• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • الیگزینڈر پوشکن اور دسمبری تحریک(بالشویک انقلاب میں ادب کا کردار )۔۔۔دوسرا حصہ/مشتاق علی شان

الیگزینڈر پوشکن اور دسمبری تحریک(بالشویک انقلاب میں ادب کا کردار )۔۔۔دوسرا حصہ/مشتاق علی شان

ادب، ادیب اور انقلاب(بالشویک انقلاب میں ادب کا کردار)۔۔۔۔۔(پہلا حصہ)مشتاق علی شانـ

انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا زار شاہی روس بنیادی طور پر غلام داری سماج سے یادگار ایک ایسی سلطنت تھی جہاں بڑے بڑے جاگیردار اور زمیندار زرعی اراضی کے ساتھ ساتھ اس پر بسنے والے انسانوں ،جانوروں اور تمام مال و اسباب کے مالک تھے ۔ان کے راج میں بسنے والے کمیروں کوشادی بیاہ اور نہ ہی کہیں آنے جانے کی آزادی حاصل تھی۔
یہ غلام رعایا کہلاتی تھی زمین کے ساتھ جن کی خرید وفرخت عام تھی ۔آقا اور غلام کے رشتوں اور اصولوں پر استوار یہ معاشی نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا لیکن زار کی تلوارآسمان کے خود ساختہ نمائندوں کی تائید سے اس کی زندگی کی ضامن بنی ہوئی تھی ۔

اس زمانے کے زار شاہی روس کی تاریخ جبرو تشدد کی دھول سے اٹی ہوئی ہے جس میں خفیہ انقلابی، ادبی وثقافتی تنظیموں کے کارکنوں ،رہنماؤں سے لے کر شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں تک کے خلاف پھانسی گھاٹ ،جیل اور جلاوطنی کی سزائیں  معمول کی باتیں تھیں۔ 1825میں زار الیگزنڈر اول کی موت کے بعد زار نکولس اول پیٹرسبرگ کے تخت پر متمکن ہوا تواس نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر اس آواز کا گلا گھونٹنے کی روش نے اور بھی شدت اختیار کر لی جو خرد افروزی،علم وآزادی،جمہوریت اور انقلاب سے متعلق تھی۔اسی سال دسمبر کے مہینے میں روس کے اشرافیہ طبقے کے انقلابیوں نے مطلق  العنان حکومت اور کسانوں کی غلامی کے انسداد کے لیے بغاوت کی ۔یہ انقلابی ”دسمبری”کہلائے۔

زار شاہی اس تحریک کو خوفناک طریقے سے کچلنے میں کامیاب رہی ۔اس کے بعد اگلے تیس سال تک انقلابی رہنماؤں ،  دانشوروں اورکارکنان کے خلاف سائبیریا کی جلاوطنیوں ،کال کوٹھریوں اور پھانسی گھاٹ کی سزاؤں کا بازار گرم رہا،اس تحریک کے پانچ سرکردہ رہنماؤں ریلے یف ،پیستل، موراوپوف،بیستو ژیف اور اپوستل کو پھانسی دی گئی اور سو سے زائد کو عمر بھر کے لیے سائبیریا جلاوطن کیا گیا۔ترقی پسند ادب اور انقلابی خیالات پر روک لگانے کے لیے کتابوں، رسائل اور اخبارت پر کڑی سنسر شپ عائد کی گئی ۔اس مقصد کے لیے زار نکولس اول نے احتساب کا ایک خصوصی محکمہ قائم کیا جس میں روسی کلیسا کو صوابدیدی دخل حاصل تھا ۔

دسمبری تحریک کا ایک اہم رہنما اور شعلہ نفس شاعر فیودورووِچ ریلے یف(1795-1826) تھا۔ اس کا تعلق متمول زمیندار(کولاک) گھرانے سے تھا ۔ اس نے 1812میں نپولین کے ساتھ ہونے والی جنگ میں حصہ لیا اور اس کے بعد پیٹرسبرگ میں مجسٹریٹ مقرر ہوا۔وہ بیس سال کی عمر میں ان انقلابی حلقوں کا حصہ بنا جوبعد میں روس کی پہلی انقلابی جماعت دسمبری تحریک کی صورت میں متحد ومتشکل ہوئے۔ دسمبری تحریک کے نوجوان انقلابی شاعر کے طور پر ابھرنے والے ریلے یف کی شاعری کا موضوع آزادی اور سرفروشی تھا۔ اس کی مشہور نظم”ووئی نروَف سکی“پر روس بھر میں پابندی تھی جس میں سائبیریا میں قید آزادی کے ایک متوالے کی روداد بیان کی گئی تھی۔اس کی نظموں کی دستی نقول برسوں روسی انقلابیوں کے قلب وذہن گرماتی رہیں۔ بغاوت اور انقلاب کا یہ شاعر 14دسمبر1825کی بغاوت کی ناکامی کے بعد گرفتار ہوا اور 22جون 1826کوپھانسی پھندا جھول گیا۔ ریلے یف اپنی مشہور اور پابندی کی شکار نظم ’ووئی نروَف سکی“میں کہتا ہے ؛
اے پرشکوہ آزادی کے جذبے!
میری قوم کا دل تجھ سے ناآشنا ہے
اے انتقا م آسمانی !میری قوم خاموش ہے
زار کے خلاف سر نہیں اٹھاتی
خود مختار ظالم آقا کی غلامی میں
وہ دائمی اطاعت سے انحراف نہیں کرتی
اس کا دل اپنا دکھ محسوس نہیں کرتا
اس کا ذہن یہ نہیں مانتا کہ وہ دکھی ہے
میں نے غلام روس کو خانہ خدا میں
مقدس شبیہ کے سامنے دیکھا
اپنی زنجیریں کھڑکاتا ہوا، سر جھکائے
وہ زار کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا (4)
دسمبری تحریک کے انقلابیوں سے قریبی تعلق رکھنے اور اس تحریک سے وجدان پانے والا اورجدید روسی ادب کا بانی مبانی ،اس کا پہلا طاقتور نمائندہ الیگزنڈر سرگے ئچ پوشکن(-1836 1799) ہے ۔یہ جواں مرگ ،خرد افروزشاعر ، ادیب اور ڈرامہ نگار بلاشرکت غیرے روس کے قومی شاعر کے مقام پر متمکن ہے۔ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والا روس کا یہ ملک الشعرا نوجوانی کے زمانے میں ہی کمیروں ،کسانوں کی غلامی اور مطلق العنانی کے خلاف مصروفِ جہد دسمبری تحریک کا نمائندہ شاعر بن کر ابھرا۔ ل۔ احمدکے بقول” پوشکن کے تمام ادبی الہام اور جمہوریت کے عقائد کا سوتا دسمبری جماعت کی قربانیوں اور ان کے سماجی پروگرام سے نکلتا ہے ۔“(5) پوشکن نے 1827میں دسمبری تحریک کے جلاوطن دوستوں کے نام ایک نظم بھی لکھی جو دسمبری تحریک سے اٹوٹ رشتے کے ساتھ ساتھ اس کی انقلابیت اور رجائیت پسندی کا بھی شاندار مرقع ہے ؛
سائبیریا کے سنگلاخ دور دشت میں
تمھارے دل قوی رہیں ، عزم سر بلند ہو !
رائیگاں نہ جائیں گی تمھاری کاوشیں !
نظر کی لو اٹھی رہے ، یہ ولولہ دوچند ہو !
برے سمے کا ساتھ دینے والی ایک آس ہے
غموں کی باوفا بہن ، سدا غموں کے پاس ہے
ہنسی خوشی گزار دے گی دن برے ، رکھے گی تم کو تازہ دم
وہ صبح جس کی آرزو ہے ، لے گی ایک دن جنم
ہرے بھرے ہیں الفتوں کے ، یاد یار کے چمن
مہک اڑے گی سیخ چوں کے پار جاکے چوم لے گی پیرہن
مری نوائے شوق جس طرح اڑی ، ادھر گئی
تمھاری قید کے مہیب غار میں اتر گئی
یہ بھاری بھاری بیڑیاں گریں گی کٹ کے ایک دن
قفس کی تیلیاں اچٹ کے ایک دن
تمھیں خوشی سے راہ دیں گی ، جب قدم بڑھاؤ گے
تو ہمدموں سے ، بھائیوں سے تیغ اپنی پاؤ گے (6)
پوشکن کی وفات کے برسوں بعد جب دسمبر1900میں لینن نے اسکرا(چنگاری) کے نام سے روس کا پہلا غیر قانونی مارکسی اخبارجاری کیا تواس کی پیشانی پر سائبیریا سے دسمبری انقلابیوں کی طرف سے پوشکن کی تہنیت کے جواب میں بھیجے گئے پیغام کے یہ الفاظ جگمگا رہے تھے ”چنگاری سے ہی شعلے بھڑکیں گے۔“
پوشکن نے اپنے مشہور ”قصیدہ ءحریت “ میں جہاں بیرونی تجاوز کاروں کے خلاف حب الوطنی کے جذبات کی نمائندگی کی وہیں اس نے زار شاہی استبداد کو بھی نوکِ قلم سے نشانہ بنایا۔ شاہی ظلم وجبرکے خلاف اور محنت کار عوام کی حمایت میں لکھی گئی اس کی نظموں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار زار الیگزنڈر اول نے کہا تھا کہ ” پوشکن نے نفرت انگیز شاعری سے روس کو پاٹ دیا ہے جوسب نوجوانوں کی زبان پر ہیں اسے سائبیریاجلاوطن کردینا مناسب ہوگا۔“اپنی آزاد  روی اور باغیانہ خیالات کے باعث پوشکن کوسینٹ پیٹر سبرگ سے جنوبی روسی کے گاؤں میخالوفسکے جلاوطنی اور پولیس کی کڑی نگرانی کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔باغیانہ روش کے اس شاعر پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کی تخلیقات اشاعت سے قبل سنسر کے ادارے کی بجائے خود زار روس دیکھتا تھا۔

پوشکن کی عظیم تصنیف اس کا پانچ ہزار مصرعوں پر مشتمل وہ منظوم ناول ہے جو” ایوگے نی انے گن“ کے زیر عنوان اس نے 23سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور1830میں اسے آٹھ سال کے عرصے میں مکمل کیا۔ اپنی شاندار عوامی تصنیف کے ذریعے جو ”روسی زندگی کی انسائیکلوپیڈیا “ کہلائی پوشکن نے ادبی فنکارانہ حقیقت پسندی کی بنیاد رکھی۔اپنی نظم ”انچار“ میں اس نے سلطنتوں کے وجود میں آنے ،ان کے جبر، بے رحمی، توسیع اور فرد کے ساتھ تعلق کو موضوعِ سخن بنایا۔ اپنی نظموں،کہانیوں ،ناولوں اور ڈراموں میں زرعی غلاموں کی حالت زار اور زندگی کے حقیقی واقعات کو کمال ہنر مندی سے پیش کرنے والا پوشکن روس کا پہلا لکھاری تھا جس نے سماج کی واضح تصویریں اپنی تخلیقات میں پیش کرتے ہوئے رجائیت پسندی کا درس دیا۔پوشکن کوبجا طور پر روسی ادب میں ایسی حیثیت کا حامل شاعر قرار دیا گیا جو فارسی ادب میں فردوسی اور حافظ، جرمن ادب میں گوئٹے اوراردو ادب میں غالب کو حاصل ہے ۔

روس کے اس بانکے شاعر اور ادیب کی آخری بڑی تصنیف اس کا ناول ”کپتان کی بیٹی “ ہے جس کا موضوع 1773میں روس میں ہونے والی کسان بغاوت اور اس کا رہنما یملاین پگاچیف ہے ۔ انقلاب روس کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں شیر جنگ لکھتے ہیں کہ ” روس کے شاعرِ اعظم پوشکن نے پگا چیف کی جوانمردی کے گیت نہایت میٹھے اور محبت بھرے سُروں میں اس طرح گائے ہیں کہ دنیا کے رومانوی ادب میں اسے زندہ جاوید بنا دیا ہے ۔“ (7)

روس میں پگا چیف کی قیادت میں ہونے والی بغاوت دنیا بھر میں ہونے والی غلاموں اور کسانو ں کی طبقاتی جدوجہد کا تسلسل تھی ۔ پگا چیف کا تعلق دریائے ڈان کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے کازاک گاؤں سے تھا۔اس نے زار کی فوج میں رہ کر کسانوں اور عام لوگوں پر ہونے والا مظالم کا مشاہدہ کیا اور پھر اس نظام سے بغاوت کرتے ہوئے کمیروں اورکسانوں کے نام  اپنی اپیل جاری کی جس میں انھیں آقاؤں سے ہمیشہ کے لیے آزادی ، زمین کی فراہمی، اپنی مرضی سے جنگلات اور دریا کا پانی استعمال کرنے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔اس نے جلد ہی کمیروں اور کسانوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دیتے ہوئے کئی ایک علاقوں تک اپنی تحریک پھیلا دی اور روس کی حکمران ملکہ کیتھرائن کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اسی تحریک میں ہمیں روس کے پہلے نوجوان باغی شاعراور کسان رہنما سلاوت یلا پوو کا ذکر ملتا ہے جس کا تعلق باشکریا سے تھا ۔ اس نے باغی فوج کے لیے متعدد انقلابی نظمیں لکھیں۔ یہ بغاوت 1775میں بے دردی سے کچل
دی گئی ،پگا چیف سیمت اس کے متعدد رہنماؤں کو سرِ عام پھانسی دی گئی لیکن اس بغاوت نے روس کے غلام داری زرعی نظام کے خلاف طبقاتی جنگ کا بگل بجا دیا تھا ۔

بگاچیف کی بغاوت کے 15سال بعد 1790میں ملکہ کیتھرائن کو ایک گمنام تحریر ”پیٹرسبرگ سے ماسکو تک کا سفر“موصول ہوئی جس میں غلام دارانہ محنت کے نظام ،اس کی ناانصافیوں اور عدم مساوات پر احتجاج کرتے ہوئے اسے معاشرتی برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا تھا ۔جب کہ جاگیرداروں اور زمینداروں کو ایسے جانور اور کیچوے قرار دیا گیا جن کی پیاس کبھی نہیں بجھتی اور ان کے روزبروز امیر تر ہونے کی وجہ کسانوں کابدترین استحصال ہے۔تحریر میں کسانوں سے مخاطب ہو کر کہا گیا تھا کہ یہ شہری کہلانے کے مستحق نہیں ہیں بلکہ انھیں چور اور لٹیرے کہنا چاہیے ۔ان کی کاشتکاری کے متعلقات تباہ کر دو ،کھیت اجاڑ دو اور ان کی ساری اشیاءتباہ کر دو ۔تحریر میں غلام داری نظام کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے استبدادی نظام کو سب سے زیادہ ظالم قرار دیا گیا تھا ۔اس میں غلاموں کو آقاؤں کے خلاف بغاوت کا بھرپور حق دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ”طاقت عوام کے پاس ہونی چاہیے اس لیے اس تحریر کا مصنف استبدادیت کے مکمل خاتمے کا اعلان کرتا ہے۔ “ (8)

اس تحریر کے مصنف کو کچھ عرصے بعد جاسوسوں کی نشاندی پر گرفتار کر لیا گیا ۔یہ امرا کے گھرانے سے تعلق رکھنے والا الیگزنڈر رادیشیف تھا ۔ اسے گرفتار کر کے سزائے موت سنائی گئی جسے بعد ازاں سزائے قید میں تبدیل کر دیا گیا ۔ اس بلند پایہ ادیب اور فیلسوف نے چھ سال کا عرصہ قیدمیں گزارا لیکن آزادی کے کچھ عرصے بعد قانون کا ایک انقلابی مسودہ لکھنے کی پاداش میں اسے دوسری بار سائبیریا بھیج دیا گیا جہاں 1802میں اس نے خود کشی کر لی ۔رادیشیف روس کی تاریخ کا پہلا انقلابی لکھاری اور دانشور تھا جس نے سب سے پہلے مطلق العنانی اور غلام داری نظام کے خلاف آواز بلند کی اورعمر بھر جمہوریت، تبدیلی اور عوام کے حقوق وآزادی کے لیے برسرِ پیکر رہا۔

پوشکن کے بعد اس کی انقلابی روایات کو جس شاعر ، ادیب اور ڈرامہ نگار نے آگے بڑھایا وہ میخائل لرمنتوف(1814-1841) ہے ۔پوشکن کے بعداس پرت کا دوسرا بڑا جواں مرگ تخلیق کارجس نے خوابوں کے شیش محل میں فروکش ہو کر ادب تخلیق کرنے کی بجائے سنگین حقائق زاروں میں زار شاہی عہدِ استبداد کے خلاف آزادی کے گیت گانے کا شعوری راستہ چنا۔وہ پوشکن کا قریبی دوست تھا جس نے اس کی موت پر کہی گئی اپنی ایک ماتمی نظم کوشاہی دربار اور امرا کی ہجو میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس نظم کو ”شورش انگیزی“ قرار دیتے ہوئے اسے 1837میں گرفتار کرکے پیٹرسبرگ سے شہر بدر کیا گیا ۔لرمنتوف نے ایک بار پھر 1840میں پوشکن کی کردار کشی کے خلاف ایک نظم لکھی جسے سن کر زار روس نے کہا تھا کہ ” یہ نظم تو انقلاب کی اپیل معلوم ہوتی ہے۔“اس نظم کی پاداش میں اسے ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ۔لرمنتوف نے اپنے ڈراموں بالخصوص ”معصوم“میں روسی سماج کا پردہ چاک کیا اور وطن پرستی اور انقلابی جذبوں سے بھرپور نظمیں کہیں۔وہ جب آخری بار قفقاز کے لیے روانہ ہوا تو زار شاہی روس اور اس کی جہنمی مشین کے کل پرزوں ،نیلی وردی پوش سپاہ پر یوں تبراکیا؛
الوداع،گندے روس
غلاموں اور آقاؤں کے روس
الوداع آسمانی وردیو
الودع وردیوں کی تابعدار قوم (9)
پوشکن کے بعد زار شاہی روس کے جبر واستبداد کو اپنی تحریروں کے ذریعے بے نقاب کرنے والے ادیبوں میں ایک ممتاز نام نکولائی گوگول (1809-1852)کا ہے۔ وہ روس کے Realistic School
کا نمائندہ ادیب تھا جس کی ادبی پرداخت میں اس کے قریبی دوست پوشکن کا بڑا حصہ تھا ۔
روسی دیہاتوں کے پس منظر میں اس کی لکھی کہانیوں کا پہلا مجموعہ1831میں بعنوان ” ڈکانکا کے قریب ایک باڑی میں سنی ہوئی کہانیاں “ شایع ہواور انتہائی مقبول ہوا۔گوگول نے اپنے شاندار ناول ”مردہ روحیں“ میں اس زمانے کے روسی سماج کی پوری تصویر کو کمال ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔یہ ناول 1842میں شایع ہوا اور روس کا پہلا جدید ناول کہلایا۔گوگول نے بہرحال اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ اس عظیم ناول کا بنیادی خاکہ اور مرکزی خیال اسے پوشکن نے دیا تھا۔ اپنے طنزیہ افسانوں اورناولوں کے ذریعے عالمی شہرت پانے والا گوگول معاصر روسی سماج کا ایک بڑا نقاد تھا جس کی تحریروں نے سماجی تبدیلی کی قوتوں کے نقطہ ءنظر کو بہر حال اجاگر کیا ۔ 1836میں اس نے اپنا مشہور ڈرامہ ” انسپکٹر جنرل“ اسٹیج کرنے کی کوشش کی جس کی سنسر نے اجازت نہیں دی ،کسی طرح یہ معاملہ زار تک پہنچا جس نے کچھ تبدیلوں کے ساتھ اسے اسٹیج کی اجازت دی. ڈرامے میں زار کے ریاستی اہلکاروں کی عوام دشمنی کے خوب لتھے لیے گئے تھے ۔
گوگول کے اس ڈرامے کو حکومت پر حملہ قرار دیا گیا۔ خود زار نے ڈرامہ دیکھ کر کہا تھا کہ ” گوگول نے اس ڈرامے میں ایک ایک شخض کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مجھے سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔“ (10)
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

 حوالہ جات
(4) محمد مجیب ، ،روسی ادب ، حصہ اول،، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ،نئی دہلی،2011 ص؛203
(5)ل۔احمد،روسی فکر اور مفکر ، اشاعت1966،انجمن ترقی اردو (ریاستی شاخ مغربی بنگال) کلکتہ ،ص؛36
(6) پوشکن ، شعر وشاعری ،منظوم ترجمے ، ظ۔انصاری،اشاعت1972،دارالاشاعت ترقی ماسکو ، ص؛47
(7)شیر جنگ،انقلابِ روس،فکشن ہاوس لاہور،2011،ص؛29
(8) Fyodor korovoki, Short History of the World ,P.No 283
(9) محمدمجیب ، ،روسی ادب ، حصہ اول،، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ،نئی دہلی،2011 ص؛177,178
(10)2014،ص؛412 احمدعقیل روبی ، علم ودانش کے معمار ،نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد،

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply