• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔ہما جمال

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔ہما جمال

شایان نبی کیسے کوئی مدح سرا ہو

سرکار کی توصیف کا حق کیسے ادا ہو۔۔۔
جناب شکیل مدنی کی نعت کا یہ پہلا شعر نبی صلی الله علیہ وسلم کی حمد سرائی کرتے ہوئے یہ حقیقت آشکار کررہا ہے کہ عاجز انسان جو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے عشق میں بھی مبتلا ہو وہ بھی اگر آقائے دوجہاں کی تعریف کرنا چاہے تو ہر گز وہ اس حق کو ادا نہ کرپائے گا جو نبی صلی اللہ وسلم کی ذات اقدس کے ہم مرتبہ ہو ۔۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا نہایت آسان ہے، کیونکہ یہ ہماری گھٹی میں شامل کردی جاتی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  سیرت کو سمجھنا شاید بہت مشکل کام ہے ۔
مجھے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ کی ذات کے چیدہ چیدہ اوصاف لکھنے کو کہا جاتا تو شاید بہت کچھ لکھ جاتی کہ میرے پیارے آقا کے بال ایسے تھے، آقا کی چال ایسی تھی آقا نرم دل تھے، پاکیزگی کا پیکر تھے اور بہت کچھ لیکن جب کہا گیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بطور ایک ترقی پسند رہنما تھے تو ان کی سیاسی اور سماجی اصلاحات لکھیے ،پھر مجھے اوائل سے لیکر آخر تک جائزہ لینے کی ضرورت پیش آئی کہ فقط اس ایک پہلو پر میرے آقا محمد مصطفیٰ کی سیرت کیا مثالیں بتاتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائشی یتیم ہونے کے باعث باپ کا وہ لاڈ پیار نہ آزما سکے جو کسی بھی پہلی اولاد نرینہ کا نصیب ہوتا ہے۔لیکن بچپن میں ہی ان سیاسی عمائدین کی سربراہی نصیب ہوگئی جو اپنے وقت کے سردار کہلاتے تھے،دادا عبدالمطلب اور پھر ابوطالب کی سردارانہ اور قائدانہ طبعیت نے آقائے دوجہاں کو سیاسی بصیرت بخش دی تھی۔
حجر اسود نصب کرنے کے واقعے میں سب سے پہلے میرے آقا کی سمجھ بوجھ کے اس فیصلے کو دیکھیے جب چار قبائل حجر اسود کو نصب کرنے کیلئے جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے ، فیصلہ ہوا کہ اُس کی بات مانی جائے جو سب سے پہلے مسجد الحرام میں داخل ہو،پھر جو شخص ،جو جوان سب سے پہلے داخل ہوا، صدائیں گونج اٹھیں کہ یہ تو صادق ہیں، یہ تو امین ہیں ۔
اور پھر صادق اور امین نے حجر اسود ایک چادر پر رکھ کر چاروں قبائل کے سرداروں سے چادر کا یک ایک کونہ پکڑ کر مقررہ مقام تک لانے کو کہا اور یوںآپ ﷺ   نے حجر اسود اپنے ہاتھوں سے نصب کرکے اپنی کمال سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے ایک جنگ کو شروع ہونے سے پہلے ختم کیا۔

آقائے دوجہاں آغاز نبوت کے بعد مکہ میں اپنے خونی رشتوں اور اہل مکہ کے ظلم وستم سہہ کر ہجرت کیلئے کسی دوسرے شہر فرار نہیں ہوئے، بلکہ اسی جگہ رہتے ہوئے یثرب اپنے سفیر روانہ کیے ۔آپکے سفیر اہل یثرب کو ایک عرصے تک اللہ اور اسکے نبی کی دعوت دیتے رہے جب اہل یثرب کے بڑے سرداروں نے اس دعوت حق کو قبول کرلیا تب میرے آقا نے ہجرت کا حکم صادر فرمایا
اور پھر یوں ایک انجان شہر یثرب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارتکاری کے تحت وہ اسقبال ہوا کہ یثرب گونج اٹھا
طلع البدلو علینا ۔۔۔اور یثرب مدینۃ النبی بن گیا ۔۔۔۔۔
یہ پہلا شہرتھا جو بغیر جنگ کے سیاسی اصولوں کے تحت مذاکرات سے فتح کیا گیا ۔۔۔
مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کے رموز باآسانی سمجھے جاسکتے ہیں لیکن سماجی اصلاحات کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مدینہ (جس کی مکمل حکومت آپ کے ہاتھ میں آچکی تھی) اہم ہے۔
اسلامی فلاحی ریاست مدینہ کا پہلا سماجی کام مسجد نبوی کی تعمیر تھا، یہ مسجد فقط نماز و عبادت کے لئے مخصوص نہ تھی بلکہ یہ ایک باقاعدہ یونیورسٹی تھی، جس میں مسلمان علم کا حصول کرتے، محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش و نفرت اور باہمی جھگڑوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل جول اور محبت سے مل رہے تھے۔
یہ ایک مرکز تھی جہاں سے ننھی سی ریاست کے تمام امور انجام پاتے تھے، اس سب کے ساتھ یہ مسجد ان فقراء، مہاجرین کا مسکن تھی جن کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔مدینہ میں آپکے رفقاء یعنی مہاجرین، مدینہ کے باشندے یعنی انصار اور یہود و مشرکین پر مبنی تین گروہ موجود تھے ۔۔یہودیوں سے معاملات طے کرنے کیلئے مدینہ آمد کے ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ کیا جسے باقاعدہ تحریر کیا گیا ۔اس معاہدے کا مقصد غیر مسلموں سے سماجی تعاون درکار تھا، تفصیل بتاتی ہے کہ یہ معاہدہ مظلومین مدینہ یعنی انسانیت کے اصولوں پر مبنی ہے، جس میں مذہب اسلام کو کوئی فوقیت نہیں دی گئی بلکہ برابری کی بنیاد پر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے باہمی تعاون پر قول و قرار کیے گئے ۔
انصارو مہاجرین اصلاحات ،نظم و ضبط، اخوت بھائی چارگی، فلاح و بہبود کوئی شعبہ نہ چھوڑا گیا جس پر میرے آقا نے سیاسی اور سماجی بصیرت استعمال نہ کی ہو۔۔۔

نبی کریم اور رفقاء مدینہ سے مکہ حج کیلئے گئے ،حدیبیہ کے مقام پر روکا گیا ،جنگ کے آثار پیدا ہوگئے لیکن صلح حدیبیہ کو ترجیح دی، ایسی صلح جس پر سراسر مسلمانوں پر تنگی تھی، پھر بھی اصحاب کو دور اندیشی کے سبب خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا ۔خاموشی بھی اتنی کہ کفار محمد الرسول اللہ مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھوانے پر مصر ہوئے تو بھی مان گئے ۔صلح حدیبیہ کے بعد میرے آقا مدینہ تشریف لائے تو سیاسی تدبیر اختیار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر حکمرانوں میں اپنے خطوط بہترین قاصدوں کے ہمراہ روانہ کیے،اور یوں بہت سے حکمران میرے آقا کی مہر نبوت دیکھ کر خطوط کا متن سمجھ کر قاصدوں سے متاثر ہوکر بغیر کسی جنگ کے مسلمان ہوئے ۔۔جنگ جو فقط قتل و غارت اور لوٹ مار تھی آقائے دوجہاں نے اس جنگ میں اپنی سیاسی بصیرت سےوہ اصول بنائے کہ وہ مقدس جہاد بن گیا،بچوں کو عورتوں کو نہ مارا جائے ،بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہ کیا جائے۔درخت نہ کاٹے جائیں نہ جلائے جائیں، کسی کی کوئی چیز لوٹ مار کرکے نہ چھینی جائے اور بے شمار اصول، جن کا احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں، لیکن جدت پسندی اور ترقی پسندی کی ایک مثال کہ قیدیوں کی رہائی کی شرط یہ تھی کہ وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔
پھر آخرکار جب مکہ فتح ہوگیا اورآقا صلی اللہ علیہ وسلم ایک سردار کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوگئے تو اپنے پہلے خطاب میں اس مجمع سے مخاطب ہوکر فرمایا جس میں آپ کی لخت جگر کا قاتل بھی موجود تھا

“آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں”

یہ وہ تاریخی الفاظ تھے جس سے جانی دشمن قبائل بھی میرے آقا کی سیاسی بصیرت کے گرویدہ ہوکر اور جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ جسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے، سماجی اصلاحات کا مکمل متن ہے۔۔۔۔۔
1-انسانی جان کا قتل حرام قرار دیا گیا ۔۔
2-زمانہ جاہلیت کے تمام قتل معاف کئے گئے، سب سے پہلے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون مثال بنا کر معاف کیا
3-سود کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مثال کے طور پر سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کیا ۔
4- عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا، عورتوں کے تمام حقوق مردوں پر فرض کیے۔
5- غلاموں سے نرمی برتنے کا حکم دیا اور آپکی تمام حیات میں غلاموں سے آپکا برتاؤ اس حکم پر عمل پیرا ہونے کیلئے مثال ہے ۔
6مذہب میں شدت پسندی اختیار کرنے سے سختی سے منع کیا ۔
7-تمام تفریق مٹاتے ہوئے کہا کہ میں بڑائی کے ہر دعوے کو اپنے پیروں تلے کچلتا ہوں کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ۔
8-برتری کا معیار بتایا تو صرف اور صرف پرہیزگاری کو ۔۔۔۔

یہ تحریر اس قابل ہرگز نہیں کہ میرے آقا کی مکمل سیاسی اور فلاحی زندگی کا احاطہ کرسکے لیکن آخر میں ایک مثال اپنے ملک کے حکمرانوں کی حالت پر لکھنا چاہوں گی کہ میرے آقا سماجیات کو سمجھنے والے رہنما تھے،جب ایک آدمی آپ کے پاس آکر دست سوال ہوا تو اسے اس کی ضرورت بخشنے کے بجائے کاروبار کی رغبت دلائی، اسی شخص سے اسکے گھر کا سامان منگوایا، بکوایا اس کے عوض کلہاڑی اور رسہ منگوا کر جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کاٹ کر بیچنے کے کام پر لگایا ،آقا نے گداگری سے دست سوال پھیلانے سے کراہیت اختیار کرتے ہوئے حلال رزق کمانے کی جانب رغبت دلائی،
جبکہ دور حاضر کے حکمران عوام کو روزگار دینے سے جب قاصر رہتے ہیں تو  سکیموں کے تحت لنگر خانوں کے تحت اپنی سیاست چمکاتے ہیں،
اللہ کے نبی کا کفار و مشرکین، اہل کتاب اور تمام عالمی حکمرانوں سے گفت و شنید ،مناظرہ و مباہلہ ہر چیز سے میرے آقا کی جدت پسندی جھلکتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ آقائے دوجہاں محدود مذہبی تعلیمات لے کر آنے والے معلم نہیں بلکہ ایک ترقی پسند رہنما تھے ۔۔

المختصر جناب شکیل مدنی فرماتے ہیں،

ہر دور کی تاریخ سے یہ پوچھ رہا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

ہے تیرے یہاں کوئی جو آقا سے بڑا ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply