نئی پریس کانفرنس کا انتظار۔۔محمداسد شاہ

غور تو کیجیے ! آپ نے سیاسی اختلاف کو ذاتی بغض ، دشمنی اور نفرت میں تبدیل کر دیا ہے – صرف تبدیل ہی نہیں کیا ، بلکہ اس کو نکتہ انتہا تک پہنچا دیا –
کچھ تو سوچا ہوتا !
جن کو سوچنا چاہیے تھا، انھوں نے نہیں سوچا ، تو ان کے چاہنے والے ہی کچھ سوچ لیتے ۔

2014 کے مشہور دھرنوں اور اس کے بعد بھی 2017 کے اختتام تک جاری رہنے والے طویل احتجاجی سلسلے میں بعض مقررین کی تقاریر یقیناً بہت اشتعال انگیز تھیں – خصوصاً پارلیمنٹ ، پاکستان ٹیلی وژن اور سپریم کورٹ کی عمارات اور سٹاف ، پولیس اہلکاران ، لاہور مال روڈ کے تاجران ، رائے ونڈ روڈ کے رہائشی عوام وغیرہ تو اس دور کی اشتعال انگیزی کے براۂ راست متاثرین میں سے ہیں – تب ہمارا میڈیا بھی ان تمام تقاریر کو براۂ راست دکھانے اور سنانے پر شاید “مامور” یا مجبور تھا – ورنہ جس طرح موجودہ حکومت نے حزب اختلاف کی تقاریر کے براۂ راست دکھائے جانے پر پابندی لگا رکھی ہے ، تب ایسا نہیں تھا –

لمحۂ فکریہ لیکن یہ ہے کہ سیاست میں دوسروں کو نیچا دکھانے ، یا جلد از جلد اقتدار تک پہنچنے کی ہوس میں آپ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ کس دین کے پیروکار ہیں ، یا یہ کہ آپ کی طرح دوسروں کے بھی حقوق ہیں ، یا یہ بھی کہ ایک سلسلہ مکافات عمل کا بھی ہے –

جس دین نے کفار و مشرکین کی بھی بیمار پرسی سکھائی ، اس دین کے ماننے والوں سے اس کی توقع کبھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ مریضوں پر حملے کریں –
ہم نے پڑھا کہ ایک بڑھیا ، اللّٰہ کے اخری نبی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر کوڑا پھینکا کرتی تھی – لیکن آپ صبر کر کے گزر جایا کرتے تھے – ایک دن ایسا ہوا کہ اس بڑھیا نے کوڑا نہیں پھینکا – آپ کو فکر ہوئی کہ اس عورت کے ساتھ کیا ہوا – پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ بیمار تھی – آپ نے اس کی عیادت فرمائی ، دوا لا کے دی اور خدمت کی –
یہ سکھایا ہمیں ہمارے دین نے –
اور اب ہم کس طرف جا رہے ہیں –

قومی اسمبلی کی سابق رکن ڈاکٹر کلثوم نواز صاحبہ اپنی زندگی کے آخری ایام لندن کے ایک ہسپتال میں گزار رہی تھیں – کس کرب و اذیت سے وہ گزر رہی تھیں ، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا – لیکن یہاں خود کو مصلح کہنے والے ، اور قوم کو نئے نئے خواب دکھانے والے اس بیمار خاتون پر طنز کے نشتر چلا رہے تھے – ایک صاحب نے تو یہاں تک فرما دیا؛ “لندن میں ہمارے بھی ذرائع ہیں – کلثوم نواز کی بیماری صرف ایک ڈرامہ ہے”- (استغفر اللّٰہ)

اب وہی صاحب خود ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں –

ایک بیرسٹر صاحب بڑے وثوق کے ساتھ ان خاتون کی بیماری کو جھٹلاتے اور اس پر پھبتیاں کسا کرتے تھے –
پھر ان سب کے پیروکار اس ہسپتال کے باہر جانے لگے – وہاں کھڑے ہو کر گالیاں بکنے لگے – ہسپتال اور پھر ان کی قیام گاہ پر باقاعدہ حملے کیے گئے – پتھراؤ کیا گیا – گالیوں کی بارش کی گئی – نام نہاد سیاسی “کارکنان” ان سب کارناموں کی وڈیوز بنا کر پاکستان بھیجتے اور مضحکہ اڑاتے رہے –
اور پھر دعویٰ مسلمانی کا بھی ؟
بات یہیں نہ رکی –

2017 میں ایک اور دھرنا بھی سامنے لایا گیا – اشتعال انگیزی کی اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ یہاں بدرجۂ اتم پوری کر لی گئی – لوگوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی ، اور ملک کو جیسے بے حکومت بنانے کی کوشش کی گئی –
سلسلہ رکنے نہیں دیا گیا –
خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکی گئی – پروفیسر احسن اقبال پر فائرنگ کی گئی – تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد نواز شریف پر بھی ایک دینی ادارے کی تقریب کے دوران نہایت شرم ناک حملہ کیا گیا –

میاں صاحب کی پیرانہ سالی ، اور علالت میں کوئی شک نہیں – خود عمران خان نے بھی اپنے ایک بیان میں ان کی علالت کی تصدیق کی – پنجاب کی موجودہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر راشدہ یاسمین نے دو مرتبہ پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی کہ میاں صاحب بیک وقت کئی عوارض میں مبتلا ہیں ، اور یہ بھی بتایا کہ ان کے مقام و مرتبے ، اور بیماریوں کی حساسیت کے پیش نظر ملکی ہسپتال اور ڈاکٹرز ان کا علاج کرنے سے ہچکچا رہے ہیں – چنانچہ بہتر یہی ہے کہ انھیں پاکستان سے باہر علاج کروانے کی اجازت دی جائے – خود سرکار کے بنائے ہوئے میڈیکل بورڈز نے بار بار سفارش کی کہ میاں صاحب کو فوری علاج اور بھرپور توجہ کی اشد ضرورت ہے – عدالت نے انھیں طبی ضمانت پر بھیجا – سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کسی بھی قیمت پر پاکستان سے باہر جانے پر آمادہ نہیں تھے – لیکن ان کی ضعیف والدہ اور بھائی سمیت دیگر اہلِ خانہ اور سیاسی ساتھیوں نے انھیں علاج کے لیے بہت مجبور کر کے تقریباً زبردستی باہر بھیجا – ایمبو لفٹ کے ذریعے انھیں جہاز تک پہنچایا گیا ، لیکن وائے افسوس کہ لاعلمی کے شکار افراد نے اس بات پر بھی غلط بیانی کی، مذاق اڑایا اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کی –
چنانچہ “کارکنان” کیا کرتے ؟
انھوں نے بھی وہی کیا جو “قائدین” کی خواہش تھی –
لندن میں اس ہسپتال اور قیام گاہ کے سامنے پہنچنے لگے – دروازے توڑنے کی کوششیں کی گئیں – گالیاں بکی گئیں – اخباری اطلاعات کے مطابق بعض “نئے محبان وطن” نے تو فائرنگ کرنے اور قتل کرنے کی خواہشات کا بھی اظہار کیا –

ہمارے یہاں ایک نام نہاد تجزیہ کار فرما رہے تھے کہ یہ اس وجہ سے ہوا کہ میاں صاحب سزا یافتہ قرار دیئے گئے ہیں –
عرض کیا؛ “کیا سزا یافتہ قرار دیئے گئے افراد پر اپنا ذاتی قانون نافذ کرنا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے کارندوں کی ذمہ داری ہے ؟ آئین میں یہ ترمیم کب منظور کی گئی؟”

کیا کسی نے سوچا کہ آگ بھی تو اپنی فطرت دکھائے گی ۔
آپ دوسروں کے گھروں اور چہروں پر حملے کروائیں گے تو کیا مکافات عمل کا ابدی قانون بے بس اور خاموش ہو جائے گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اشتعال کی آگ لندن کے ہسپتالوں تک محدود رکھنا تو آپ کے بس میں نہیں تھا –
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بھی ویسا ہی اشتعال پہنچ گیا –
پہلے ڈاکٹرز نے وکلاء پر تشدد کیا – پھر شاید وکلاء کے ایک گروہ نے جوابی حملہ کیا-
افسوس کہ ڈاکٹرز اور وکلاء میں موجود ان چند لوگوں نے شاید اپنے معاشرتی مقام و مرتبے کا بھی احساس نہیں کیا –
اس دوران صوبائی وزیر فیاض چوہان وہاں پہنچے تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا ، جس کا رخ گزشتہ چند سالوں سے صرف ایک ہی سیاسی جماعت کے قائدین کی طرف تھا – چوہان صاحب خود بھی زبان و بیان کے حوالے سے تنازعات میں رہتے ہیں اور اسی وجہ سے وزارت سے نکالے بھی گئے تھے – حالیہ بدسلوکی کے بعد انھوں نے پریس کانفرنس کر کے حسبِ عادت مسلم لیگ (نواز) کو رگیدنا شروع کر دیا – لیکن اس دھینگا مشتی کے وڈیو کلپس میں بہت سے “اپنوں” سمیت عمران خان کے ایک بھانجے بھی نظر آتے ہیں جن کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ عمران کی تعریفات ، اور میاں صاحب کے خلاف اشتعال انگیزیوں سے بھرپور ہے – اس انکشاف کے بعد چوہان صاحب نے تاحال نئی پریس کانفرنس نہیں کی – انتظار فرمائیے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply