ایک موقع دیں۔۔مرزا مدثر نواز

پیغمبروں میں بڑا لاڈلہ پیغمبر ہے جس کا لقب کلیم اللہ ہے‘ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب میں جس کا سب سے زیادہ دفعہ ذکر کیا ہے‘ اتنا لاڈلہ کہ اپنے رب سے فرمائش کی کہ اے میرے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں‘ اپنی سرکش و بگڑی قوم کے لیے دعائیں کرتا ہے تو من و سلوٰی آسمانوں سے نازل ہونے لگتا ہے‘ سمندر میں رستے بننے لگتے ہیں‘ بار بار کی سرکشی کے باوجود قصور معاف ہونے لگتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انہی برگزیدہ پیغمبر نے ایک دفعہ فصاحت و بلاغت سے بھر پور خطبہ ارشاد فرمایا تو ان سے بھرے مجمعے میں سوال کیا گیا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم کون ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں ہوں۔ جواب تو ہر لحاظ سے درست تھا کیونکہ پیغمبر وقت ہی اپنے دور کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے لیکن معبود برحق کو یہ انداز پسند نہیں آیا‘ شاید یہ جواب بنتا ہو کہ سب سے زیادہ علم و حکمت والی ذات تو میرے رب کی ہے‘ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ لہٰذا اللہ تعا  لی نے حضرت موسیٰؑ کو فرمایا کہ فلاں جگہ میرے خاص بندوں میں سے ایک بندے ہیں جنہیں میں نے خاص علم عطا فرمایا ہے‘ آپ ان کے پاس جا کر وہ علم سیکھیں۔

اس جہان فانی کو بنانے والے نے ایک معین وقت تک اس کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو حکمتیں تخلیق کی ہوئی ہیں وہ ہماری ادنیٰ سی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بڑے بڑے کشور کشا‘ فاتحین‘ شہنشاہ‘ سلاطین‘ عالم پناہ‘ طالع آزما اس دنیا میں آئے اور کچھ نے تو اس دھرتی کو ہلا کر رکھ دیا‘ جنہوں نے یہ خیال کیا کہ وہ اس دنیا کے لیے ناگزیر ہیں اور ان کے اس دنیا میں نہ ہونے سے شاید اس دنیا کا نظام نہ چل سکے لیکن یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کے آنے سے پہلے بھی اس  دنیا کا نظام چل رہا تھا اور ان کے نہ ہونے سے بھی اس میں ذرّہ  برابر بھی فرق نہیں آئے گا۔ انسان اپنی محدود سوچ کے سبب یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں کام کو میں ہی بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتا ہوں‘ میں دیکھتا ہوں کہ میرے بغیر یہ کام کیسے چلے گا مگر تاریخ گواہ ہے کہ وہی کام بعد میں اس کے متبادل نے زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیا۔
؎ دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے‘ کوئی ہم سا ہو گا

لفظ ”میں“ سب سے بڑا دھوکہ ہے اور معبود برحق کو سخت نا پسند ہے‘ یہ اسی جاہ و جلال و عظمتوں والے کو اچھا لگتا ہے۔ وہی ذات اس دنیا کو چلانے کے لیے ہر علم والے سے زیادہ عالم‘ ہر زور آور سے زیادہ مضبوط‘ ہر نمرود کے مقابلے میں ابراہیمؑ‘ ہر فرعون کے مقابلے میں موسیٰؑ پیدا کرتی  ہے۔انسان اپنی مرضی سے اس دنیا میں آتا ہے نہ ہی اپنی منشا سے اس دنیا سے پردہ فرماتا ہے۔
؎ لائی حیات‘ آئے‘ قضا لے چلی‘ چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے

Advertisements
julia rana solicitors

اس دنیا میں ہر ایک نے مقررہ وقت تک اپنی اننگ کھیلنی ہے اور یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ محنت کر کے اچھا کھیلنے کی کوشش کرتا ہے یا طاغوت کے بہکاوے میں آ کر بُرا کھیلتا ہے‘ اس کے بعد اسے نہ چاہتے ہوئے بھی گراؤنڈ کو چھوڑنا پڑتا ہے اور دوسروں کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ میری جاگیر‘ جائیداد‘ کوٹھی‘ کار‘ میرا شملہ‘کاروبار‘ رتبہ‘ جیسے الفاظ بھی اس کے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں‘ کسی تنظیم کے ناظم ہیں‘ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں‘ تو ہمیں اصول و قواعدکا احترام کرتے ہوئے اور اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی باری یا معیاد ملازمت ختم ہونے پر دوسروں کے لیے اس جگہ کو خالی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرنی چاہیے تا کہ وہ بھی کسی ادارے‘ تنظیم‘ جماعت کو احسن طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر سکیں۔ بصورت دیگر اگر ہم عہدہ و کرسی کے ساتھ تا حیات چمٹے رہنے کو ترجیح دیں تو یہ بھی ذہن میں رہے کہ مزید وقت و کرسی کی چکا چوند بھی آخر ایک دن ختم ہو جائے گی لیکن اس دوران پتہ نہیں کتنے ہی با صلاحیت اور مجھ سے اعلیٰ و ارفع ذہنیت والے لوگوں کا حق مارا جائے گا اور اس کا ذمہ دار صرف اور صرف میں ہی ہوں گا۔چند دن کے عارضی فوائد و پروٹوکول کو چھوڑ کر آئین و قانون و اخلاقی اقدار و اصول و قواعد و ضوابط کا احترام کرنے والے تاریخ میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ایسی سوچ سے اداروں و جماعتوں میں جمہوریت پنپتی ہے اور ملوکیت کی بیخ کنی ہوتی ہے‘ ذاتی جاگیر بنانے سے جماعتیں کمزور اور افراد مضبوط ہوتے ہیں جبکہ ادارہ بنانے سے جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں اور ادارے ایک نظام کے تحت چلتے ہیں جن میں ون مین شو کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور وہ کسی ایک فرد‘ گھرانہ یا خاندان پر انحصار نہیں کرتے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply