بین الکائناتی عشق۔۔ضیغم قدیر

خوابوں کے سمندر میں، مَیں نے دیکھا دسمبر کی یخ بستہ رات تھی۔ چار سو کہرا تھا۔ دھند میں فاصلے پہ موجود کوئی چیز بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایسے میں ایک ہیولا میری طرف بڑھا۔ قدموں کی چاپ سے اندازہ ہو چکا تھا یہ کسی الہڑ مٹیار کے قدم ہیں۔ رات کے اس پہر یوں ویرانے میں کسی الہڑ مٹیار کا خیال بھی ایک جھرجھری سی دیتا ہے۔ چودھویں کا چاند اپنی خنک روشنی کے ساتھ ماحول کی ٹھنڈک کو ہر ممکن طریقے سے بڑھا رہا تھا۔ ایسے میں وہ قدم نزدیک آتے گئے۔ کیا دیکھتا ہوں وہ کوئی اور نہیں تم تھیں ۔ تم نے مجھے آواز دی اور بخدا میں نے پہچان لی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو سماں رُک سا گیا۔

تم میرے پاس آکر رُک گئیں ۔ یوں تو تمہارے اور میرے درمیان فاصلہ محض چند قدموں کا تھا۔ مگر دھند نے ہمیں دنیا و مافیاء سے یوں الگ تھلگ کر رکھا تھا جیسے ہم دونوں تنہا کسی ویران سیارے کے باشندے ہوں، اور اب یہ سیارہ ہمارے بنائے گئے قوانین پہ چل رہا ہو۔ اور ہم اُس سیارے کے پہلے دو انسان ہوں، وہ انسان جو اس سیارے کی آنے والی ایک ایک نسل کا ماخذ ہوں۔گویا ہم اس سیارے کا ایک چشمہ ہوں۔ مریخی تتلوں کی ٹیں ٹیں اس بات کی گواہی دے رہی ہوں کہ ہاں تم دونوں ہی تنہا اس سیارے کے تنہا وارث ہو۔چاند کی روشنی میں سب کچھ سفیدی مائل دِکھ رہا تھا۔ مگر تمہارا چہرا آج ویسا نہیں لگ رہا تھا جیسا پہلے لگتا تھا۔ تمہارا چہرہ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی چاند زمین پہ اترا ہو اور میں زمین نما سیارہ اُسکی روشنی سے سکون تلاش کرتا ہوا اُس کا طواف کر رہاہوں۔میرے من کے اندر اٹھنے والی ہر موج تمہاری کشش کی محتاج ہو۔ کہتے ہیں کہ جب انسان کے پاس تقابل کے لئے کچھ نہ ہو تو اُسے پتھر بھی ہیرے جواہرات لگتے ہیں۔ مگر بخدا تم ہیرے جواہرات کے سامنے بھی ایک بیش قیمت موتی لگو جس کی چمک تمام آنکھوں کو چندھیا دے۔

میں اسی منظر میں کھویا ہوا تھا کہ تم گویا ہوئی ، کیا بولی معلوم نہیں۔ تمہارے منہ سے نکلا دھواں جب ہوا میں تحلیل ہوا تو میں نے ایک گہرا سانس بھر لیا۔ یہ گہرا سانس اس لئے کہ تمہاری سانس سے نکلا کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہر ذرہ میری سانسوں میں چلا جائے۔ میرے وجود کا ہر ذرہ تمہارے وجود کے ذرّوں سے جا ملے۔

مگر پھر ایک ڈراونا منظر آگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ دھند چھٹنا شروع ہوجاتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے کسی نے کوئی ایسا مقناطیس لگا دیا ہو جس سے کرہ مریخ کی ہوا کا ایک ایک ذرّہ کھینچا جا سکے۔ چاند کی روشنی مانند پڑنا شروع ہوگئی تھی۔ مریخی تتلیوں کی چیخ و پکار اس حد تک بڑھ چُکی تھی کہ ہم دونوں خوف سے تھر تھرانا شروع ہوگئے تھے۔ تم نے ڈر کے مارے جونہی میرے ہاتھوں کو تھاما مریخی تتلیوں کا شور لمحے بھر کو تھم سا گیا تھا۔ مگر پھر پسِ منظر بدلنا شروع ہو گیا۔ وہ مقناطیس جو صرف دھند کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا اب تمہیں بھی کھینچے لگ گیا تھا۔جیسے اُنہیں تمہارا میرے ہاتھوں کو تھامنا بُرا لگا ہو۔ تم دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔ میرے وجود کا ذرہ ذرہ کانپ رہا تھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے کسی غریب کی ساری جمع پونجی اس کے سامنے فنا ہو رہی ہو، اور چونکہ وہ غریب ہے اس لئے سوائے ہاتھ مارنے کے وہ کچھ نہ  کرسکے۔ میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ پھر تمہارا چہرہ ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہوگیا، مگر تم نے جرات کرکے میرا بوسہ لے لیا۔ بوسہ لیتے ہی تمہارا چہرہ فنا ہوگیا، تمہارے ہاتھ فنا ہوگئے۔ مگر لمس باقی رہ گیا۔ پھر مریخی تتلیوں کا ایک غول میری طرف بڑھا اور مجھے گھیرے میں لیکر طواف کرنے لگ پڑا۔ جیسے میں انکا مرکز ی ستارہ ہوں؟ اور وہ میرے گرد طواف کرتے سیارے۔انکے طواف کیساتھ ہی میراوجود بھی تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے میرے ہاتھ سب سے آخر میں تحلیل ہوئے تھے اور تمہارا لمس بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب کیا دیکھتا ہوں، میری آنکھ کھُلی ہے، لان میں پرندے چہچہا رہے ہیں۔ بستر سے نکل کر آئینہ دیکھتا ہوں تو تمہارے بوسے کے نشان نظر آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے یہ خواب نہیں تھا حقیقت تھی۔ مگر یہ حقیقت خواب میں نہیں بلکہ کسی دوسری ملٹی ورس میں رونما ہوئی تھی۔ جہاں میں رات کو گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply