آئینے کے سامنے ( افسانچہ )۔۔۔اجمل صدیقی

آئینے کے سامنے کوئی بد صورت نہیں ہوتا
آئینے کے سامنے ہم اپنے دل کا آئینہ کھول لیتے ہیں
طوائف راہبہ بن جاتی ہے
ڈاکو ،ولی
بڑھیا ،دلہن
بوڑھے ،جواں سال
آئینے کے سامنے
ہر عورت محبوبہ ہوتی ہے اور ہر مرد محبوب
آئینہ کسی بھی چہرے کو معمولی نہیں رہنے دیتا ۔
دل کا آئینہ بڑا عجیب ہے
کبھی فریم بدل لیتا ہے کبھی تصویر
دل کا آئینہ
کسی کی آنکھ
کسی کے لب
کسی کے بال
چُرا کر نئے پیکر تراشا رہتا ہے
دل کسی کا دوست نہیں ہے
اس کے اپنے پیمانے ہیں
جو باتوں اور وعدوں کی گرفت سے باہر ہیں
آئینے بہت حیرت فروش ہوتے ہیں
آئینے خواب بیچتے ہیں
بہت قیمتی خواب
آئینہ کو نہ دیکھو تو بُرا نہیں مانتے
لیکن کچھ لوگ آئینے سے نفرت کرتے ہیں
مجھے بھی آئینے سے نفرت ہے
اس کے سامنے آتے ہی
میرے روح کے مقابر کھل جاتے ہیں
میں نے جس جس کا حق مارا ہے
وہ سامنے کھڑا ہوجاتا ہے
وہ شکنتلا ہے
وہ بہت خوبصورت ہے
جب اپنے خاوند کے ساتھ جاتی ہے
میرا دل کرتا ہے اس کے خاوند کو قتل کردوں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ارے وہ پریما ۔۔۔
میں نے کئی  بار چاہا ہے کہ اسے بر ہنہ دیکھو ں ۔۔۔
وہ انجلی
جسے میں بھگا کر لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
وہ ہمارا   boss ہے
جس کے سامنے میں بہت مہذب بنتا ہوں
اس کے جاتے اسے گا لیاں دیتا ہوں ۔۔۔
وہ کریسنٹ کریانے والا جس نے مجھے ادھار نہیں دیا ۔
اسے بھی کئی بار قتل کر چکا ہوں
وہ سیٹھ جس سے میں وقت بوقت لنچ کرتا ہوں لیکن
اس کے پیلے دانت مجھے زہر لگتے ہیں
بس کر
اب آئینے اکیلے ہیں ۔
تو اکیلا نہ ہوجانا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply