وکلاء گردی منظم سازش تھی؟۔۔۔یاسر ارشاد

ریاست نے جان بوجھ کر اور بہت محنت سے اس قوم کو گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔۔ اس مقصد کے کےلیے بہت سے نعرے استعمال ہوئے جن میں  ذات پات، لسانیت ،مذہب اور اب ” پیشہ ” استعمال ہو رہا ہے۔
وکیل ڈاکٹر جھگڑا پہلی دفعہ تو ہوا نہیں تھا۔۔ تین ہفتہ پہلے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں چند وکیلوں اور ہیلتھ سٹاف کے بیچ جھگڑا ہوا۔ ہیلتھ سٹاف کا موقف ہے کہ وکیل بدمعاشی کر رہے تھے تو ان کو بذریعہ طاقت روکا گیا، کیونکہ وہ طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ وکیلوں سے ڈاکٹرز نے تو کوئی خاص مارپیٹ کی ہی نہیں تھی، سویپرز ، وارڈ بوائز ، سکیورٹی گارڈز اور پیرامیڈیکس سے ان کا پھڈا ہوا تھا۔

دوسری طرف وکلاء کا موقف ہے کہ جب وہ  پی آئی سی گئے تھے تو ان پر بغیر کسی وجہ کے تشدد کیا گیا تھا۔ ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ وکلاء کے ساتھ ادھر بدتمیزی اور زیادتی ہوئی ہو گی۔ مگر ذاتی لڑائی کا بدلہ گھات لگا کر مارکٹائی کر کے لیا جاتا ہے، انسانی نفسیات ہے ،بدلہ لینے کا جوش دو چار دن رہتا ہے۔۔ اتنے دن کے بعد بدلہ لینے کا اتنا جنون اور پھر اس طرح سے ہسپتال پر چڑھائی ؟۔۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کروایا گیا ہے،اور منصوبہ بندی کے لیے منصوبہ ساز کا ہونا لازم ہے۔

آپ پنجاب پولیس کا کردار دیکھیے ۔جلوس کو پہلے کھل کر بدمعاشی کرنے دی گئی۔۔ انھوں نے ہسپتال میں گھس کر جو سامنے آیا اس کو مارا پیٹا ،چاہے وہ ڈاکٹر تھا ، مریض تھا یا اس کے لواحقین ، مشینیں توڑیں ، مریضوں کے آکسیجن ماسک کھینچے ، پولیس نے کچھ نہیں کیا ،سب ہونے دیا۔ جب سب تباہی ہو گئی تو اس کے بعد جو جو وکیل ہاتھ لگا اس کو خوب مارا پیٹا۔۔ 2007 کے بعد وکیلوں کو پہلی بار اس پیمانے پر پولیس سے  مار پڑی ۔

اب جب کہ یہ سب ہو چکا ہے،ہسپتال کم سے   کم تین دن تک کام نہیں کر سکے گا ،مریضوں کی اموات ہو چکیں ، ہسپتال کی مشینری برباد ہو چکی ، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں رینجرز آئیں گے۔۔ وکیلوں کو یہ سب کرنے کے بعد پورے ملک سے گالیاں پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں وہ حکومت کے کسی بھی آمرانہ اقدام کے خلاف احتجاج کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں،سوچیے وہ بار ایسوسی ایشنز جو ایک ماہ پہلے تک ایکسٹینشن (extension ) کے معاملے پر رائے  دیتی پھرتی تھیں ، آج یہ بتاتی پھر رہی ہیں کہ وکیلوں نے ہسپتال پر چڑھائی کیوں کی۔

پتہ نہیں کیوں ، مجھے ایسے لگتا ہے اور یہ میری ذاتی رائے  ہے کہ معاملہ بالکل جلیبی کی طرح سیدھا ہے۔ یہ دو پیشوں کی عام گروہی لڑائی نہیں لگ رہی۔۔مجھے لگتا ہے کہ وکیل استعمال ہوئے  ہیں۔ یہ 2007 کی افتخار چوہدری کی تحریک سے استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے بہرحال اپنے ان وکیل دوستوں سے شدید ترین ہمدردی ہے جو اس طرح کی غنڈہ گردی سے نفرت کرتے ہیں انسانی حقوق، نا انصافی اور عوام کی جمہوری آزادیوں کے لیےآواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ان  بےچاروں کو مفت میں گالیاں کھانی پڑ رہی ہیں۔ کچھ بے چارے وکلاء اپنے پیشے کی وجہ سے مجبور ہو کر اپنے پیٹی بھائیوں کی حمایت پر مجبور ہیں۔ جب ہم مجبور ہو کر کسی غلط بات پر بھی اپنے ہم پیشہ لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم خود کو تنہا و لاچار سمجھتے ہوئے  کوئی سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔۔یہ سہارا اس سماج کو دینا چاہیے تھا،مگر وہ تو صرف عدم تحفظ دے رہا ہے۔۔

یاد رکھیے جب ہم عمومی سماجی مفاد ، اخلاقیات ، سچ اور جھوٹ سے بالاتر ہو کر کسی بھی گروہ کا رنگ ،نسل ،مذہب یا پیشے کے نام پر ساتھ دیتے ہیں تو یہ ایک فسطائی یا فاشسٹ سوچ ہوتی ہے۔۔ یہ سوچ پیدا کرنے کے لیے ریاست کو بہت محنت کرنی پڑی ہے۔ یہ وقت تو پیدا کی گئی فصل کی پیداوار سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چنانچہ ہم پھر اپنی بات دہرانے پر مجبور ہیں ، کہ سرمایہ دارانہ نظام لوٹ مار کا استحصالی نظام ہے جو سماجی عدم تحفظ پیدا کر رہا ہے۔ اس کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جو ہر انسان کو سماجی تحفظ دینے کا ذمہ دار ہو گا۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply