• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی جنگ عظیم (آٹھویں قسط)انقلاب (روس، فرانس، اٹلی)۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم (آٹھویں قسط)انقلاب (روس، فرانس، اٹلی)۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم کے دوران حکومتوں کو جتنا خوف مخالف افواج سے تھا اتنا ہی “انقلاب” سے تھا۔ 1917 میں بھی جب جنگ کا نتیجہ میدان میں نہ ہو سکا اور حوصلے پست ہونے لگے تو دونوں اطراف نے ایک دوسرے کو اندرونی شکست دینے کی ٹھانی۔ حکومتوں کو فکر تھی کہ جنگ کی تکان سے کیسے نمٹا جائے، کیسے فوج میں بے چینی کو بغاوت میں بدلنے سے روکا جائے اور بغاوت کو انقلاب بننے سے روکا جائے۔ اسی کو مخالفین نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تا کہ دشمن ملک میں دنگے کرا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں۔ اسی لئے مصر سے لیکر ڈبلن، پیٹروگراڈ سے زیورچ، اتحادیوں اور جرمنوں نے اپنے ایجنٹ پھیلائے ہوئے تھے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ لوگوں کو اپنے اقاوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں جنگ سے باہر کر دیں۔ روس میں جرمنوں کو اس میں کامیابی ہوئی، بالشووکس (Bolsheviks) کی پشت پناہی کر کے ایک انقلاب برپا کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پہلی جنگ عظیم (ساتویں قسط)ناکہ بندی۔۔۔۔آصف خان بنگش

روس 1917 میں جنگ سے ٹوٹ چکا تھا، بے بہا نقصان، نالائق حکمران اور کرپشن کے علاوہ ایک 900 میل لمبی سرحد کے دفاع کے لئے سامان جنگ پہنچانے سے فوج کا مورال گر چکا تھا۔ پیٹروگراڈ جو اب سینٹ پیٹرزبرگ ہے روس کا دارالخلافہ اور انڈسٹریل حب تھا۔ کارخانوں میں مزدوروں کو مشکل سے کھانا دستیاب تھا۔ 8 مارچ 1917 کو مظاہرے شروع ہوئے لیکن زار نے ان کو دبانے کا حکم دیا اور خون خرابہ شروع ہوا۔ 50 لوگ مارے گئے۔ اس قتل عام نے فوج کو سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ اپنے لوگوں کا دفاع کریں جو روٹی مانگ رہے تھے یا زار کا۔ بیرک میں کچھ سپاہیوں نے مشورا کیا کہ اب وقت آگیا کہ ہم اپنے بھائیوں، ماوں بہنوں کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں حصہ لیں اور ان کا ایک دستہ بھی مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگیا۔ برطانوی صحافی آرتھر رینسم اپنے لندن کے دفتر تار بھیجتا ہے “200 لوگ مارے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ مقامی پولیس کا سربراہ مرا پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ انقلاب بلاشبہ شروع ہو چکا ہے”۔

مظاہرین اور فوج کے دستوں نے شہر کے مرکز، ریلوے سٹیشن اور ٹیلیفون ایکسچینج پر قبضہ کر لیا۔ شہر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ زار کو عہدے سے ہٹا دی گیا۔ ایک عبوری حکومت بنائی گئی۔ جرمنی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہا۔ لندن اور فرانس میں بھی خوف کی ایک فضا پھیل چکی تھی کیوں کہ وہاں بھی جنگ کی وجہ سے حالات کچھ مختلف نہ تھے۔ لندن اور سکاٹ لینڈ میں بھی لوگ باہر نکلے۔ ہڑتالیں ہوئیں۔ فوج کو 2 لاکھ سپاہی برطانیہ میں رکھنے پڑے تا کہ اندرونی خطرہ کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن برطانیہ میں محتاط رویہ اپنایا گیا اور اگر کسی علاقہ میں حالات بے قابو ہونے لگتے تو ان کی تمام مانگیں پوری کر دی جاتیں۔ جہاں برطانیہ حالات سنبھالنے میں کامیاب ہوا وہیں فرانس کو مشکل پیش آئی۔ 3 سال جرمن حملے کی خطرہ میں رہنے والے پیرس کے باشندے اب تنگ آچکے تھے۔ مہنگائی، خوراک کی کمی، تیل کی قلت کے لئے لوگ ہنگامے کرنے لگے۔ پیرس کے گلیوں میں بھی انقلاب کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔

جنرل نیول (General Nivelle) کی قیادت میں ناقص جنگی حکمت عملی نے فوج کو بغاوت پر مجبور کیا۔ (Chemin des Dames) پر حملہ ایک انتہائی غیر زمہ دارانہ قدم تھا، فوج کے سامنے کانٹے دار تاروں کا ایک جنگل تھا اور مشین گنیں آگ برسا رہی تھیں۔ فرانس کی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم ملا اور انجام تباہی تھا۔ 40 ہزار فوجی شروع کے دنوں میں مارے گئے، لیکن نیول نے حملہ جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اس ظلم ناروا کے خلاف 370 انفنٹری ریجمنٹ نے محاذ کی طرف جانے کی بجائے قریب بستی کا رخ کیا۔ وہ گنگناتے ہوئے اپنی پوزیشنوں سے پسپا ہوگئے۔ جون 1917 تک آدھی فرانسیسی فوج متاثر ہوئی تھی۔ ایک جرمن حملہ پتوں کے بنی عمارت کو ڈھیر کر سکتی تھی لیکن جرمن کو اس بغاوت کا سرے سے علم ہی نہیں تھا۔ یہ ایک بڑی انٹیلیجنس ناکامی تھی۔ 4 دن کے بعد باغی فوجی پاس ہی جنگل سے متصل قصبوں سے ہشاش بشاش نمودار ہوئے۔ یہ بغاوت سے زیادہ ایک احتجاج تھا اور ان کی مانگیں پوری کی گئیں۔ جنرل نیول کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جنرل فلپ پیٹن ان کی جگہ آئے۔ نظم و ضبط بحال کرنا ان کیلئے ضروری تھا اس لئے صرف چند کو سزا دی گئی لیکن سرعام دی گئی تاکہ نشان عبرت بنیں۔

فرانس کی طرح اطالوی فوج بھی جنگ سے چور تھی لیکن کمانڈر کاڈورنا سخت سزائیں دے کر نظم برقرار رکھے تھے۔ بظاہر تو سب اچھا تھا لیکن اندر ہی اندر فوج میں ایک نفرت پھیل رہی تھی۔ اکتوبر 1917 مین کاپریٹو(Caporetto) کی لڑائی میں اطالوی دشمن کے سامنے احتجاجاَ ہتھیار ڈالنے لگے۔ ایک اطالوی افسر جس نے ہتھیار نہیں ڈالے کو اپنے ہی جوانوں نے گولی مار دی۔ ہزاروں کی تعداد میں اطالوی خوشی سے چلاتے ہوئے جرمن کی قید میں گئے لیکن اپنی جان بچا گئے۔ اٹلی نے بھی جنرل کاڈورنا کو ہٹا کر فرانس کی طرز پر فوجیوں کیلئے آسانی کی اور نظم قائم کیا
1917 کی سرما میں 3 لاکھ اطالوی فوجی سرینڈر ہوئے، قریب اتنے ہی پسپا ہوکر مقامی لوگوں کے ساتھ بھاگ نکلے۔ جب ان سے سرزنش ہوتی تو کہتے ہمیں حکم ہوا تھا کہ واپس آجائیں۔ کس نے حکم دیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ۔
اٹلی کیلئے مرزلی( Peak Mrzli) کی چوٹی پر جنگ ختم ہوچکی تھی۔

اگلی قسط میں یروشلم کا سقوط، ڈبلن میں بغاوت اور لینن کی روس آمد کا احوال
پہلی جنگ عظیم – آٹھویں قسط
(دوسرا حصہ)
انقلاب (خلافت عثمانیہ، آئرلینڈ اور لینن)

دوسری طرف برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش رچائی کہ مکہ اور مدینہ اس سے چھڑا کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس کے لئے حجاز کے بدو قبائل کو آزادی اور خودمختاری کا لالچ دے کر ترکوں کے خلاف لڑایا گیا۔ عرب اس بہکاوے میں آگئے اور 5 جون 1916 کو خلاف عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی۔ مکہ جلد ہی باغیوں کے ہاتھ لگ گیا۔ ترکوں نے مدینہ میں مقابلہ کیا۔ کمانڈر فخری پاشا نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا “جب تک میرے سپاہی خاک و خون کی قبا پہن کر مدینہ کی مٹی میں دفن نہیں ہو جاتے مدینہ سے عثمایوں کا سرخ جھنڈا کبھی ہٹایا نہیں جاسکتا”۔
برطانیہ نے لارنس آف عریبیہ کو شریف حسین کی حجازی لشکر میں بھیجا جس نے انہیں گوریلہ جنگ پر اکسایا۔ وہ ریل گاڑی کے ٹریک اڑانے میں ماہر ہوگئےاور ایسا کر کے وہ لوٹ مار کرتے ۔ لارنس نے عرب قوم پرستی کو ہوا دی۔ یروشلم پر کنٹرول برطانیہ کا مقصد تھا۔ عقبہ کی بندرگاہ (Port of Akaba) پر قبضہ اس ضمن میں ضروری تھا لیکن اس بندگاہ پر تمام ترک توپیں پانی کی طرف رخ کئے ہوئی تھیں۔ حجاری فوج نے لارنس کی سربراہی میں 600 میل کا چکر کاٹ کر ترکوں کو پھیچے سے آ لیا۔ 4 دن کی لڑائی کے بعد ترکوں کوشکست ہوئی۔ مشرق وسطی کو زبردست جھٹکا لگا تھا۔ جنرل ایلنبائے (Allenby) برطانوی فوج کے کمانڈر تھے، اب اس کمپین کی سربراہی کرنے لگے اور یروشلم کی طرف بڑھے۔ 11 دسمبر 1917 کو ایلنبائی لارنس کے ہمراہ شہر میں پیدل داخل ہوئے۔ اب عربوں کو معلوم ہوا کہ وہ خودمختاری پانے کی بجائے ترکوں کے اثر سے نقل کر غیرمسلم آقاوں کی غلامی میں آگئے ہیں۔ عربوں نے لارنس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے جس پر سوائے شرمندگی کے اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

جہاںبرطانیہ جرمن اتحادی ترکوں کے خلاف برسرپیکار تھا وہاں جرمنی برطانیہ کی کمزوری یعنی آئرلینڈ میں وار کرنے والا تھا۔ برطانیہ نے آئرلینڈ کو خودمختار حکومت کا وعدہ کیا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو پایا۔ حالانکہ 2 لاکھ آئرش برطانیہ کے لئے لڑے اور اس میں 30 ہزار قتل ہوئے لیکن برطانیہ کی کمزوری آئرلینڈ کے لئے ایک موقع تھا کہ وہ اس سے آزادی حاصل کرلیں۔ ارسکین چائلڈرز (Erskine Childers) برطانیہ میں مقبول تھا، اس کا ناول (The Riddle of the Sands) میں اس نے برطانیہ کو جرمن حملے سے آگاہ کیا لیکن اب اس کی وفاداری تبدیل ہو گئی تھی، وہ اپنی کشتی میں ہیمبرگ گیا اور وہاں سے 900 رائفل لایا جو 2 سال بعد بغاوت میں استعمال ہوئیں۔ ایسٹر منڈے 1916 کو 1600 باغی ڈبلن (Dublin) میں نکلے اور ریلوے، جی پی او اور کچھ اور جگہوں پر قبضہ کر لیا۔ پیڈرک پیئرس (Padraic Pearse) ایک لکھاری اور شاعر تھا جو کہ انقلاب میں آگے آگے تھا، لکھتا ہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ آئرلینڈ جنگ سے دور رہے گا لیکن اب ہم اس کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔
اس سب کی شروعات اگست 1914 میں ہوئی جب سر راجر کیسمنٹ (Sir Roger Casement) جو ایک آئرش ریپبلیکن تھا اور کسی دور میں برطانوی اسٹبلشمنٹ کا دلدادہ تھا نے کائزر کو لکھا کہ وہ آئرش کی مدد کریں اور جرمن مداخلت سے وہ برطانیہ سے آزادی پالیں گے۔ زمرمین (Zimmermann) جو کہ مستقبل کا وزیرخارجہ تھا نے پلان بنایا کہ 25 ہزار جرمن 50 ہزار اضافی بندوقوں کے ساتھ آئرلینڈ میں اتارے جائیں۔ اس کے لئے امریکہ میں آئرش فنڈنگ بھی کی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ بغاوت ہوتے ہی فوج میں آئرش لوگ بھی ان کے ساتھ مل جائیں گے، اس کے بعد جرمن سب میرینز ڈبلن کی بندرگاہ کو قبضے میں لے لیں گی، کچھ جرمن جہاز لندن پر بمباری کریں گے اور وہ برطانیہ سے آزادی پا لیں گے۔ لیکن جرمن ہائی کمان نے ڈبلن میں فوج اتارنے کی مخالفت کی، لیکن ایک سب میرین 20 ہزار رائفل لے کر 1916 میں لاکھوں راونڈ ایمونیشن لئے آئرلینڈ کی طرف روانہ ہوئی۔ سب میرین آئرلینڈ پہنچ گئی لیکن آئرش کے مطابق اسے دو دن بعد آنا تھا۔ جرمن وہاں انتظار کرتے رہے کہ انہیں ایک پیٹرول نے آ لیا۔ جرمن کیپٹن نے بجائے گرفتاری دینے کے اپنی سب میرین ڈبو دی۔ بہت سے باغی اس واقع کے بعد امید کھو بیٹھے، لیکن ایک سخت گیر گروپ لڑتا رہا اور ایسٹر منڈے کو ڈبلن میں اہم مقامات پر قبضہ کیا۔
برطانوی فوج نے مشین گنوں اور توپخانے سے جواب دیا۔ دس ہزار کی فوج بلائی گئی۔ بہت کم لوگوں نے بغاوت کے کچلے جانے کا سوگ منایا۔ باغیوں کو حراست میں لیا گیا اور لوگوں نے ان پر سڑے ہوئے پھل برسائے کیوں کہ ان میں بہت سوں کے بیٹے، باپ اور شوہر فرانس میں محاذ پر تھے اور وہ باغیوں کے جرمنی سے روابط پر سیخ پا تھے۔ برطانوی حکومت نے سخت اقدام لیا جو آگے جا کر ان کے لئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ انہوں نے تمام باغی قیادت کو موت کی سزا سنا دی۔ پیئرس نے گناہ قبول کیا، اور سب سے پہلے اسے سزا ہوئی، اگلے دس دن میں اور لوگ بھی لائے گئے، جیمز کونلی زخمی تھے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے انہیں نیچے بٹھا کر گولیاں ماری گئیں۔ ڈبلن خاموش ہو گیا لیکن برطانیہ نے 16 باغیوں کو شہید بنا دیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے سڑے ہوئے پھل ان پر پھینکے تھے اب وہ ان کے لئے ہیرو تھے۔ برطانیہ نے ایک ناکام بغاوت کو ایک قومی تحریک میں بدل دیا۔

زمرمین (Zimmerman) کے لئے اگلا چیلنج روسی انقلاب تھا، کیا وہ اسے جرمنی کے حق میں استعمال کر سکتا تھا؟ جرمنی کو صرف ایک کرشماتی لیڈر کی ضرورت تھی جو انقلاب کی سربراہی کے کے روس کو جنگ سے نکالے۔ ولادیمیر لینن (Vladimir Lenin) بولشوکس کا لیڈر تھا جو کہ قدرے انتہا پسند روسیوں پر مشتمل تھا۔ یہ پچھلے 14 سال سے کافی ہاوسز اور جیلوں میں انقلاب کی منصوبہ بندی کرتے آرہے تھے، لیکن وقت آنے پر ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ سٹالن (Joseph Stalin) سائبیریا میں تھا، بخارن (Bukharin) نیویارک اور لینن زیورخ (Zurich) میں تھا۔ لینن کو معلوم تھا کہ اتحادی اسے کبھی روس جانے نہیں دیں گے۔ لیکن ایک رستہ جرمنی اور سویڈن سے ہو کر جاتا تھا لیکن کیا جرمن اس کا ساتھ دینگے؟ جرمن ایجنٹ کافی عرصہ سے اس پر نظر رکھے تھے وہ جانتے تھے کہ لینن روس کو جنگ سے نکالنا چاہتا تھا۔ کائزر نے اسے جانے کی اجازت دی اور ان کے روس جانے کا بندوبست کیا۔ لینن کا جرمن سے ذاتی کوئی رابطہ ریکارڈ پر نہیں وہ صرف ان سے روس تک رسائی میں مدد چاہتا تھا۔ کاونٹیس آئرینا (Countess Irina) لکھتی ہے لینن گنجا ہے دیکھنے میں بدصورت ہے کوئی بلا کا خطیب نہیں ہے، وہ جب بولتا تو ایسے ہی جیسے ایک کالج پروفیسر بات کرتا ہے لیکن وہ جو بھی بولتا ہے لوگوں کو پاگل بنا دیتا ہے۔ وہ جو بولتا ہے وہ جنگ کا خاتمہ ہے اور لوگوں کو وہ کچھ دینے کا وعدہ ہے جو کہ عبوری حکومت نہیں دے سکی یعنی امن، ان کی زمین اور روٹی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیٹروگراڈ آتے ہی لینن کے خیالات پھیلتے گئے، فوج میں سپاہی لینن کے نظریات سے متاثر ہونے لگے۔ سپاہی امن چاہتے تھے اور انقلاب کے ثمرات گھروں میں جا کر دیکھنا چاہتے تھے۔ 18 جون 1917 کو لینن کو جرمن فنڈنگ کی خبر لیک ہو گئی اور لینن کو شہر چھوڑنا پڑا۔ لیکن بولشوکس نے ان خبروں کا مقابلہ کیا کہ لینن ایک جرمن جاسوس تھا، پریس کی مدد سے جو جرمن پیسے سے ہی بنائے گئے تھے اور لینن کے بارے میں رائے ہموار کی۔ لینن 6 نومبر 1917 کو دوبارہ شہر آیا، اب کی بار اسے معلوم تھا کہ طاقت ابھی دکھانی ہے، اور انتظار تمام کئے کرائے پر پانی پھیر سکتا ہے۔ بولشوک ہیڈکوارٹر میں تمام انتظامات مکمل تھے۔ جان ریڈ (John Reed) ایک صحافی تھا جو اس وقت ہیڈکوارٹر میں موجود تھا لکھتا ہے کہ حال میں کئی بولشوک لیڈر موجود تھے ایک نے مجھے ریوالور دکھایا اور بولا “کھیل شروع ہوچکا ہے”، اس رات بولشوکس نے پیٹروگراڈ شہر کے خاص مقامات پر قبضہ کر لیا، وہ بھی بغیر گولی چلائے۔ شہر جاگا تو ایک نیا ورلڈ آرڈر دیکھنے کو ملا۔ عبوری حکومت ختم ہوچکی تھی، بولشوک حکومت میں آگئے تھے جنہوں نے تمام زمینیں لوگوں میں تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پہلا کام جو لینن نے کیا وہ روس کی جنگ کا خاتمہ تھا، جرمن اب مشرقی محاذ سے آزاد ہو گئے تھے۔ انقلاب سے 44 جرمن ڈیویژنز مشرقی محاذ سے مغرب میں لڑنے کے لئے آزاد ہوگئی تھیں۔ جرمنی کے پاس اب جنگ جیتنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply