیں اکثریت کی ترجیحات کے مطابق بنائے ’’قوانین‘‘ کااتباع کرنا ہوگا۔شادی یا جائیداد کی وراثت کے حوالے سے اپنے لئے ’’جداگانہ‘‘ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب برتنا ہوگا۔

’’سیکولر‘‘ بھارت کی لوک سبھا میں فقط 80اراکین نے شہریت والے قانون کی مخالفت میں ووٹ ڈالا تھا۔اس کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کی تعداد 311تھی۔قانون ساز ادارے میں بے پناہ اکثریت سے پاس ہوئے قانون نے مگر آسام کے بعد بھارتی بنگال میں بھی نفرت کی آگ بھڑکادی ہے۔جاپان کے وزیر اعظم کو بھارتی وزیر اعظم سے آسام کے شہر میں ملاقات کرنا تھی۔اس ملاقات کے ذریعے بھارت نے خود کو ’’مشرقی ایشیائ‘‘ کی اہم قوت دکھاکر ویت نام،آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر چین کے سائوتھ چائناسے جڑے سمندر کے ذریعے ہوئی تجارت پر اجارے کو چیلنج کرنا تھا۔

آسام کے ہنگاموں کی وجہ سے جاپان کے وزیر اعظم کو مگر اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ بنگلہ دیش میں ان دنوںحسینہ واجد کی حکومت ہے۔وہ دل وجان سے بھارت نواز ہے۔اپنے وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات کو لیکن وہ طے شدہ دوروں کیلئے بھارت جانے سے روکنے کو مجبور ہوئی۔ ’’ہندوتوا‘‘ کے مقابلے میں ’’بنگالی قوم پرستی‘‘ ایک نئی صورت میں نمایاں ہورہی ہے۔ کبھی کبھار یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت پر ابتری اور خلفشار کی ویسی ہی صورتیں نازل ہورہی ہیں جو آج سے چار سو سال قبل مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد رونما ہوئی تھیں۔

سمندر پار سے آئی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی بنیادی طورپر ’’امن وامان‘‘ یقینی بنانے کے بہانے پہلے مدراس اور بعدازاں بنگال کو اپنا مرکز بناتے ہوئے بالآخر افغانستان کی سرحدوں کو ’’چھوتی برٹش ایمپائر‘‘بنالی تھی۔

ماضی کی اس ایمپائر کا عالم بھی جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ان دنوں انتہائی پریشان کن ہے۔گزرے جمعہ کے روز جو انتخاب ہوا اس کے نتیجے میں بورس جانسن کی قیادت میں برطانیہ کی قدامت پسند جماعت کو 1987کے بعد پارلیمان میں پے پناہ بھاری اکثریت ملی ہے۔جانسن نے یہ انتخاب جیتنے کیلئے فقط Brexitپر کامل عملدرآمد کا نعرہ لگایا۔ ’’روٹی،کپڑا اور مکان‘‘ جیسے تین لفظی نعرے کے علاوہ اس نے تفصیلی تقاریر سے گریز کیا۔صحافیوں سے چھپتا رہا۔نظر بظاہراس کے پاس ایسا کوئی مفصل پروگرام موجود نہیں تھا جس کے ذریعے یورپی یونین سے قطع تعلق کے بعد برطانیہ کی معیشت کو متحرک اور جاندار بنایا جاسکتا ہے۔محض برطانیہ کے قدیمی (گورے) باشندوں کے ان تعصبات کا اثبات کرتا رہا جو جبلی طورپر محسوس کرتے ہیں کہ برطانیہ کے شمالی علاقوں میں کئی دہائیوں سے بند ہوئی فیکٹریاں یورپی یونین سے نکلنے کے بعد کسی نہ کسی صورت دوبارہ چالو ہوجائیں گی۔لوگوں کو روزگار ملے گا۔یورپ اور خاص طورپر ماضی کے کمیونسٹ ممالک یعنی رومانیہ اور پولینڈ وغیرہ سے آئے ’’دیہاڑی دار‘‘ کم اُجرت لے کر انہیں روزگار کے امکانات سے محروم نہیں کریں گے۔برطانیہ کا Anglo-Saxonتشخص یورپی یونین سے جدا ہونے کے بعد پوری توانائی سے بحال ہوجائے گا۔

محض ’’برطانوی پہچان‘‘ پر فوکس نے “United Kingdom” کے مستقبل کے بارے میںبھی کئی سوالات اٹھادئیے ہیں۔سکاٹ لینڈ کو اپناجداگانہ تشخص یاد آگیا ہے۔آئرلینڈ کو اپنی ’’شناخت‘‘ کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ حتیٰ کہ Walesوالے بھی یہ سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کی زبان ’’انگریزی‘‘ تو نہیں ہے۔

بھارت اور برطانیہ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جو ’’تاریخ‘‘ بنی ہے وہ درحقیقت یہ پیغام دے رہی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگ ریاست کو اب ’’اپنا‘‘ نہیں ’’پرایا‘‘ سمجھتے ہیں۔اس کی شفقت سے محروم ہوئے جبلی طورپر اپنے آبائی ’’قبیلے‘‘ کو دریافت کرتے ہوئے اس کی ابن خلدون کی بتائی ’’عصبیت‘‘ کے غلام ہورہے ہیں۔

بدھ کے روز ہمارے لاہور میں جو واقعہ ہوا اسے میں نے ’’گروہی عصبیت‘‘ کے تناظر ہی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کاوش میں ’’قبائلی سوچ‘‘ کا ذکر بھی کرنا پڑا اور اس کی بنیاد پر بنائے لشکر یا جتھے۔

میرے کئی دوستوں کو مگر یاد ہی نہ رہا کہ 2016میں ٹرمپ کے وائٹ ہائوس پہنچنے کے بعد سے دُنیا بھر میں سماجی معاملات پر غور کرنے والے تواتر سے “Tribalism”کی بات کررہے ہیں۔ان دنوں اس اصطلاح کا مطلب درحقیقت انسانوں کے مابین گروہی تعصبات پر مبنی تفریق ہے۔اس اصطلاح کا اس ’’قبائلی نظام‘‘ سے ہرگز کوئی تعلق نہیں جو ہمارے افغانستان کی سرحد سے جڑے کئی علاقوں میں صدیوں سے قائم رہا ہے۔کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ دورِ حاضر Post Truthعہد بھی پکارا جارہا ہے۔ میں نے اس کا ترجمہ مابعدازحقائق کیا ہے۔اس عہد میں تفصیلات فروعی ہوچکی ہیں۔لوگوں کے دلوںمیں فقط جبلی تعصبات پر مبنی غصہ(Rage)اُبل رہا ہے جو بہت تیزی سے پاکستان ہی کو نہیں دنیا کے کئی ممالک کو ماضی کے اس دور کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں ’’رعایا‘‘ کو ’’شہری‘‘ تصور کرتی ’’ریاست‘‘ معروضِ وجود میں نہیں آئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوائے وقت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply