پہلی جنگ عظیم(پانچویں قسط )مشرقی محاذ۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم میں لڑائی کا مرکز مشرق تھا، یہ لڑائی تھی نسلی اختلاف کی، اور اسی نفرت نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا۔ جہاں جرمنی مغربی محاذ پر تن تنہا اتحادیوں سے ٹکرایا تھا وہاں مشرقی محاذ پر اسے آسٹریا ہنگری کا آسرا تھا کہ وہ روسیوں اور اس کے سلاو اتحادی کو روک پائے گا۔ ان ہیوی ویٹس کے بیچ گھر گئے تھے پولش، یوکرینین، کروایشین اور یہودی۔ لیکن جنگ میں موجود قوتوں کے اردگرد کچھ غیرجانبدار ممالک بھی تھے جو اس کشمکش میں تھے کہ کس کا ساتھ دیا جائے۔ یورپ کے مشرق میں جنگ کی سب سے بڑی مشکل سامان رسد پہنچانا تھی جنوری 1914 کو روس نے جرمنی پر دھاوا بول دیا تھا۔ جرمن سرحد کے قصبوں سے پسپا ہوئے۔ ایک روسی افسر لکھتا ہے کہ ہم آگے بڑھتے گئے اور قصبوں کو لوٹتے گئے اور بعد میں اس پر پچھتاتے رہے۔ ظلم و ستم کی داستان ناقابل بیان ہے۔ ایک 12 سالہ جرمن (PieteKuhr) اپنی ڈائری میں لکھتی ہے کہ مشرقی پرشئنز کا ایک سیلاب امڈ آیا وہ کہتے ہیں کہ روسی پیچھے رہ جانے والی جرمن عورتوں کو درختوں سے باندھتے ہیں پھر ان کے سامنے صلیب ٹانک کر اس پر ان کے بچوں کو کیل سے ٹھونک دیتے ہیں۔ جرمن فوج 100 میل تک پسپا ہو گئی تھی۔

جنرل ہنڈنبرگ (Paul von Hindenburg) کی ریٹائرمنٹ ختم کر دی گئی اور لوڈنڈورف (Erich Ludendorff) کو مغربی محاذ سے بلایا گیا۔ یہ دونوں جنرلز آگے چل کر جرمن کائزر سے بھی زیادہ طاقت ور ہو جائیں گے۔ جرمن نے روس کی سیکنڈ 2 آرمی پر دھاوا بولنے کا منصوبہ بنایا۔ ہنڈنبرگ اور لوڈنڈورف نے روسیوں کی پیش قدمی روک دی تھی اور وہ ہیروز بن کر ابھرے تھے۔ جنوری 1915 میں روسی پولینڈ میں خندقیں کھود کے اپنا دفاع کررہے تھے اب جرمن پیش قدمی کر رہے تھے۔ اگلے مورچوں پر بولیمو (Bolimow) کا گاؤں تھا۔ جرمن نے یہاں کچھ نئے ہتھیار ٹیسٹ کیے۔ فرانسس سمولنسکی (Francis Smolinski) ایک شہری لکھتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر طرف دھواں ہے اور میں آگ آگ کا شور مچائے گھر کی طرف بھاگا۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے، خندقیں زندہ لاشوں سے بھری پڑی تھیں ۔ بے ہوش سپاہی جنگلوں میں پڑے جن میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ یہ ایک عجیب واقعہ تھا جس نے سب کو پریشان کر دیا تھا۔ انجانے میں شاید کتنے سپاہی کومہ کی حالت میں دفن کر دیئے گئے تھے۔ جرمنز نے کیمیائی ہتھیاروں کا پہلی بار استعمال کیا تھا۔ جرمنز نے 18000 آنسو گیس کے شیل فائر کیے لیکن زیادہ ٹھنڈ اور ہوا کے رخ کی وجہ سے روسی یہ حملہ برداشت کر گئے تھے۔ لیکن انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بولیمو کی کبھی تحقیقات نہیں ہوئی۔

دوسری طرف جرمن اتحادی آسٹریا ہنگری روسی یلغار کے بعد اپنی دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا، روسیوں نے قلعہ نما شہر (Przemysl) کا محاصرہ کیا تھا اگر یہ شہر فتح ہوتا تو ہنگری کی شکست لازم تھی۔ روسی 6 ماہ تک محاصرہ کیے   رہے اور اندر روز کسی سو افراد بھوک سے لقمہ اجل بنتے رہے۔ یہ شہر مختلف اقوام کا مرکب تھا آرڈر بھی 15 زبانوں میں جاری کیے جاتے۔ باہر کے دشمن سے زیادہ اندر کے دشمن کا ڈر تھا جس سے روزانہ کیے لوگوں کو پھانسی چڑھنا پڑتا۔ بالآخر (Przemysl) نے ہتھیار ڈال دیئے اور روسیوں نے بغیر لڑے یہ گیریزن فتح کر لیا تھا۔ ایک جرمن آفسر نے اس موقع پر کہا کہ اس کا ملک اب ایک لاش کے ساتھ جکڑا ہوا ہے (Shackled to a Corpse)۔

کچھ چھوٹے ممالک جو حالات کو دیکھ رہے تھے کہ کس کا ساتھ دیا جائے، کون انہیں کیا آفر کرتا ہے۔ ان میں اٹلی، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ شامل تھے۔ رومانیہ کی ملکہ برطانیہ میں پیدا ہوئی تھیں، اس نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کہ رومانیہ کو برطانیہ کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا تھا جس کے بدلے انہیں (Transylvania, Banat Bukovina) کے علاقے ملنے تھے۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے بھی اکتوبر 1914 میں (Sacro Egoismo) مقدس قومی مفاد میں اتحادیوں کی صفوں میں لڑنے کا فیصلہ لے لیا تھا۔ اٹلی کی سرحد آسٹریا ہنگری سے ملتی تھی اور 375 میل سرحد یورپ کے بلند ترین پہاڑوں پر واقع تھی۔ یہاں آسٹرو ہنگری کو سبقت حاصل تھی وہ اونچائی پر تھے۔ یہ ایک جان لیوا علاقہ تھا۔ اٹلی کے الپائن ٹروپس نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ مئی 1915 میں انہوں نے (Cortina d’Ampezzo) پر قبضہ کیا، ان کے سامنے بلند قامت (Lagazuoi Mountain) پہاڑ تھا۔ آسٹریا ہنگری کے کم ہی سپاہی تھے لیکن وہ یہاں بے جگری سے لڑے۔ وہ اپنے سے نیچے دشمن پر گرنیڈ پھینکتے اور ان کی آہ و بکا سنتے۔ بغیر گولی چلائے دن گزر جانا ان کی کامیابی ہی تھا۔ لیکن اطالوی فوج بھی ڈٹی رہی، دونوں فوجیں پہاڑ میں سرنگیں کھودنے میں مصروف تھیں تا کہ وہ دشمن کی پوزیشن تک پہنچیں اور دھماکے سے پہاڑ کو ان کے نیچے سے سرکا دیں۔ (Avalanche) ایک نیا خطرہ تھا ایک موقع پر ایوالانچ سے 272 آسٹریا کے سپاہی مارے گئے۔ سطح سمندر سے دو میل اونچائی پر یہ سپاہی اپنے اعصاب سے جنگ لڑ رہے تھے۔

اٹلی کی ہنگری سے سرحد (Isonzo River) پر لیول ہوتی تھی، جہاں اٹلی کا پہلا حملہ ناکام ہوا تھا اور اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن جنرل کاڈورنا (General Luigi Cadorna) نے پاگل پن میں ایک کے بعد ایک حملے کا حکم دیا۔ 11 حملوں میں تقریبا 3 لاکھ فوجی مارے جا چکے تھے اور وہ حدف سے اب بھی دور تھے۔ کورڈانو (GuiseppeCordano) جولین الپس میں خندق جو کہ ہنگری کی پوزیشن سے 15 میٹر نیچے تھی میں تعینات تھا وہ لکھتا ہے کہ لاشیں آدھی دفن بکھری پڑی ہیں، بندوقیں، کپڑے اور انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ گرنیڈ ان کے بیچ گرتے ہیں پھر وہ سب ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔ مدد کی پکار ہر طرف سے آتی ہے لیکن میں کیسے اپنی جگہ سے جاؤں؟ دس گز کے فاصلے پر زانی کوسر میں گولی لگی ہے، میں اسے تڑپتے ہوئے دیکھ کر وہاں سے گزر گیا اور اپنے آپ سے سوال کرتا گیا کہ میری باری کب آنی ہے۔

1914 کی سردیوں میں جرمن ہائی کمان نے فیصلہ کیا تھا کہ روس کے خلاف ایک بڑا حملہ کیا جائے اور انہیں مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے مغربی محاذ سے 8 ڈیویژن فوج طلب کی تھی۔ اب کارپیتھین (Carpathian) میں جرمن اور آسٹرین ایک سنگ لڑ رہے تھے جس سے فوج کا مورال بلند تھا۔ روسی 3 لاکھ جرمنز اور آسٹرینز کی تاب نہ لاتے ہوئے پسپا ہوئے لیکن مزاکرات کی میز پر نہیں آئے۔ روسی فوج میں قریب ساڑھے چھ لاکھ یہودی تھے لیکن انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ شکست کا بدلہ روسیوں نے اپنی یہودی آبادی پر نکالا جس کی وجہ سے وہ جرمنوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ جرمن کا رویہ شروع میں ان سے کافی اچھا رہا اور انہیں آزادی کا وعدہ کیا گیا۔ اس کا اثر جرمنی میں موجود یہودیوں پر بھی ہوا اور وہ جرمن فوج میں بھرتی ہونے لگے۔ قریب 1 لاکھ یہودی کائزر کی فوج میں لڑ رہے تھے۔ جرمن کامیابی سے مشرق میں آگے بڑھتے رہے یہ انکا ان جنگ میں سب سے کامیاب آپریشن تھا۔ آج کے دن کا (Poland, Lithuania, Belarus and Ukraine) پر قبضہ ہو گیا تھا لیکن یہ علاقہ تباہ حال تھے۔ جرمن نے یہاں کا ریلوے سسٹم اپنے گیج کے مطابق کیا اور پولینڈ کو آزادی دینے کی بات کی۔ زندگی واپس لوٹنے لگی تھی لیکن جرمن اب یہاں سے ہر قسم کے وسائل مغربی محاذ کی طرف منتقل کرنے لگے۔ اب لوگوں میں غصہ بڑھنے لگا وہاں سے لوگوں کو زبردستی مغرب میں مزدوری کرنے لیجایا جانے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹیوٹان اور سلاؤ کے مابین نسلی جنگ عروج پر تھی، جرمنی اور ہنگری اب سربیا کو تباہ کرنے کی پوزیشن میں تھے اور بلقان پر اپنا قبضہ جمانے اور فرانز فرڈیننڈ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے وہ آگے بڑھے۔ اس موقع پر بلغاریہ نے بھی جرمن قوت دیکھ کر اسکا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر 1915 میں جرمن اور ہنگری کی فوج نے سربیا کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا، بلغاریہ نے جنوب مشرق سے دھاوا بول دیا اب سربوں کے پاس بھاگنے کا ایک راستہ تھا لیکن وہ پہاڑوں سے گزرتا البانیہ جاتا تھا۔ سربیا کی فوج پسپا ہوئی اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہو لئے۔ ملک بدر ہوئے یہ لوگ سرد برفیلے پہاڑوں سے ہوتے گئے۔ ان کا مقصد بحیرہ روم سے ہو کر محفوظ مقام تک جانا تھا۔ یہ ایک تاریخی پسپائی تھی، انہی پہاڑوں میں ترکوں نے بھی 1389 میں سربوں کو شکست دی تھی۔ یہ ایک عجیب منظر تھا، سرب ریاست کا ایک جنازہ تھا جو آہ و بکا کرتا جا رہا تھا۔ کونسا سپاہی کس کمپنی اور رجمنٹ کے ساتھ تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ طاقت جواب دے چکی تھی لیکن رکنا محال تھا۔ بچ جانے والے کارفو (Corfu) کے جزیرے پر جمع ہوئے۔ آدھی فوج، قریب 2 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن چکے تھے۔ کتنے شہری مارے گئے کوئی نہیں جانتا۔ سنٹرل پاورز اب مشرقی محاذ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑھے تھی۔ کامیابی سے قطع نظر جرمن اور آسٹریا ہنگری کا تعلق سرد تھا، جرمن اپنی اتحادی کو خود پر بوجھ سمجھنے لگے یہاں تک کہ ان کو اپنے قبضہ میں لینے کی بھی بات ہوئی۔ جبکہ ہنگری جرمنوں سے بیزار تھا اور انہیں اپنا “خفیہ دشمن” کہنے لگا لیکن وہ جرمنی سے علیحدہ ہونا بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ ایک مردہ اتحاد تھا جو جنگ کو زندہ کیے ہوئے تھا۔
اگلی قسط میں (Somme) اور (Verdun) کے محاذ سے دل دہلا دینے  والی داستان اور دونوں اطراف کا ڈیڈلاک توڑنے کی سرتوڑ کوششوں کا احوال

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply