• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی جنگ عظیم(دوسری قسط)جرمن کی بیلجیم اور فرانس پر یلغار۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم(دوسری قسط)جرمن کی بیلجیم اور فرانس پر یلغار۔۔۔آصف خان بنگش

جرمنی تقریبا 38 لاکھ کی فوج کے ساتھ میدان میں تھا، اس کے مقابل مغرب میں اتنی ہی تعداد میں فرانسیسی تھے لیکن مشرق میں اسے 30 لاکھ روسیوں کا سامنا تھا۔ جرمن وسائل دو سرحدوں کے بیچ تقسیم تھے۔ اور سرحد پر فرانسیسی قلعوں پر اسے مزاحمت کا سامنا تھا۔ لیکن بیلجئم کا دفاع کمزور تھا۔ بیلجئم کے رستے جانے کا خیال جنرل شلیفنز (Schlieffenz) کا تھا کہ بیلجئم کے رستے فرانس میں داخل ہو کر فرانسیسی افواج کا محاصرہ کیا جائے۔ لیکن موجودہ جنرل وان مالتکے (von Moltke) کا ماننا تھا کہ دو محاذوں پر جنگ کبھی آسان نہیں ہوگی اور یہ ایک لمبی لڑائی  ہوگی۔

جنگ کے آغاز میں جرمنی میں ایک بے چینی تھی، جنرل  مالتکے نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح فرانس سے طاقتور نہیں لیکن وہ اپنی پوری کوشش کریں گے۔ جرمنی بغیر کسی ماسٹر پلان کے میدان میں اُترا تھا لیکن اس کے جنرلز وقت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے۔ پہلا معرکہ بیلجئم تھا۔ برطانیہ نے بیلجئم کے غیرجانبدار رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن جرمن جانتے تھے کہ برطانیہ کسی بھی طرح جنگ میں کودیں گے اور وہ بھی یہی راستہ اپنائیں گے جو جرمن اپنا رہے تھے۔ بیلجینز کا انحصار جرمن کرپ گنز سے لیس قلعوں پر تھا لیکن جرمن مقابلہ میں (Big Berthas) بگ برتھاز لائے۔ یہ دیوقامت توپ دو حصوں میں 36 گھوڑوں کے  ذریعے لائی  گئی۔

یاد رہے کہ پہلی جنگ میں لاریاں نہ ہونے کے برابر تھیں اس لئے زیادہ تر آمد و رفت کیلئے گھوڑے اور خچر استعمال ہوتے تھے۔ اور جب یہ توپیں چلائی گئیں تو قلعوں کی دیواریں لرز گئیں۔ 16 اگست تک (Liege) لیج کے گرد تمام قلعے فتح ہو گئے تھے۔ لیکن بیلجئم کی جنگ تو صرف آغاز تھا۔

کچھ بیجین سنائپر (franc-tireurs) مزاحمت میں آگے تھے لیکن جرمن جنرل نے ایک آرڈر جاری کیا کہ جو بھی بغیر اجازت کے کسی بھی سرگرمی میں ملوث پایا گیا ان کو سنائپرز سمجھا جائے گا۔ جرمن فوجیوں کی یاداشتیں بتاتی ہیں کہ انہیں جو ٹریننگ دی گئی وہ بے رحمی سے جنگ لڑنے کی تھی۔ پیش قدمی میں جلدی کا دباؤ  مظالم کا پیش خیمہ ثابت ہوا، اور انہیں دشمن پر خوف طاری کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ (Tamines) میں عام شہریوں کو ڈھال بنایا گیا اور فرانسیسی فوج کی پسپائی کے بعد تمام قصبے کو جلا دیا گیا۔ قیدیوں کو فائرنگ سکواڈ کے ذریعے چھلنی کیا گیا۔ تقریباً  6500 فرانسیسی اور بیلجین عام شہری جنگ کے پہلے مہینے میں مارے گئے جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ 180 ہزار لوگ برطانیہ ہجرت کر گئے۔ ان تمام جبر کی کہانیوں نے جنگ کیلئے الائیڈ رائے عامہ کو ہموار کیا۔ جرمن فوج (Gott MitUns) خدا ہمارے ساتھ ہے کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں اور اپنے پیچھے ظلم و جبر کی داستانیں چھوڑ رہی تھی۔

جہاں برطانیہ ایک مضبوط سیاسی اکائی تھا  وہاں جرمنی (جو ریفارمز کی راہ پر چل پڑی تھی اور 40 سال سے جنگ سے دور تھی) ایک شہنشاہ کائیزر ولہم 2 (جو کہ ملکہ وکٹوریہ کے سب سے بڑے پوتے اور برطانوی جارج 5 اور روسی زار نکولس 2 کے کزن تھے) کے زیر سایہ جنگ میں اُتری تھی۔ فرانس ان کا پرانا دشمن تھا جس سے آخری لڑائی 1870 میں لڑی گئی تھی۔ جرمن تابڑتوڑ حملوں کی زد میں تو فرانسیسی اور بیلجئم کی افواج آئیں لیکن جلد ہی انہیں برطانوی افواج کی مدد حاصل ہو گئی۔ جنگ کے پہلے کچھ ہفتوں میں تقریبا ً 1 لاکھ برطانوی فوجی چینل عبور کر کے 21 اگست کو اگلے مورچوں پر تھے ۔ 2 دن بعد برطانوی فوج کو 4 گنا  دشمن کا سامنا تھا۔ اور اتحادی افواج اتنی تعداد میں دشمن کو دیکھ کر جنوب کی  طرف پسپا ہونے لگی۔ مغربی محاذ خندقوں اور مورچوں میں نہیں لڑا  گیا ۔ یہ نہایت خطرناک مرحلہ تھا۔ جنگ کے پہلے مہینے میں جرمن فوج کے ڈھائی لاکھ سپاہی ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔

قریب دس لاکھ پیرس کے باشندے شہر چھوڑ گئے تھے جو کہ  شہر کا ایک تہائی تھے۔ ایک خوف کی فضا تھی، پیرس اور فرانس کی قسمت کا فیصلہ دریائے مارن کے کنارے ہونا تھا۔ 300 میل پر پھیلے اس محاذ کو فرانس نے ہر صورت جیتنا ہی تھا۔ جرمن جس تیزی سے آگے بڑھے تھے وہ ان کے گلے کی ہڈی بنا، کیوں کہ اتنی بڑی فوج کو مسلسل سامانِ  جنگ پہنچانا مشکل تھا۔ فوج کے پاس گھوڑوں کی شدید کمی تھی۔ جنگ کامیابی سے لڑی گئی لیکن فتح ابھی نہیں ہوئی تھی۔ فرانسیسی ہر محاذ پر نظم کے ساتھ پسپا ہوئے تھے۔ جرمن کوئی جنگی قیدی بنانے میں ناکام تھا۔

جرمن بدستور پیرس کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن ان کی پہلی اور دوسری آرمی کے مابین ایک خطرناک فاصلہ پیدا ہو گیا جس کا برطانوی فوج کو انتظار تھا۔ (The battle of Marne) مارن کی لڑائی 5 ستمبر 1914 کو شروع ہوئی۔ فرانسیسی افواج دریا کے کنارے خندقوں میں دفاع کر رہی تھیں۔ جرمن آرٹلری آگ برسا رہی تھی۔ دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرنے کیلئے چھوٹے جہاز اور غبارے استعمال ہو رہے تھے۔ ایک جرمن رپورٹ بتاتی ہے کہ جہاں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی وہیں اچانک ایک فرانسیسی طیارہ نمودار ہوا اور کوئی شئے نیچے گرائی اور فضا ایک خوفناک دھماکے سے گونج اٹھی۔ اس موقع پر ایک فوجی لکھتا ہے کہ یہ ہمارے لئے ایک نئی چیز تھی جس کا مقابلہ ہمارے لئے مشکل تھا۔ دھماکے سے 7 گھوڑے اور کئی جوان مر گئے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اپنا بچاؤ  کیسے کیا جائے۔ اتحادی افواج بھی پیش قدمی کر رہی تھی۔ اب جرمن گھبراہٹ کا شکار ہوئے اوراس بدلتی ہوئی مخدوش صورت حال کو سامنے دیکھ کر 8 ستمبر 1914 کو وان بولو (von Bulow) نے اپنی فوج کو پسپائی کا حکم دے دیا۔

ایک جرمن فوجی اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ ہم مسلسل پسپا ہوتے گئے اور تمام قصبوں کے لوگ ہمیں حقارت سے دیکھتے، ان کیلئے ہم ایک ہاری ہوئی فوج تھے۔ فرانس نے اس لڑائی کو (The miracle at Marne) مارن پر ایک معجزہ کا نام دیا۔ فرانس کو بچا لیا گیا تھا لیکن ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ جرمنی کا بھی اتنا ہی نقصان ہوا تھا۔ 33 جرمن جرنیلوں کو فارغ کر دیا گیا لیکن جرمن عوام کو کبھی مارن کی لڑائی کے بارے میں سچ نہیں بتایا گیا۔ جنگ کے آخر میں بھی یہ بات عام تھی کہ جرمن فوج ناقابل شکست رہی ہے۔ درحقیقت جرمنی جنگ دریائے مارن کے کنارے ہار چکا تھا۔ دوبارہ کوئی بھی ایسا موقع اسکے ہاتھ نہ آتا جو اس نے یہاں گنوایا تھا۔ اب اسے ایک طویل جنگ کا سامنا تھا اور اس کے وسائل اس کیلئے ناکافی تھے۔

نومبر 1914 میں جرمن فوجیں دفاعی پوزیشن میں چلی گئیں اور خندقیں کھود لیں۔ اتحادی افواج کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور وہ بھی (Trenches) میں چلی گئی۔ اب مغربی سرحد پر بھی خندقوں میں جنگ تھی جو کہ چینل سے لے کر سویٹزرلینڈ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اگلے تین سال سپاہی اسی خاک وخون کی ہولناکیوں سے گزرنے والے تھے۔ 27 سالہ برنارڈ مونٹگمری (Bernard Montgomery) الامین کا فاتح اپنی والدہ کو لکھ رہا تھا ” ہمیں عجیب صورتحال کا سامنا ہے۔ میں پودینہ  کھا رہا ہوں اور ایک نعش میرے پاس پڑی ہے۔ جرمن مورچے 700 گز کے فاصلے پر ہیں۔ موسم سرد ہے میرے کپڑے مکمل گیلے ہیں اور کیچڑ لگے ہوئے ہیں لیکن ٹھنڈ کی وجہ سے اتار نہیں سکتا۔ آپ کچھ بھی گرم چیز بھیجیں گے تو میں شکرگزارہوں گا”

جرمن فرانس اور بیلجئم کے بہت سے وسائل پر قابض ہو گئے تھے اور انہیں وہاں سے جرمنی منتقل کیا جا رہا تھا۔ لیکن یہ صرف حکومتی سطح تک نہیں تھا قابض افواج بھی انہی علاقوں پر منحصر تھی وہ مقامی لوگوں سے چھین کر کھانے لگے۔ ایک فرنچ لڑکے یاوس (Yves Congar) نے یہ تمام واقعات اپنی ڈائری میں لکھے جو آنے والے وقت میں ان پر بیتے ایام کا ریکارڈ بنے۔ وہ لکھتا ہے کہ جرمن ہمیں مارتے پیٹتے، عورتوں کو لے جاتے، ہم سے خوراک چھینتے، ہم انتہائی ذلت سے رہ رہے تھے۔ ایڈتھ کیول (Edith Cavell) ایک برطانوی خاتون تھیں جو برسلز (Brussels) کے ایک ہسپتال کی میٹرن تھی۔ اس نے کئی اتحادی فوجیوں کو ہالینڈ فرار میں مدد کی۔ اگست 1915 میں پکڑی گئی، اور موت کی سزا ہوئی۔ مرنے سے پہلے اس نے جیلر سے کہا کہ مجھے موت کا خوف نہیں، میں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا کہ اب خوف میرے لئے کوئی اجنبی چیز نہیں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ صرف حب الوطنی کافی نہیں۔ میں کسی سے بھی کچھ شکائیت نہیں کرتی اور نہ ہی میرے دل میں کسی کیلئے نفرت ہے۔

یاوس کاگنز جس دوسری جنگ عظیم میں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا، جرمن تسلط کے بارے میں لکھتا ہے ” مشکل سے روٹی دستیاب ہے، یہ بدبخت ہمیں بھوک سے مار دینگے۔ آخر کار ہم فرانسیسی ہیں اور اگر ہمیں مرنا پڑا تو ہم مر جائیں گے لیکن فتح فرانس ہی کی ہوگی”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply